تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-01-2017

اہلِ ملتان کو میٹرو مبارک ہو

اگر اس فقیر کی طبیعت درباری ہوتی تو آج کے کالم کا آغاز نہایت ہی آسان تھا۔ کالم اس طرح شروع ہوتا کہ ''آج قدرت ملتان پر کچھ زیادہ ہی مہربان اور فیاض تھی۔ سردی جو کہ دوچار دن کی بہار دکھلا کر رخصت ہو رہی تھی ایک بار پھر لوٹ آئی۔ صبح سے ہی ملتان کا موسم بقول شاعر عاشقانہ تھا۔ آندھیوں کے لیے بدنام اس شہر قدیم پر ابر رحمت چھایا ہوا تھا اور ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ پھوار بھی ایسی نپی تلی کہ اس کی فرحت کا احساس تو ہو رہا تھا مگر نہ کپڑے بھیگ رہے تھے اور نہ ہی بال گیلے ہو رہے تھے۔ ایسا موسم ملتانیوں کے لیے سال میں کبھی کبھار نہیں بلکہ سالوں میں دیکھنے میں آتا ہے اور آج ایسا ہی دن تھا اور ایسی ہی حسین صبح تھی جو طلوع ہوئی اور کیوں نہ ہوتی؟ عدالتوں‘ اداروں‘ ووٹروں اور بہت سارے اخبار نویسوں کی طرح قدرت بھی میاں نوازشریف پر مہربان ہے اور آج میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان ملتان میٹرو بس سروس کے افتتاح کے لیے ملتان آ رہے ہیں۔ ادھر میاں صاحب کا طیارہ ملتان کے لیے ہوا میں بلند ہوا ادھر بادلوں نے ملتان کا عزم کیا۔ یوں میاں نوازشریف اور غیر معمولی خوشگوار پھوار اکٹھے ملتان کے لیے رحمت بن کر آئے۔ آج کا دن ملتان والوں کے لیے ایسا خوش قسمت دن ہے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔
قارئین! مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے آج کے کالم کو اس انداز کے آغاز کے بعد جاری نہیں رکھ سکا کہ ایک پیرے کے بعد ہی میری سالوں سے جمع شدہ چاپلوسی کا اختتام ہو گیا ہے اور اگر میں نے اب اپنے حساب سے کالم نہ لکھا تو پھر اس کا اختتام یہیں سمجھ لیں۔ کیونکہ اتنے مختصر کالم لکھنے کا ابھی رواج نہیں آیا اس لیے مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنا کالم دوبارہ وہیں سے شروع کروں جہاں سے مجھے شروع کرنا چاہیے تھا۔ تاہم آپ کے لیے ایک خوشخبری یہ ہے کہ میرے اصل کا آغاز بھی تقریباً اسی قسم کے تعریفی جملوں سے ہی شروع ہو رہا ہے جیسا کہ درباری کالم کا آغاز تھا۔
مجھے نہیں پتہ کہ آج صبح کا آغاز باقی ملتان والوں کے لیے کیسا تھا لیکن میرے لیے بڑا خوشگوار تھا۔ صبح اٹھ کر باورچی خانے میں جا کر چولہا جلایا تو گیس اتنے پریشر سے آ رہی تھی کہ چولہا جلنے کے بجائے بجھ گیا۔ میں روزانہ صبح اسی وقت اٹھ کر کشمیری چائے بناتا ہوں اور برادر عزیز آغا نثار کی ہر پندرہ روز بعد بھجوائی جانے والی تازہ اور خستہ باقر خانیوں میں سے ایک باقرخانی نکالتا ہوں اور اس کا چورا بنا کر چائے میں ڈالتا ہوں اور مزے کا ناشتہ کرتا ہوں، روزانہ یہ کام اسی طرح ہوتا ہے کہ چائے چولہے پر رکھتا ہوں اس میں چھوٹی الائچی اور بادیان کے دو تین پھول ڈالتا ہوں اور خود نہانے چلا جاتا ہوں نہا کر آتا ہوں تو چائے اتنی ابلی ہوتی ہے کہ تیار تو ہو چکی ہوتی ہے مگر ابل کر گرتی نہیں۔ گرے بھی کیسے؟ مریل سے شعلے میں اتنی تاب کہاں کہ وہ چائے کو کیتلی سے باہر اچھال سکے۔ سو واپس آ کر لائونج میں بیٹھتا ہوں اور ناشتہ کرتے ہوئے اخبار پڑھتا ہوں اور مزے کرتا ہوں۔ میں ساری سردیاں یہی ناشتہ کرتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجھے یہی ناشتہ بنانا آتا ہے۔ اب میں اس میں اتنا پرفیکٹ ہو گیا ہوں کہ بعض اوقات دوست بھی فرمائش کر کے یہ ناشتہ کرتے ہیں۔ لیکن آج صبح چولہے کا شعلہ ایسا زوردار تھا کہ آگ باقاعدہ بہت زیادہ دھیمی کرنی پڑی۔ بجلی صبح ساڑھے سات بجے جاتی ہے آج وہ بھی نہیں گئی۔ آج صبح سے ہی سب کچھ خاص تھا۔
گھر سے نکل کر بوسن روڈ پر چڑھنے میں تھوڑی دقت ہوئی کہ کسی ناہنجار نے زکریا ٹائون سے نکل کر بوسن روڈ پر چڑھنے کے دونوں خارجی راستے بیریئر رکھ کر بند کر دیئے تھے مگر میں بہرحال بوسن روڈ پر آنے میں کامیاب ہو گیا۔ بوسن روڈ کی صفائی اور کشادگی دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ بوسن روڈ کبھی اتنا صاف اور کھلا کھلا نظر نہیں آیا تھا‘ نہ کہیں ٹریفک جام اور نہ ہی کہیں پھس پھسا نظر آ رہا تھا۔ کسی یوٹرن پر افراتفری کا کوئی سین نہیں تھا۔ میری گاڑی بگٹٹ بھاگی جا رہی تھی۔ بوسن روڈ ملتان کی نہیں باقاعدہ پیرس کی سڑک لگ رہی تھی۔ صاف ستھری اور دھلی دھلائی۔ نہ موٹر سائیکل والے ادھر سے ادھر سے آ رہے تھے اور نہ ہی کوئی بیل گاڑی تنگ کر رہی تھی۔ میری گاڑی خلاف معمول کسی رکاوٹ یا تکلیف کے بغیر ایسے جا رہی تھی کہ ہارن دینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آ رہی تھی۔ جگہ جگہ ٹریفک پولیس والے کھڑے تھے مگر بڑی حیرت ہوئی کہ آج وہ کسی موٹر سائیکل کا چالان بھی نہیں کر رہے تھے اور اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ سڑک پر موٹر سائیکل ہی نظر نہیں آ رہے تھے۔ بوسن روڈ کی طرف آنے والی ساری گلیاں اور سڑکیں بند تھیں۔ سڑک کے عین درمیان میں ایستادہ میٹرو کے فلائی اوورز کے ستون رنگین بینروں اور پوسٹروں سے سجے ہوئے تھے۔ درمیان میں چھوٹی چھوٹی کیاریاں پھولوں سے لدی پڑی تھیں۔ ملتان والوں نے ایسا دن کہاں دیکھا ہو گا؟
لوڈشیڈنگ نہیں تھی۔ گیس پوری آ رہی تھی۔ سڑک انتہائی صاف تھی۔ ٹریفک کا رتی برابر رش نہیں تھا۔ ٹریفک پولیس اپنا روزانہ کا چالانوں کا ٹارگٹ بھولی بیٹھی تھی۔ عام پولیس بھی اتنی مستعد اور فرض شناس لگ رہی تھی کہ حیرت ہو رہی تھی۔ گاڑی کو کہیں کوئی ٹریفک جام یا ون وے کے خلاف آتی ہوئی گدھا گاڑیوں کا کوئی خوف نہیں تھا۔ بوسن روڈ کو اس حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا‘ یہ سب وزیراعظم کی آمد کے طفیل تھا۔ دوچار مقامات پر ناکے بھی لگے ہوئے تھے مگر اس عاجز کو کہیں کوئی رکاوٹ یا مشکل پیش نہ آئی‘ یہ آسانی اس سٹکر کی مرہون منت تھی جو گاڑی کی ونڈ سکرین پر لگا ہوا تھا۔ دل سے دعا نکلنے لگی تھی کہ وزیراعظم اسی طرح روزانہ بوسن روڈ پر آتے رہیں اور گاڑی کی ونڈ سکرین پر لگا ہوا سٹکر بھی سلامت رہے مگر جونہی نظر دائیں بائیں گلیوں پر پڑی تو دیکھا کہ مخلوق خدا سڑک پر آنے کے لیے ترلے لے رہی تھی‘ مگر سکیورٹی کے طفیل وہ اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں اور میرے جیسے اکا دکا گاڑی سواروں کو باقاعدہ نفرت سے دیکھ رہے ہیں تو میں نے پرانے یعنی روزانہ والے بوسن روڈ کو یاد کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ کم از کم ہمارے حکمران ہمیں سڑکوں پر بہت زیادہ دیر تنگ نہیں کرتے اور دوچار گھنٹوں بعد اپنے جہازوں یا ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر واپس چلے جاتے ہیں وگرنہ مخلوق خدا کی بددعائیں انہیں تو شاید نہ لگتیں مگر ہمیں ضرور برباد کر دیتیں۔
آج ملتان میں میٹرو بس سروس کا افتتاح تھا۔ وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف‘ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ اور دیگر مرکزی اور صوبائی وزراء کے علاوہ افسران کی خاصی تعداد آئی ہوئی تھی۔ اٹھارہ کلومیٹر سے زیادہ طویل میٹرو روٹ کا ساٹھ فیصد سے زائد حصہ یعنی بارہ کلومیٹر سے زیادہ حصہ ایلی ویٹڈ یعنی زمین سے اوپر ستونوں پر بننے والے ٹریک پر مشتمل ہے۔ اٹھائیس ارب سے زیادہ لاگت والے اس منصوبے کو کمشنر ملتان اسد اللہ خان نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ڈیڑھ سال کے لگ بھگ عرصہ میں مکمل کروایا ہے۔
میں اس منصوبے کے خلاف تھا۔ بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں یہ کہوں گا کہ میں کل بھی یہی سمجھتا تھا اور آج بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ملتان میں ابھی ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ایسا نہیں تھا کہ میٹرو منصوبہ اتنی عجلت میں بنایاجاتا۔ ابھی اہل ملتان کو اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری مسائل درپیش تھے اور ہیں ۔ میں نے اپنے کالموں کے ذریعے حکمرانوں تک یہ بات پہنچانے کی مکمل اور بھر پور کوشش کی کہ ملتان والوں کے مسائل کی اگر ترجیحی بنیادوں پر فہرست بنائی جائے تو میٹرو بس کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔ ملتان میں کم از کم دو بڑے ہسپتال‘ صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسی آب کا نظام‘ تعلیمی اداروں کا قیام اور اندرون شہر کی سڑکوں‘ سرکلر روڈ اور انر رنگ روڈ کی کشادگی کے ساتھ اگر آوٹر رنگ روڈکی تکمیل کر دی جائے تو اہل ملتان کے بیشتر مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ میٹرو وغیرہ دوسرے فیز میں بن سکتی ہے۔ فی الوقت ان اٹھائیس ارب سے پورے ملتان کی شکل تبدیل ہو سکتی ہے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
تب میرا موقف یہ تھا کہ اگر میٹرو ناگزیر ہے تو پھر زمین کے بجائے زیادہ حصہ ایلی وٹیڈ ہونا چاہئے تاکہ شہر دو حصوں میں منقسم نہ ہو اور لوگوں کا دو سال بعد بمشکل دوبارہ جمنے والا کاروبار ایک بار پھر برباد نہ ہو۔ میاں شہباز شریف کی مہربانی کہ انہوں نے یہ بات مان لی۔ جب میٹرو بننا شروع ہو گئی تو اس عاجز کی کوششیں تھی کہ اب جب بن ہی رہی ہے تو اسے جتنا بہتر کیا جا سکتا ہے کیا جائے کہ اب محض مخالفت برائے مخالفت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً چیزوں کی نشاندہی بھی کی مگر لاحاصل۔
اہل ملتان کو میٹرو مبارک ہو۔ لیکن میٹرو کے نیچے ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے بہت سی خرابیوں کی درستی درکار ہے۔ یہ عاجزان خرابیوں پر لکھتا رہے گا خواہ اس پر عمل ہو یا نہ ہو۔ تاہم امید ضرور ہے کہ وزیر اعلیٰ اس منصوبے کے افتتاح کے بعد اس سے لاتعلق نہیں ہوںگے۔ جو لوگ میٹرو کے روٹ کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی اس شہر کے باسی ہیں اور ان کے درد کا درمان بھی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved