تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     26-01-2017

سرکار بدنامی سے بچے

نوکرشاہی کے بڑے بڑے افسر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچنے لگتے ہیں ‘اس کی تازہ مثال ابھی سامنے آئی ہے ۔ انہیں کوئی لیڈر اشارا کرے یا نہ کرے ‘وہ ناچ دکھانا شروع کر دیتے ہیں ‘یہ حساب لگا کر کہ لیڈر خوش ہو جائیں گے اور انہیں کوئی ملائی دار عہدہ مل جائے گا۔مجھے پتا نہیں کہ نریند رمودی اور سمرتی ایرانی نے انفارمیشن افسروں کو کوئی اشارا کیا یا نہیں‘لیکن یہ حقیقت ہے کہ اطلاع کے پاور آرٹی آئی کے تحت ان دونوں کی ڈگریوں کے سچ کو چھپایا جا رہا ہے ۔جس انفارمیشن افسر نے دلی یونیورسٹی سے کہا ہے کہ مودی اور ایرانی کی ڈگریوں کی انفارمیشن ان لوگوں کو دی جائے جو انہیں مانگ رہے ہیں۔ اس افسر سے مرکزی انفارمیشن کمیشن نے یہ احتیاط چھین لیا ہے ۔اس افسر کا نام ہے مد بھوشنم شری دھر آچاریہ !اتفاق کی بات ہے کہ آچاریہ باقاعدہ نوکرشاہ نہیں ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی شروع کی صحافت سے !وہ ‘اُدیم نام کی تیلگو اخبار میں کام کرتے تھے وہ حیدرآباد کے راشٹریہ ودھی یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہے ہیں ۔ وہ انفارمیشن کے افسر ہیں۔موجودہ عہدہ پر ان کی تعیناتی گزشتہ سرکار کے دنوں میں ہوئی تھی لیکن انہوں نے خود کہا ہے کہ وہ ہمیشہ بھاجپا کو ووٹ دیتے رہے ہیں ‘وہ ویجیٹرین ہیں ‘اور گائے کے حفاظت کے حمایتی ہیں ۔ انہوں نے کجری وال سرکار کی ناک میں دم کر دیا ہے اور انہوں نے سونیا گاندھی کو بھی نوٹس تھما دیا تھا ۔ آچاریہ کا کہنا ہے کہ مودی اور ایرانی نے جو حلف نامے دیے ہیں ‘اُن پر اعتماد نہ کرنے کاکوئی سبب نہیں ہے اگر مودی نے بی اے اور ایرانی نے میٹرک پاس کی ہے تو ان کی ڈگریاں دکھانے میں پریشانی کیوں ہونی چاہیے ؟
آچاریہ کی بات بالکل ٹھیک ہے ۔اس کے علاوہ میرا سوال یہ بھی ہے کہ مودی اگر بی اے فیل ہے اورارایرانی میٹرک فیل ہوں تو بھی کیا فرق پڑتا ہے ؟ان کا کوئی کیا بگاڑ لے گا ؟ بادشاہ اکبر اور ٹیپو کے والد حیدر علی تو انگوٹھا چھاپ ہی تھے ۔ہمارے زیادہ تر لیڈر ‘جن کے پاس کچھ نہ کچھ ڈگریاں ہوتی ہیں ‘وہ بھی کیا سچ مچ درست ہوتی ہیں ؟اور جن کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں ہوتی ہیں ان میں سے کئی کی ڈگریاں جعلی نکل آتی ہیں ؟یہاں اصلی سوال ڈگری کا نہیں ‘انہیں چھپانے کا ہے ‘دھوکا دھڑی کا ہے ۔صحیح سوال پوچھنے والے افسر کو دبانے کی بجائے بہتر یہ ہوگا کہ دونوں لوگ صحیح صحیح بات بول دیں۔آچاریہ کو دبانے سے سرکار اور کمیشن دونوں کی بدنامی ہو رہی ہے ۔
کیسے صدر ہوں گے‘ ٹرمپ؟
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدرتو بن گئے لیکن امریکہ اور ساری دنیا کے کے ملک ابھی بھی یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ ٹرمپ کیسے صدر ثابت ہوں گے ۔ ٹرمپ اپنی الیکشن مہم کے دوران اور ان کے پہلے بھی اتنے تکراری رہے ہیں کہ وہ اگلا قدم کیا اٹھائیں گے کوئی نہیں جانتا ۔ ٹرمپ جب وہائٹ ہائوس میں حلف لے رہے تھے تب واشنگٹن ڈی سی اور دیگر شہروں میں ان کے خلاف دھواں دار مظاہرے ہو رہے تھے لیکن ٹرمپ کو اپنے مخالفین کی ذرا بھی پروا نہیں ہے ۔انہوں نے جوتقریر کی اس میں ‘امریکہ کے سابق صدور اور سرکاروں کو بھی رگڑا لگائے بنا نہیں رہے ۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک سبھی صدور الیکشن جیت کر ساری قوت واشنگٹن میں مرکوز کرلیتے تھے لیکن آج سے ہی یہ قوت اب واشنگٹن سے نکل کر امریکی عوام کے ہاتھوں میں چلی جائے گی ۔ ٹرمپ سرکار واشنگٹن کی بہتری کی بجائے اب عوام کے بہتری کا سوچے گی ۔اب ہر پالیسی کا ہدف ہوگا ‘فرسٹ امریکہ ‘چاہے خارجہ پالیسی ہو ‘بیرونی تجارت ہو‘باہری لوگوں کا آنا ہو سبھی معاملات میں سب سے پہلے امریکہ کا دھیان رکھا جائے گا۔ امریکہ نے دوسرے ممالک کے تحفظ اور دفاع پر اربوں کھربوں ڈالر بہا دیے لیکن اس کا اپنا تحفظ خطرے پڑتا جا رہا ہے ۔دنیا کے کئی ملک امریکی پیسے پر مستا رہے ہیں لیکن امریکی پریشانیوں سے گزر رہے ہیں‘اب یہ نہیں چلے گا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ کل سے نقشہ بدل جائے گا۔
ٹرمپ کی ایسی اور اس سے بھی زیادہ شیخ چلی پنے کی باتوں کے سبب ہی امریکی عوام نے انہیں وہائٹ ہائوس میں ڈھیل دیا ہے ۔ ٹرمپ کو سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ۔وہ اب تک کورے دھناسیٹھ رہے ہیں ۔ستر برس کے ٹرمپ نے تین شادیاں کی ہیں اور چال چلت کے حساب سے بھی وہ کمزور رہے ہیں ۔ان کی وزرا کابینہ میں کتنے لوگ صلاحیت کے سبب ہیں اور کتنے لوگ دولت مند ہونے کے سبب ہیں ‘یہ جاننا ابھی مشکل ہے ۔امید ہے کہ اب جب انہیں دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی حکومت چلانی پڑے گی تو وہ کچھ نیا سیکھیں گے اور اپنے کو محدوداور قاعدے میں رکھیں گے ۔اگر وہ ایسا کر سکے تو ہو سکتا ہے کہ انہیں تاریخ میں اونچا مقام حاصل ہو ۔بھارتی نژاد کے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے ۔بھارت کے بارے میں انہوں نے اچھی باتیں کہی ہیں لیکن پاکستان کے بارے میں وہ اچانک اور بھی اچھا بول پڑے ہیں ۔اگر وہ جنوبی ایشیا میں خیر سگالی اور تعاون کا ماحول بنا سکیں تو ان کا خیر مقدم ہوگا۔روس کے جانب ان کے اشارے میٹھے ہیں ‘چین کی جانب سخت لیکن دیکھنا ہے کہ اب صدارت کی کرسی سنبھالنے کے بعد ان کا برتائو کیسا رہتا ہے؟
شراب بندی سب سے لمبی قطار
ہفتے کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں انسانوں کی طویل قطار لگی جسے دنیا کی سب سے بڑی انسانی قطار مانا گیا ہے ۔اس میں تین کروڑ سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا ۔یہ قطار گیارہ ہزار چار سو کلومیٹر لمبی تھی اور 38 اضلاع میں سے ہو کر گزری تھی ۔ انسانوں کی اس قطار کو ناپنے کے لیے 'اِسرو‘ کے 38 ڈرون اور ہیلی کاپٹر لگائے گئے تھے ۔یہ دن میں لگ بھگ پونے گھنٹہ تک چلی۔یہ تعداد شاید بہار کے ایک کونہ سے دوسرے کونے تک بنائی گئی ہوگی۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ‘اتنی لمبی قطار میں نے تو کبھی نہیں دیکھی ۔یہ قطار کیوں بنائی گئی تھی ؟اس لیے کی وزیراعلیٰ نتیش کمار نے بہار میں شراب بندی کا مشن چلا رکھا ہے۔اس انسانی قطار میں کانگریس ‘نیشنل کانگریس ‘ آرجے ڈی وغیرہ پارٹیوں کے لیڈروں نے حصہ لیا ۔میں پوچھتا ہوں ‘ بھاجپا ‘کمیونسٹ پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے لیڈروں نے
اس میں حصہ کیوں نہیں لیا ؟کیا انہیں نتیش نے بلایا ہی نہیں ؟۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ نتیش کی غلطی ہے ۔سبھی پارٹیوں کو بلانا چاہیے تھا۔شراب بندی تو ایسا مدعہ ہے ‘جس کے لیے ہر پارٹی کو نتیش کمار کا احسان مند ہونا چاہیے ۔نتیش نے یہ اتنا بنیادی اور انقلابی مشن چلایا ہے کہ وہ بہار کے ہی نہیں ‘ملک کے لیڈر بنتے جا رہے ہیں ۔وزرائے اعلی اور وزرائے اعظم کی کرسیوں پر تو کوئی بھی بیٹھ جاتا ہے لیکن اس کا لیڈر بننا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ نتیش جو کررہے ہیں ‘ان کے نقش قدم پر ملک کے وزیراعظم اور سبھی وزرائے اعلیٰ کو بھی چلناچاہیے ۔
مجھے تعجب ہے کہ اس انسانی قطار میں آر ایس ایس ‘آریہ سماج ‘ سرواُدیہ اور اسلام سمیت سبھی مذاہب کے لیڈر کیوں نہیں شامل ہوئے ؟سیاسی لیڈروں کے بارے میں تو یہ مان لیا جاتا ہے کہ وہ صرف وہی کرتے ہیں ‘جن میں ان کا مفاد ہوتا ہے لیکن مذہب اور فرقہ کے لیڈرتو دوسرے کے فائدے کے کاموں کے لیے ہی جانے جاتے ہیں ۔ان کا کام انسان کو بہتر انسان بنانے کا کام ہے۔نشہ کرتے ہی انسان تو حیوان بن جاتا ہے‘اس کا ہوش بھی کھو جاتا ہے ۔اسے اچھا برا ‘سچ جھوٹ‘اور صحیح غلط کا دھیان ہی نہیں رہتا ۔خوشی کی بات ہے کہ اس کا بیڑا ایک سیاسی لیڈر نے اٹھایا ہے اور مذہبی لیڈر اس معاملے میں مایوس ہیں ۔ اس مشن میں ملک کی فلمی دنیا کے نامور گلوکار ‘فنکار ‘ڈانسر ‘ادیب اور صحافیوں کو بھی جوڑا جانا چاہیے۔ان لوگوں پر عوام کا بھروسہ کافی زیادہ ہوتا ہے ۔جیسی انسانوں کی قطار بہار میں بنائی گئی ‘ ویسی دلی میں بھی کیوں نہ بنائی جائے ؟اس قطار میں پرنب دا‘نریندر مودی ‘اروندکجری وال سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے مشہور لوگ بھی حصہ لیں توکیا اس کا ثر زبردست نہیں ہوگا ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved