تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     25-01-2017

حکومت برطانیہ کی خدمت میں ایک عرضداشت

عالی قدر، گرامی مرتبت، غریب نواز محترمہ تھریسامے، وزیراعظم سلطنت برطانیہ اعلیٰ اللہ مقامہا!
جیسا کہ جناب آگاہ ہیں‘ ہم درخواست گزاروں کا تعلق مملکت پاکستان سے ہے۔ حضور اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ مملکت پاکستان‘ برصغیر کا حصہ ہے اور برصغیر پر 1947ء تک برطانیہ کی حکومتی رہی ہے۔ جب اگست 1947ء کو حکومت برطانیہ ہم عوام کی رضا و منشا کے برخلاف برصغیر سے رخصت ہوئی تو یہ علاقہ دو آزاد ملکوں میں منقسم ہو گیا۔ جناب وزیراعظم! ہم درخواست گزار، مملکت پاکستان کے باشندے ہیں اور آج بھی حکومت برطانیہ کے کارنامے اور انصاف یاد کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ گورا بہادر کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رخصت ہوتے وقت حضور کی حکومت وہ گھاٹ اپنے ساتھ ہی لے گئی اور شیر و بکری کو چھوڑ گئی!
عالی قدر وزیراعظم کو یاد ہو گا کہ انیسویں صدی کا تقریباً وسط تھا جب پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں ملکہ برطانیہ کی حکومت نے برصغیر میں ریلوے کا ڈول ڈالا۔ بنیادی طور پر ریلوے قائم کرنے کے دو مقاصد تھے۔ سرکاری فوج کی نقل و حرکت اور برصغیر کے اطراف و اکناف سے کاٹن اکٹھی کر کے بندرگاہوں تک پہنچانا تاکہ اس کاٹن کو برطانوی فیکٹریوں تک پہنچایا جائے۔ عالی مرتبت وزیراعظم کو یہ بھی معلوم ہی ہو گا کہ ریلوے کی تعمیر‘ سامراجی لُوٹ کا بدترین مظاہرہ تھا۔ ریلوے کمپنیاں لندن میں تھیں۔ ٹھیکے انہی کو ملتے تھے۔ یہ من مانی قیمتیں لگاتی تھیں۔ منافع برطانیہ میں بیٹھے شیئر ہولڈروں (حصہ داروں) کو ملتا تھا۔ اب تو یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ 1850ء اور 1860ء کی دہائیوں میں ریلوے کے ہر ایک میل پر لاگت اٹھارہ ہزار پونڈ آئی جبکہ اُسی عرصہ کے دوران امریکہ میں یہ لاگت دو ہزار پونڈ فی میل آئی‘ یہ تمام اخراجات برصغیر کے عوام سے ٹیکسوں کے ذریعے وصول کئے گئے۔
خیر‘ یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو درمیان میں آ گیا۔ ہم پاکستانی عوام عرض یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایک لائق فائق انجینئر کو جس کا نام رابرٹ میٹ لینڈ بیریٹن تھا‘ 1857ء میں ہندوستان طلب کیا گیا۔ عالی مرتبت وزیر اعظم کی اطلاع کے لیے مختصراً بیان کیا جاتا ہے کہ بیریٹن برطانوی علاقے نارفوک میں پیدا ہوا تھا۔ یہ خاندان یوں بھی انجینئروں کے لیے مشہور تھا۔ لندن کے معروف پیڈنگٹن سٹیشن کی تعمیر میں بھی رابرٹ ہی کا حصہ تھا۔
اُس وقت فوری مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی کا اور بعد میں ملکہ کی حکومت کا یہ تھا کہ بمبئی اور کلکتہ و مدراس کو ریل کے ذریعے ملایا جائے۔ یہ ریلوے لائن پورے منصوبے کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئی۔ رابرٹ میٹ لینڈ بیریٹن نے رات دن محنت کی۔ دو بار بھیل قوم کے قبائلیوں نے اُس کے پڑائو پر لوٹ مار کے لیے حملہ بھی کیا مگر دونوں بار وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ گیا۔ رابرٹ کی کارکردگی سراہتے ہوئے حکومت نے بعد میں اُسے پوری ہندوستانی ریلوے کی تعمیر کا چیف انجینئر تعینات کیا۔ منصوبے کا نام گرانڈ انڈین ریلوے تھا۔ حکومت نے جو وقت مقرر کیا رابرٹ نے اس سے پہلے ہی منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا دیا (بعد میں رابرٹ کو آب پاشی کا ایک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے امریکی حکومت نے بلا لیا۔) جب ریلوے لائن کا وائسرائے نے افتتاح کیا تو اس تقریب میں انگریز عمائدین کے ساتھ مقامی نواب اور راجے بھی مدعو کئے گئے۔ نظام حیدر آباد کی نمائندگی اس کے وزیر سالار جنگ نے کی جو پہلی مرتبہ حیدرآباد سے باہر نکلے۔
عالی مرتبت وزیراعظم! اس عرضداشت کا مقصد یہ ہے کہ جناب کرم فرماتے ہوئے رابرٹ میٹ لینڈ بیریٹن کے کسی پڑپوتے یا اس کے پوتے کے کسی پوتے کو کچھ عرصہ کے لیے پاکستان بھیجیں کیونکہ ہم ایک عذاب میں مبتلا ہیں اور لگتا ہے کہ ہماری حکومتوں کے بس میں اس عذاب سے رہائی دلانا ممکن نہیں! رابرٹ کا کوئی جانشین ہی ہماری مدد کر سکتا ہے!
محترمہ وزیراعظم برطانیہ! ایک سابق کالونی ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کی ہمدردی اور التفات کے مستحق ہیں! ریلوے کی کراسنگ جو آپ کے زمانے میں بنی تھیں‘ اُن پر باقاعدہ پھاٹک لگے تھے۔ یہ پھاٹک ریل کے گزرنے پر بند کر دیے جاتے تھے۔ یوں حادثوں سے بچت ہو جاتی تھی۔ مگر اب اکثر کراسنگ بے یارومددگار پڑے ہیں۔ اس وقت تقریباً اڑھائی ہزار ریلوے کراسنگ پر کوئی چوکیدار‘ کوئی ملازم موجود نہیں۔ گزشتہ تین یا چار برسوں کے دوران اسّی پاکستانی ان کراسنگ پر ہلاک ہو چکے ہیں۔ دو دن پہلے گوجرہ کے مقام پر ریل نے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کو کچل دیا۔ ریل آئی تو یہ کراسنگ موت کے دروازے کی طرح کھلی تھی۔ دردناک پہلو اس قتل عام کا یہ ہے کہ ان چھ میں ایک فالج کا مریض بھی تھا جسے علاج کے لیے کہیں لے جایا جا رہا تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ضلع میں 42 ریلوے کراسنگ ہیں جن میں سے 29 پر کوئی آدم زاد مامور نہیں اور حادثے اکثر و بیشتر ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال اس ایک ضلع میں بارہ افراد ان کراسنگ کی بھینٹ چڑھے۔
جناب وزیراعظم! جب جناب اپنا قیمتی وقت عنایت کرتے ہوئے رابرٹ کے کسی پڑپوتے کو اس کارِ خیر کی تکمیل کے لیے مامور فرمائیں تو اسے یہ ہدایت ضرور دیجیے کہ کچھ وقت ہماری مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان جھگڑے چکانے کے لیے ضرور نکالے۔ ہماری مرکزی وزارت ریلوے ان کراسنگ کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈالتی ہے؛ حالانکہ بچے بچے کو معلوم ہے کہ ریلوے ایک وفاقی محکمہ ہے اور پھاٹک لگوانا اور ان پھاٹکوں پر ملازمین تعینات کرنا ریلوے کے محکمے کی ذمہ داری ہے۔
حضور! بندہ پرور! ہمیں آپ کی مصروفیات کا احساس ہے۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ریلوے وزیر پاناما کی جنگ میں پہلی صف میں کھڑے ہو کر لڑ رہے ہیں۔ پاناما کے جرنیلوں میں آپ کا مقام ممتاز ہے۔ اگر ریلوے کا کام رابرٹ کا پڑپوتا سنبھال لے تو اس میں خیر کا ایک پہلو یہ بھی نکلے گا کہ ریلوے وزیر مکمل توجہ پاناما کی جنگ جیتنے پر دے سکیں گے!
لگے ہاتھوں ہم ایک اور التماس بھی کر دیں! ہمارے دو بڑے شہروں لاہور اور راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشنوں پر رابرٹ کی بنائی ہوئی سیڑھیاں ابھی تک استعمال ہو رہی ہیں۔ آپ اتفاق کریں گی کہ رابرٹ کے زمانے اور آج کے زمانے میں بہت فرق ہے۔ اُس وقت لوگ خالص دودھ‘ گھی‘ آٹا اور خالص مرچیں استعمال کرتے تھے اور صحت مند ہوتے تھے۔ اب ان سیڑھیوں پر سامان اٹھا کر چڑھنا‘ اترنا مشکل ہے، خاص طور پر خواتین بچوں اور بوڑھوں کو شدید دقت کا سامنا ہے۔ اگر رابرٹ کا پڑپوتا کسی طور یہاں برقی سیڑھیاں لگوا دے تو یہ ملکہ کی حکومت کا ہم سابق غلاموں پر ایک احسانِ عظیم ہو گا!
ضرورت تو مداخلت کی بہت سے شعبوں میں ہے مگر جناب کی بے پناہ مصروفیات کے پیش نظر ہم اسی جرأت پر اکتفا کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved