بولنے پر کوئی پابندی عائد کی جاسکتی ہے نہ سوچنے پر۔ اور پابندی کی بات تو ایک طرف رہی، سوچنے اور بولنے کی کوئی فیس دینی پڑتی ہے نہ یہ ''ہنر‘‘ کسی سے سیکھنا پڑتا ہے۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ لوگ سوچنے پر آتے ہیں تو ایسا بہت کچھ سوچ لیتے ہیں جو دوسروں کے مفادات کا ذرّہ بھر خیال نہیں رکھتا۔ اور جب بولنے پر کمر کس لیتے ہیں تو دوسروں کو زِچ کرکے چھوڑتے ہیں۔ سوچنے اور بولنے پر کوئی قدغن نہ لگائے جانے ہی کا تو یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ ٹی وی اسٹوڈیوز میں، منتخب ایوان کے فلور پر یا روسٹرم پر مائکروفون کے سامنے نتائج کی پروا کیے بغیر کچھ بھی بول جاتے ہیں اور اگر کوئی غلطی کا احساس دلائے تو اُسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہیں۔ اور غلطی کا احساس دلانے والا آئندہ غلطی کا احساس دلانے کی غلطی نہ کرنے کا عہد کرلیتا ہے!
سوچنے اور بولنے کا معاملہ یوں یاد آیا کہ بھارت کے ایک بزرگ رہنما نے اپنے ''ارشاداتِ عالیہ‘‘ سے بُھوسے میں چنگاری ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کی شان میں کچھ بیان ہو، اِس سے قبل کچھ پاکستان کی بات ہوجائے۔ یہ بھی عجیب ہی ملک ہے۔ سات عشرے ہوگئے مگر اِس نے اپنا کردار تبدیل نہیں کیا یعنی اب تک بھارت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسا ہوا ہے۔ آپ چاہیں تو ہڈی کی جگہ چھچھوندر بھی کہہ سکتے ہیں۔ بھارت کے گلے میں پاکستان چھچھوندر ہی کے مانند ہے کہ اُگلے بنتی ہے نہ نِگلے بنتی ہے۔
سات عشروں کے دوران بھارتی قیادت کا حال عجیب رہا ہے۔ اُس کی ہر تان خواہ کہیں سے چلی ہو، پاکستان پر آکر ٹوٹتی ہے۔ دنیا حیران ہے کہ اِتنی مدت میں تو دنیا کے محکم ترین بے وقوف بھی تھوڑی بہت عقل سیکھ ہی جاتے ہیں تو پھر بھارتی قیادت کس نوعیت کی بے وقوف ہے کہ کچھ سیکھنے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی! بات یہ ہے کہ صاحب کہ حالات و واقعات سے دانائی کشید کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ع
یہ اُس کی دَین ہے، جسے پروردگار دے!
جب دل و دماغ کے دروازے بند کرلیے جاتے ہیں تو کام کی ساری باتیں اِن بند دروازوں سے سَر ٹکراکر دم توڑ دیتی ہیں۔ یعنی اندر بے عقلی ہی کا بازار گرم رہتا ہے۔
بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سب سے سینئر رہنما 89 سالہ لعل کشن چند ایڈوانی نے ماہ رواں کے وسط میں نئی دہلی کی ایک تقریب میں کہا تھا کہ سندھ اور کراچی کے بغیر بھارت ادھورا ہے۔ ہم یاد دلادیں کہ ایڈوانی جی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور اُن کے خاندان سے موسوم ایڈوانی گلی آج بھی حیدر آباد میں ہے۔ اپنے خطاب میں ایڈوانی جی کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے اور کہا کہ کبھی کبھی کراچی اور سندھ کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے یعنی دونوں کو بھارت کا حصہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ سندھ کے بغیر بھارت ادھورا ہے! ان کا کہنا تھا کہ ان کا بچپن، لڑکپن اور عنفوانِ شباب کا زمانہ کراچی میں گزارا اور وہیں اُنہوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے کارکن کی حیثیت سے اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ ہر انسان گزرے ہوئے زمانے میں رہنے کا عادی ہوتا ہے۔ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوکر انسان، کچھ دیر ہی کے لیے سہی، بہت سے موجودہ غم بھول جاتا ہے۔ ایسے میں ہم بھی اِتنے کٹھور من کے نہیں کہ ایڈوانی جی کو گریس مارکس نہ دیں۔ اگر کراچی اور سندھ کو بھارت کا حصہ نہ بنایا جاسکا تو ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ناقابل تردید و تنسیخ زمینی حقائق اور حالات کے مطابق درست ترین فیصلہ تھا اور فریقین کے بڑوں نے بہت سوچ سمجھ کر معاملات طے کیے تھے۔
ایل کے ایڈوانی کے جوش و خروش کا گراف ایک بار پھر بلند ہوا ہے۔ اب انہوں نے ایک تقریب سے خطاب میں یہ کہا ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اس لیے اس خطے کو بھارت کا حصہ ہونا ہی چاہیے!
اِسے کہتے ہیں ماروں گٹنا، پھوٹے آنکھ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندو کراچی میں بڑی تعداد میں آباد ہیں نہ سندھ کے کسی اور شہر یا علاقے میں۔ چند ایک مقامات پر ہندو زیادہ تو ہیں مگر صوبے کی مجوعی آبادی میں اُن کی تعداد برائے نام ہے۔ چلیے، ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ کراچی سمیت سندھ بھر کی آبادی میں ہندو 40 یا 50 فیصد تک ہیں تو؟ اِس سے یہ کہاں لازم ٹھہرتا ہے کہ اس پورے علاقے کو بھارت کا حصہ بنادیا جائے؟ ایڈوانی جی نے خوش فہمی اور بھولپن کے عالم میں ایک الل ٹپ اصول بیان نہیں کیا بلکہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا منطقی اور معقول فارمولا دے دیا ہے۔ جموں و کشمیر میں مسلمان واضح طور پر زیادہ یعنی اکثریت میں ہیں۔ تو پھر کیوں نہ اس خطے کو پاکستان کا حصہ بنادیا جائے؟
ایڈوانی جی بولتے بولتے بہک جاتے ہیں تو اِس پر کسی کو حیرت ہونی چاہیے نہ افسوس۔ کہتے ہیں ساٹھ سال کا ہونے پر انسان سٹھیا جاتا ہے یعنی دماغ کام نہیں کرتا۔ مُراد یہ ہے کہ ڈھنگ سے کام نہیں کرتا۔ ویسے تو خیر دنیا بھر میں بیشتر دماغ ساٹھ سال کے ہونے سے بہت پہلے بھی کام نہیں کرتے مگر چلیے، ماہرین اور سیانوں کا دل رکھنے کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ ساٹھ سال کا انسان سٹھیا جاتا ہے۔ ایسے میں ایڈوانی جی کو کیا کہیے کہ وہ تو ساٹھ سے بھی 29 سال آگے ہیں!
قیام پاکستان کے وقت ایڈوانی جی 19 سال کے تھے اور کراچی میں تھے اس لیے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اُن کا دماغ تب تک ٹھیک ٹھاک کام کرتا ہوگا۔ پھر قدرت کی ستم ظریفی سے اُنہیں بھارت کوچ کرنا پڑا۔ اور وہ کم و بیش 70 سال سے بھارتی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ ان میں سے کم و بیش 50 سال اُنہوں نے انتہا پسندوں کے درمیان گزارے ہیں۔ انتہا پسندی کی سیاست نے اُنہیں عمر کی اِس منزل میں بہت حد تک حواس باختہ کردیا ہے۔ موصوف یہ کہہ رہے ہیں کہ 1947 میں ہند کی تقسیم کے وقت سندھ اور کراچی کو بھارت کا حصہ نہ بنانا موہن داس کرم چند گاندھی کی سنگین غلطی تھی اور اِس کا ازالہ نریندر مودی کو کرنا چاہیے تاکہ سندھ کو طاقت کے ذریعے بھارت کا حصہ بنایا جائے!
بہت خوب۔ دیکھا آپ نے؟ انتہا پسندی بڑی ظالم چیز ہے۔ یہ تو وہ بلا ہے کہ دماغ چٹ کر جاتی ہے اور بالآخر انسان کو خِرد سے بیگانہ کرکے دم لیتی ہے! دن بھگوان کو یاد کرنے کے ہیں اور ایڈوانی جی سندھ کو یاد کرکے مودی کو دلدل میں مزید دھکیل رہے ہیں! بھارتی وزیر اعظم نے پہلے ہی بہت سے فضول محاذ کھول رکھے ہیں۔ وہ بھارت کو مِریخ پر پہنچانے کا عزم کیے ہوئے ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ بات بات پر اُن کا ملک دُھول چاٹنے لگتا ہے! نریندر مودی بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر مسئلہ وہی ہے جو مور کے ساتھ ہے۔ وہ رقص کرتے کرتے اپنے پیر دیکھتا ہے تو روتا ہے۔ نریندر مودی بھی انتہا پسندی کے بطن سے نکل کر آئے ہیں۔ جب بھی وہ کچھ کرنے کی ٹھانتے ہیں تو لوگ اُن کے ماضی کو یاد کرکے تحفظات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بھارتی فوج بھی خدا جانے کہاں سے اور کس کا مقدر اٹھا لائی ہے۔ جو اقتدار میں ہیں وہ بھی اُس سے کِھلواڑ کر رہے ہیں اور جو ایوان اقتدار سے باہر فراغت کے دن گزار رہے ہیں وہ بھی تفریح لے رہے ہیں۔ جس فوج سے چند سَر پھرے سنبھالے نہیں جاتے اور جو اب تک اپنے سپاہیوں کی خوراک کا بھی معقول و منصفانہ انتظام یقینی نہیں بنا پائی اُسے ایڈوانی جی کراچی سمیت سندھ کو بھارت میں شامل کرنے کا ٹاسک دِلوانا چاہتے ہیں! ہمارے خیال میں تو ایڈوانی جی اِس بڑھاپے میں طبعی موت مرنے والی اپنی مَت کو خواہ مخواہ بروئے کار لاکر بھارتی فوج کے سینے پر مزید ناکامیوں کے میڈل سجانا چاہتے ہیں! ایسے مشوروں کا پاکستانی قیادت سے زیادہ بھارتی عسکری قیادت کو نوٹس لینا چاہیے!
ایڈوانی جی سندھ کو بھارت کا حصہ نہ بنانا گاندھی جی کی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ ہمارا پُرخلوص مشورہ یہ ہے کہ وہ گاندھی جی کی دو چار کتابیں ضرور پڑھ لیں تاکہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ غم نہ ہو کہ ذہن میں دانائی نے قدم رکھا ہی نہیں تھا!