پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت کی حکومت کے شعلہ بیان مقرر اور حادثوں کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والے وزیر ریلوے، خواجہ سعد رفیق نے عظیم الشان جلسوں کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے‘ چند روز پہلے جوفقید المثال عوامی جلسہ کیا‘ اس میں ان کا جوش خطابت سننے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ انہوں نے 50 سے ذرا کم‘ حاضرین کے جم غفیر سے مخاطب ہوتے ہوئے ‘ مخالفین کو جو دھمکیاں دیں‘ انہیں سن کر تمام سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ اس کے باوجود اپوزیشن کی ثابت قدمی کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ خواجہ صاحب کے عظیم الشان جلسے کے باوجود سراسیمہ ہو
کر نہیں بھاگی اور عمران خان ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ کب تک مقابلہ کر سکتے ہیں؟ عمران تو پھر اپوزیشن لیڈر ہیں۔ لیکن مریم بی بی کے نت نئے بدلتے وکلا میں جو تازہ ترین اضافہ جناب شاہد حامد نے کیا ہے‘ اس کے بعد لاہور میں دستیاب شاید صف اول کے وکلا میں سے چند ہی باقی رہ گئے ہوں گے‘ جن کی خدمات وزیراعظم کے بچوں نے حاصل نہیں کیں۔ تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابھی بہت سے مقدمے سامنے آئیں گے اور اعلیٰ درجے کے مزیدتمام وکلا بھی کام میں مصروف ہو جائیں گے۔ جمہوریت فروغ پائے گی۔ ملک مضبوط ہو گا اور ہمارے وزیراعظم مزید کئی شہروں میں کرفیو لگا کر‘ لوکل ٹرانسپورٹ کی سہولتیں پھیلاتے رہیں گے۔آج کی سماعت میں جناب شاہد حامد نے قدرے نرمی کا مظاہرہ کیا۔ آنے والے ایک دو دنوں میںان کے حوصلے بلند ہوں گے۔
پاناما کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ گزشتہ روز مریم نواز کے تحریری جواب پر دستخط بطور مجاز کر دیئے تھے۔ مریم کی طرف سے دستخط کرنے کی اتھارٹی حاصل تھی۔ جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ میاں شریف کے انتقال کے بعد جائیداد کی سیٹلمنٹ کیسے ہوئی؟ جسٹس آصف سعید کا کہنا تھا کہ عدالت کو جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے آگاہ کریں ۔ کیا یہ ممکن ہے آپ ہمیں وراثتی تقسیم کے عمل کے حوالے سے ایک دو روز میں آگاہ کر دیں؟ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے اپنے نامزدگی فارم میں کہا کہ وہ اپنی والدہ کے گھر میں رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرائے تو 28 ہزار روپے جرمانہ ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے 2011ء میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے ، ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے کا نتیجہ کیا ہو گا؟ وکیل نے جواب دیا کہ کیپٹن صفدر کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ مریم نواز کے گوشوارے لف تھے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الزام کاغذات نامزدگی کا نہیں ، الزا م کاغذات میں مریم نواز کے اثاثے چھپانے کا ہے۔ وکیل نے کہا کہ کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹتا رہا ، یہاں آئینی نااہلی کا سوال نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرانے پر الیکشن کمیشن اور ایف بی آر نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ الزام ہے کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیپٹن صفدر دیانت دار نہیں رہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ ایف بی آر کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیپٹن صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔ الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہے ۔ اگر ریفرنس میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے؟ سپریم کورٹ 184 شق تین کے تحت متوازی کارروائی کیسے کرسکتی ہے؟ وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کے لئے بھی ریفرنس الیکشن کمیشن کے پاس زیر التوا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب الیکشن کمیشن موجود ہے‘ تو ہم اس کے مقدمات کیوں دیکھیں؟ وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہو یا عام شہری قانون سب کے لئے برابر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔ کسی رکن کی نااہلی کے لئے ''کو وارنٹو‘‘ کی درخواست دائر ہو سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ وکیل نے کہا کہ ہمیں اعتراض نہیں ، میں تو سوال کا جواب دے رہا ہوں۔ جسٹس آصف نے کہا کہ کیا اس بنا پر عدالت کارروائی نہ کرے کیونکہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے ؟ دائرہ اختیار میں ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپیکر نے ریفرنس مسترد کیا ۔ ریفرنس مسترد ہونے پر درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔ وکیل کا کہنا تھا کہ موجودہ سپیکر نے وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس مسترد کیا۔ وہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وزیر اعظم کی نااہلی کا معاملہ کس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں سپیکر کے فیصلے کے خلاف اپیل زیر التوا ہے۔
ان الزامات پر ریفرنس دیگر فورمز پر موجود ہے۔ یہ ونڈو شاپنگ کی طرح ہے کہیں نہ کہیں تو دائو لگ جائے گا۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہماری تشویش یہی ہے کہ دادرسی کے فورم قانون کے تحت موجود ہیں۔ سپریم کورٹ اس کیس کا کیسے جائزہ لے جس کے لئے دوسرے ادارے موجود ہیں؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت سپیکر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اگر سپیکر ریفرنس خارج کردے تو کیا دوسرا شخص دادرسی کے لئے سپیکر کے پاس جائے گا؟ کیا داد رسی کے لئے سپریم کورٹ یا عدالت عالیہ سے رجوع کیا جاسکتا ہے؟ عدالت پاناما کی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے چکی ہے ، اس معاملہ پر ہماری معاونت کریں۔ وکیل نے کہا کہ میرا اعتراض عدالتی اختیار پر ہے ،قابل سماعت پر نہیں۔ مریم نواز عام شہری ہیں یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیسے ہے؟ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی حد تک معاملہ عوامی اہمیت کا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں مانگا گیا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز اپنے والد کی زیر کفالت نہیں ہیں۔ اگر زیر کفالت نہیں تو لندن فلیٹس مریم نواز کے ہوں بھی تو فرق نہیں پڑتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام ہے کہ مریم نواز اپنے والد کی فرنٹ مین ہیں ۔ وکیل کا کہنا تھا کہ یہ تو درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے ،بار ثبوت ان پر ہے۔ اگر فرض کرلیں کہ بیرون ملک جائیداد مریم نواز کی ہے تو پھر بھی کیا ہوتا ہے؟ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا عدالت متنازع حقائق پر فیصلہ دے سکتی ہے ؟ متنازع حقائق پر فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے پر ہی ہوسکتا ہے۔ الزام ہے کہ 90ء کی دہائی میں حسن اور حسین اتنی بڑی آمدن کیسے حاصل کر رہے تھے؟ وکیل نے جواب دیا کہ اس معاملہ پر حسن اور حسین کے وکیل عدالت کی معاونت کریں گے۔ عدالت کے باہر میڈیا پر جو ہو رہا ہے وہ حیران کن ہے۔ جو دستاویزات بی بی سی اور جرمن اخبار میں آرہی ہیں ،وہ پہلے ہی عدالت میں جمع ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ غیر ملکی میڈیا پر آنے والی دستاویزات عدالتی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ وکیل نے کہا کہ عدالت کے باہر سیاسی جھگڑے ہو رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سیاسی جھگڑے مناسب لفظ نہیں سیاسی اختلافات ہو سکتا ہے۔ جس پر وکیل نے کہا کہ وہ جھگڑے کا لفظ واپس لے لیتے ہیں۔ جسٹس آصف نے کہا کہ مریم نواز کا کہنا ہے کہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر نہیں مگر ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ٹیکس نمبر ہولڈر ہیں ، فریقین نے پہلے دفاع میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا مگر ضمنی جواب میں ذکر ہے۔