تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-01-2017

کولمبو سے اب رہائی نہیں

چوتھا دن ہے مگر یوں لگتا ہے کہ عمریں بیت گئی ہیں۔ کولمبو سے اب رہائی نہیں۔
آبنوسی رنگ کا وہ آدمی تقریباً بھاگتا ہوا آیا۔ ناٹا سا قد‘ موٹے نقوش مگر ان میں ایک تناسب و توازن۔ میرے میزبان سے اس نے پوچھا کہ کیا وہ پاکستانی ہے۔''ہاں!‘‘ اس نے کہا''پاکستانی سفارت خانے سے میرا تعلق ہے‘‘ ۔اس کی آنکھوں میں چمک کچھ اور بڑھ گئی۔ ''کیا آپ پاکستان کے سفیر ہیں‘‘۔ ٹھہرے ہوئے لہجے میں تردید کی گئی۔ وہ ملک کا شاید اہم ترین سفارت کار ہے مگر سفیر نہیں۔ چمک برقرار رہی۔ بوٹی بوٹی تھرکتی ہوئی۔ عام سنہالیوں کے برعکس جو لازماً دھیمے سے ہوتے ہیں۔ عاجز‘ منکسر اور خوش اخلاق۔ ''میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم پاکستان کے ممنون احسان ہیں۔ اس امداد کی بنا پر جو ہماری قوم کی آپ نے کی۔ میں آپ کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں‘‘۔
ادنیٰ تامل کے بغیر‘ جواں سال افسر نے فرمائش کی کہ لکڑی کے ایک تختے پر سری لنکا اور پاکستان کے پرچم کھودے جائیں اور یاد دلایا کہ سبز رنگ موزوں ہونا چاہیے۔ صاف نظر آتا تھا کہ لمبے تڑنگے سیلز مین نے اسے بھیجا تھا جو دستکاریوں کے انتخاب میں مدد کر رہا تھا۔ اغلب ہے کہ غیر معمولی تجسس نے خود اسی کو اکسایا ہو وگرنہ وہ تو سادا سا ایک آدمی تھا‘ ایک مددگار شخص‘ جیسے کہ وہ سب ہیں‘ مرتب اور سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ زیادہ تر انتخاب ہم کر ہی چکے تھے۔ ڈرائونی چیزوں اور بتوں سے مجھے دلچسپی تھی اور نہ شوخ رنگ کی دیو قامت اشیاء سے ۔ ہلکی پھلکی یادگاری چیزیں اور منفرد۔ ہم جلدی میں تھے کہ واپس جا کر کھانا کھائیں۔ کچھ دیر ٹہل لیں اور میں اپنا کام نمٹا لوں۔ میرے دوست پر ذمہ داریوں کا بوجھ بہت ہے ۔ کل صبح سویرے اپنے ساتھی اخبار نویسوں کے ہمراہ کولمبو سے دو گھنٹے کی مسافت پر گال جانا ہے۔ دو تین دن سے‘ جس کا تذکرہ ہے۔ شہر کی ایک بڑی شاہراہ گال روڈکہلاتی ہے۔ جمیل اور پرشکوہ عمارتوں کے شہر میں‘ ایک کا نام گال مقابل(Galle Face) ہے۔ اسرار میں لپٹا ہوا کوئی قریہ‘ جس کے بارے میں سوالات سے میں نے گریز کیا کہ اس کا سحر کم نہ ہو جائے۔
مگر اب ہم بھول گئے‘ تعجیل اور بے چینی تحلیل ہو گئی اور اشتیاق سے اس کی باتیں سنا کئے۔ یاد ہی نہ رہا کہ لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کم ہوتے ہیں اور سری لنکا میں تو سرے سے نہیں۔ برصغیر کے عام باشندوں سے وہ مختلف ہیں۔ پاکستان کے شمال اور سندھیوں میں سے شاید تھوڑی سی مشابہت ہو۔ ''میں اس سٹور کا جنرل منیجر ہوں‘‘۔ اس کے لہجے میں افتخارنہیں تھا‘ نمائش ہی نہیں؛ البتہ اس قدر عاجزی بھی نہ تھی‘ جو گاہے ریا کا شائبہ جنم دیتی ہے ۔ اپنے کام سے عشق کرنے والے سفارت کار کو جو ہر ایک سے دوستی گانٹھنے اور جانچنے میں لگا رہتا ہے‘ اچانک یاد آیا کہ کوئی اس کے ہمراہ ہے۔ اب اس نے تعارف کرایا۔ ''میں بھی اخبار نویس رہا ہوں‘‘ اشتیاق سے اس نے کہا۔ اس کے لہجے کا خروش باقی تھا مگر کچھ مرتب اور باقاعدہ۔ ''میں ایک دفاعی نامہ نگار تھا‘‘۔ صندل کی خوشبودار بستیوںکے سوا‘ جن پر بعد میں نظر پڑی‘ مزید خریداری نہ کرنا تھی۔ بے ساختہ ایک سوال ابھرا: ''کیا آپ پاکستانی اور بھارت کی افواج کا موازنہ کریں گے؟‘‘ سوال کا اس نے جواب نہ دیا اور اپنا وہی گیت گاتا رہا: پاکستانی افواج نے ہماری اعانت کی۔ ہم ان کے شکر گزار بہت ہیں۔ پھر
وہ رکا اور یہ کہا: سودے سلف کو چھوڑیے ‘ ہم وہ کریں گے‘ جو آپ ہمیں کرنے کو کہیں‘ جو بنانے کو کہیں۔
کائونٹر کی طرف ہم بڑھے کہ کام نمٹا دیں۔ منیجر کا اشتیاق مگر اسے بے چین کیے تھا۔ لپک کروہ بل بنانے والی خاتون کے پاس گیا اور کہا کہ قیمت میں 20فیصد کمی کر دی جائے ۔ ایک مہنگے شہر کے مہنگے علاقے میں‘ ہر سال جہاں بیس سے پچیس لاکھ سیاح آتے ہوں‘ بن مانگے یہ ایک بڑی رعایت تھی‘چار پانچ ہزار پاکستانی روپے کی۔ اس کی مگر تشفی نہ ہو رہی تھی‘ ''پچیس فیصد‘‘ اس نے کہا۔ خاتون مسکرائی۔ غالباً اپنے نئے منیجر کے انوکھے اطوار پہ سر جھکائے ‘ پھر کمپیوٹر پر قیمتوں کا اندراج کرنے لگی۔ کھٹا کھٹ۔
ان چیزوں کو یہیں چھوڑ دیجیے۔ اپنے دوست سے میں نے کہا۔ پچھلی دکان پر جس طرح چھوڑ آئے ہیں۔کل صُبح آپ وصول کر لیجیے گا۔ سیاحوں کے غیر معمولی ہجوم اور خوش اخلاقی کے باوصف کولمبو کے سیلز مین ‘ پاکستانیوں کے مقابلے میں ایک تہائی رفتار سے کام کرتے ہیں۔ اب مجھے فکر آ لگی تھی کہ ہوٹل واپس پہنچ کر ممکن ہو کسی کھلی جگہ پر کھانا کھایا جائے۔ ٹہل(Walk) کا وقت بیت نہ جائے کہ سمندر اور آس پاس پھیلے راستوں پررات اب گہری ہونے لگی تھی۔ سفر‘خواہ یہ ایک تفریح کی خاطر کیوں نہ ہو‘ زیادہ ترتیب اور انہماک کا مطالبہ کرتا ہے‘ خاص طور پر اس وقت جب آپ ایک گروہ کا حصہ ہوں۔ میں نے انہیں تحائف والی پیکنگ سے منع کیا۔ پچھلے سٹور میں ‘ جہاں چند ہی گاہک تھے‘ چار عدد آرائشی پلیٹوں کو سمیٹنے میں نصف گھنٹے سے زیادہ وقت ہو گیا تھا۔ بالآخر زچ ہو کر ہم لوٹ آئے۔ دوکاندار میرے میزبان کا شناسا تھا ۔ اگلی صبح اس نے کہا‘ ڈرائیور چیزیں اٹھا لائے گا۔ ایک ڈنر سیٹ وہاں خریدنا تھا کہ جاپانی ٹیکنالوجی اور لائسنس کے تحت۔ سری لنکا میں ‘ دنیا کی بہترین کراکری بنتی ہے۔ ایسی کہ جس کے جمال میں‘ کچھ اور جمال جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔ یوں کہ کوئی عہدِ قدیم کے نوادر ہوں۔
ہماری بے تابی کے باوجود‘ ہر چیز کو اور وہ درجنوں کی تعداد میں تھیں... الگ اجلے کاغذ میں انہوں نے لپیٹا۔ کئی طرح کے ہاتھی‘سیپیوں یا شاید کسی قیمتی لکڑی کے بنے چابیوں کے چھلّے‘ صندل کے برادے کی بتیاں اور انواع و اقسام کی دوسری اشیاء ۔ کس قدر تیز رفتاری سے موٹے خاکی لفافے میں ڈال دیا۔ پھر ایک لفافہ اور لیا اور درجنوں چھوٹے لفافے اس میں ٹھونس دیے۔ تحائف کی اہمیت اورقدرو قیمت سے وہ واقف تھے‘ خواہ ان پر زیادہ روپے نہ اٹھے ہوں۔ میزبان کی خوشنودی اپنی جگہ‘ روایت کا حسن باقی و برقرار رہنا چاہیے۔
کولمبو ایک منفرد شہر ہے۔ شہر کہاں ہے‘ پچیس لاکھ کا ایک بڑا سا قصبہ ۔ جغرافیائی محل وقوع بھی مگر ایک سے بڑھ کر ایک۔ اس کی دلآویز عمارات‘ نیلگوں سمندر اور صدیوں پرانے ‘ پچھلے زمانوں کی کہانیاں کہتے شاہرائوں پر لہلہاتے درخت ہی نہیں ‘ اس کے مکین بھی۔ یاللعجب کسی سڑک پر کہیں زخم نہیں۔ کوئی عجلت میں نہیں‘ کسی کو غصہ نہیں آتا ۔ سیاحوں کے طفیل دارالحکومت میں ہجوم ہو جاتا ہے مگر قطار نہیں ٹوٹتی۔ صبر اور وقار سے سب انتظار کرتے ہیں۔ پکار پکار کرزبان حال سے یہ دیار کہتا ہے: زندگی کی درحقیقت رفتار اتنی بھی تیز نہیں‘ آدم کی اولاد نے جتنی کرڈالی ہے۔ جدید ترین کمپیوٹر‘ موبائل اور دنیا بھر سے امڈے چلے آتے سیاحوں کے درمیان‘ اب بھی دم لیا جا سکتا ہے۔ اب بھی زندگی آسانی سے جی جا سکتی ہے ۔ اس کا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کی بے قراری کولپیٹ کے الگ رکھا جا سکتا ہے۔نیو یارک میں جی نہ لگتا تھا‘ آخر اس کے جنگلوں اور جھیلوں میں جا اٹکا۔ جدّہ میں بھی اس قدر نہیں‘ جہاں اتنے بے شمار دوست اور کنارِ بحر اس قدر فراغت ہوا کرتی ۔ خرطوم میں چھوٹی سی وہ چٹان تھی‘ موسیٰ علیہ السلام نے‘ جس کے سائے میں آرام کیا تھا۔ سرشام نیل کے پانیوں میں بجرے تیرتے اور وہ اس کے خوش اطوار‘ سادہ دل اور سچے مکین‘ عیدی سوڈانی کا گھر ‘ عجل مچھلی ‘ قدیم عرب ثقافت کا رچائو۔ محبت اس سے ہوئی مگر رفتہ رفتہ اورزیادہ تر بعد میں۔
کولمبو فوراً ہی دل میں اتر گیا۔ پہلی نظر کی محبت‘ جو ریشے ریشے میں سما جائے‘ جس طرح بادِ سحر گاہی کانم۔ ایک اور سبب بھی ہے۔ ایک حیرت انگیز امکان۔ آئندہ زمانوں میں سری لنکا‘ پاکستان کے لیے دوسری ترکیہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اتنا بڑا انکشاف تھا کہ اوّل اوّل یقین ہی نہ آتا تھا۔ پھر اس خیال کے گداز نے اس کی گمبھیرتا میں گھل کر ‘ دل کو موم سا پگھلا دیا۔ اس پہ بارش برستی رہی‘ برف گرتی رہی۔
چوتھا دن ہے مگر یوں لگتا ہے کہ عمریں بیت گئی ہیں۔ کولمبو سے اب رہائی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved