خاور احمد پچھلے دنوں ملنے کے لیے آیا تو اپنے تین مجموعوں کی سوغات چھوڑ گیا تھا۔ تینوں کتابیں اظہار نے چھاپی ہیں۔ پختہ جلد کے بغیر اور کسی پر بھی قیمت درج نہیں ہے۔ اس کا پہلا مجموعۂ ''منظر مرے دریچوں سے ‘‘تھا تینوں میں نظمیں ہیں اور غزلیں۔ فی الحال میں اس کی غزلوں ہی کا ذکر کروں گا کہ نظمیں کسی اور وقت پر اٹھا رکھی ہیں۔ ہر کتاب کے آخری صفحے پر مصنف کا مختصر تعارف درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے:
خاور احمد نے 1955ء میں محلہ عثمان خیل‘ تحصیل کُلاچی‘ ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک اُستاد سعید احمد اختر کے گھر آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم ڈیرہ ہی سے حاصل کی۔1974ء میں اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے اور 1976ء میں پشاور یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ ایک مختصر سے عرصے کے لیے درس و تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد 1981ء میں محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت اختیار کی جس کے اختتام پر آج کل اسلام آباد کے ایک مضافاتی قصبے بھارہ کہو میں مقیم ہیں۔'' منظر مرے دریچوں سے‘‘ ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔اس مجموعے کا انتساب اس طرح سے ہے:
نیدوُ کے نام
دُور ہے صبح‘ خیر دُور سہی
ہم جلائیں گے ساری رات چراغ
پس سرورق نذیر اشک کا تحریر کردہ ہے۔ اس کے مسوّدے پر میں نے جو کالم لکھا تھا ‘ ''شاعری کا رنجِ رائے گاں‘‘ کے عنوان سے‘ وہ اس کتاب کے آخر پر درج ہے۔ اس کی غزلوں سے کچھ اشعار: ؎
تُو ایک بارجو دل کی زمین چُھو لیتی
میں اس سے اگلا قدم آسمان پر رکھتا
اُس کو دُنیا کے مسائل نہ بتانے پڑتے
اُس کو دل کے لیے مخصوص کیا جا سکتا
وہ مل گئی تو فقط ایک دائرہ ہوں میں
بچھڑ گئی تو مجھے کائنات کر دے گی
ذرا سا زخم تھا ویسے بھی لاعلاج نہ تھا
تمہارے بعد مگر احتیاط بھی نہ ہوئی
کسی نظر میں مجھے باوفا ٹھہرنے کو
کسی نظر میں مجھے بے وفا تو ہونا تھا
شہر سارا تو لہو رنگ نہیں
زخم آیا ہے کہیں آنکھوں میں
عکسِ خوشبو ایوارڈ یافتہ مجموعہ رقصِ و صال کا انتساب ہے:
فردا کے نام
عجب جمیل حقیقت تھی وہ بھی جس کے لیے
مُسون خواب سے خاورؔ مجھے نکلنا پڑا
اس کا پسِ سرورق صابر ظفر نے لکھا ہے جو کچھ اس طرح سے ہے:
خاور احمد شاعری کے شہرِ جدید میں قیام کے لیے اپنے ساتھ نئی لفظیات اورتلازمات لے کر آیا ہے اس نے انفرادی محبت میں اپنے احساس کی شدت سے رومانویت کے پرانے سانچے کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ خاور احمد کی شاعری اس خود رو پودے کی طرح ہے جو اپنے اندر ذاتی اعتماد رکھتا ہے۔ ایسا اعتماد کہ اسے پھولنے پھلنے کے لیے لمسِ ہوا کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔اس مجموعے میں سے کچھ اشعار:
اُمیدِ آمدِ فصل بہار کرتا ہُوا
میں جا رہا ہوں مگر انتظار کرتا ہُوا
بساطِ شام و سحر سے گزرتا جاتا ہوں
ستارے اور شگوفے شمار کرتا ہُوا
پہلے میں دیکھ دیکھ پڑھتا تھا
پھر اُسے یاد کر لیا میں نے
جانے وہ خاورِ گم گشتہ تجھے یاد بھی ہے
خود کو جو بھول گیا کر کے حوالے تیرے
اب اس کی سمت ہی بہتا رہے گا یہ دریا
کہ جب تلک یہ سمندر سے جا ملے گا نہیں
''ابرِ لب ریز‘‘ کا انتساب انور لالہ کے نام ہے جس کا پسِ سرورق احمد فراز نے لکھا:
خاور احمد کے پاس مانگے تانگے کی اور پرائی باتیں نہیں ہیں اس لیے ان کے شعری مکالموں اور گفتگوئوں میں اپنے ہی دُکھ کی آنچ اور اپنے ہی لہو کی مہک ہے۔ ان کے تجربات خالصتاً اپنے اور احساسات کی صورت گری اپنی ہی ہنر مندی ہے۔ وہ بے حد موزوں طبع ہیں اور انہیں اظہار پر اعتماد ہی نہیں قدرت بھی ہے یقیناً ان میں ایک پیدائشی شاعر کی ساری نشانیاں موجود ہی نہیں‘ دکھائی بھی دیتی ہیں۔ اب اس مجموعہ میں سے کچھ اشعار:
وہ انقلاب جو آنا تھا وہ تو کیا آیا
مگر میں عمر اُسی خواب میں گنوا آیا
عجیب موڑ پہ پوچھا تھا حالِ دل تُونے
تُجھے بتاتا بھی کیا اور تو بھی کیا کرتا
رواں دواں ہے زمانہ ہزارسمتوں میں
مگر وہ لمحہ اُسی چوک میں رُکا ہُوا ہے
کبھی تو چار پل کو آ ملا تھا
مگر ہم مُدتوں پاگل رہے ہیں
اپنے دل کی بھی اب نہیں سُنتا
تجھ سے ایسے ملا ہُوا ہوں میں
تُونے سب کچھ بُھلا دیا شاید
پر مجھے یاد ہو گیا سب کچھ
تیرے ہونے کا پتا دل کے دھڑکنے سے ملا
اپنے ہونے کی خبر ہم کو زمانے سے ملی
آج کا مقطع
جیسی بھی شاعر ی ہے یہ اچھی بُری‘ظفرؔ
حق تو یہ ہے کہ آپ کی شُہرت زیادہ ہے