تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-01-2017

اور کاندھا مل گیا …

کچھ لوگ کہتے ہیں جمہوریت جیت گئی۔ 
کچھ کا خیال ہے کہ جمہوریت ہار گئی، بلکہ منہ کے بل گِر گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد سے تبصروں، جائزوں اور تجزیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اُن کی حلف برداری یعنی صدر کے منصب پر باضابطہ فائز ہوجانے کے بعد بھی جاری ہے۔ 
امریکا کل بھی لبرل ڈیموکریسی کی سب بڑی اور سب سے توانا علامت تھا اور اب بھی ہے۔ سینیٹ، ایوان نمائندگان اور تھنک ٹینکس پالیسی میکنگ کے بنیادی ادارے ہیں۔ یہ اور ایسے ہی کئی دوسرے (نادیدہ) فلٹرز ہیں جن سے چَھن کر قیادت سامنے آتی ہے۔ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دی جاتی ہے اُن کے بارے میں بہت پہلے سے اور بہت اچھی طرح اِس امر کا اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ کہیں سے بھی ایک آدھ آنچ کی بھی کسر نہ رہ گئی ہو۔ 
براک اوباما کی ہی مثال لیجیے۔ وہ امریکا کے چوالیسویں صدر منتخب ہونے سے قبل الینوئے سے سینیٹر منتخب ہوئے اور اِس سے قبل الینوئے کی سینیٹ کے بھی رکن رہے۔ وفاقی اور ریاستی سینیٹر کی حیثیت سے انہوں نے غیر معمولی تحرّک دکھایا۔ بولنے کی صلاحیت خداداد تھی مگر اُنہوں نے ملک کو چلانے کے اُمور کے حوالے سے بھی غیر معمولی لیاقت اپنے اندر پیدا کی اور صحیح معنوں میں seasoned سیاست دان اور پُرعزم statesman بن کر ابھرے۔ براک اوباما کی تقریر میں fumble دکھائی دیتا ہے نہ کسی jerk کا دیدار ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی موضوع پر بولتے وقت زقند نہیں بھرتے۔ ایک ایک لفظ اور جملہ لکڑی کے تختے پر ٹھونکی ہوئی کیل جیسا محسوس ہوتا ہے۔ 
یہ تو ہوئی جانے والے کی بات۔ اب ہم چلتے ہیں آنے والے کی طرف۔ ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب بزنس مین ہیں مگر سیاسی کیریئر نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ کانگریس کے فلٹر سے گزرنے معاملے میں ٹرمپ کا اسکور صفر ہے۔ 2000ء میں اُنہوں نے ریفارمز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے مقدر آزمانے کا فیصلہ کیا مگر ووٹنگ سے قبل دست بردار ہوگئے۔ 2012 میں اُنہوں نے ری پبلکن صدارتی امیدوار بننے کا سوچا مگر ایک بار پھر اپنے فیصلے اور ارادے سے رجوع کرلیا۔ ٹرمپ خالص کاروباری ذہن رکھتے ہیں۔ بڑبولا پن اُن کے مزاج کا لازمی جُز ہوکر رہ گیا ہے۔ بیشتر معاملات میں اُن کی طرزِ فکر و عمل کسی اور دنیا کی لگتی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اُنہوں نے جو کچھ کہا وہ کسی کے خیال میں حماقت پر مبنی تھا اور کسی کے نزدیک اُن کی ذہنی حالت کے قابل رحم ہونے کا ثبوت ٹھہرا۔ بہت سوں کو یقین ہی نہ آیا کہ امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے کا ارادہ رکھنے والا کوئی شخص اس قدر غیر ذمہ دارانہ انداز سے بات کرسکتا ہے؟ 
معاملہ کیا واقعی وہ ہے جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے؟ یا کچھ اور بھی ہے جو ابھی زیرِ نقاب ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں ع 
کوئی معشوق ہے اِس پردۂ زنگاری میں 
کا تاثر کیوں مل رہا ہے؟ 
پوری انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے تارکین وطن اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا۔ مسلم انتہا پسندی کو پوری قوت سے کچلنے کا عزم کئی مواقع پر دہرایا۔ اور دوسری طرف ہندوؤں کو تنقید اور طعن و تشنیع سے استثناء بخشا۔ انتخابی مہم کے دوران اِس طرح کا لا اُبالی پن بالعموم دیکھنے کو نہیں ملتا۔ کیا واقعی وہ مسلم انتہا پسندی کو کچلنا، تارکین وطن کو واپس بھیجنا اور مسلمانوں پر امریکا کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں اور امریکیوں کی اکثریت اُن کی ہم نوا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کو بیشتر امریکیوں کی عمومی ذہنیت اور سیاسی رجحان کا حقیقی نمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ 
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں امریکا کو بھی تبدیل ہونا ہے۔ مرنے کے بعد انسان بدلتا ہے نہ ثقافت اور نہ ہی معاشرہ۔ جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تب تک انسانوں، معاشروں اور ثقافتوں کو بدلتے ہی رہنا ہے۔ امریکا کوئی ایسا گیا گزرا مریل، سُست یا اناڑی بھینسا تو ہے نہیں کہ محض ایک فُل فائٹر سُرخ کپڑے کا ٹکڑا دِکھا دِکھاکر نچائے، تھکائے اور کنٹرول کرے۔ یہ تو ایسا ہاتھی ہے جسے قابو میں رکھنے کے لیے مہاوتوں کی پوری فوج درکار ہے۔ ہم پالیسی میکرز کی بات کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو امریکا کی سیاسی، عسکری اور اقتصادی مشینری کو ہر وقت متحرّک رکھتے ہیں۔ جب ایک عام سے ملک میں بھی اسٹیبلشمنٹ دراصل سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے اور میڈیا کا بھی مجموعہ ہوا کرتی ہے تو ہم امریکا کے معاملے میں یہ گمان کیسے کرسکتے ہیں کہ وہاں کوئی سیاسی گروہ سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے لگے گا؟ 
ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کو عوام کی رائے کا مظہر سمجھنے والوں کی عقل کا ماتم لازم ٹھہرتا ہے۔ جمہوریت میں جہاں اور بہت کچھ ہوتا ہے وہیں عوام کی حقیقی رائے کو گردن سے دبوچ کر ایک طرف ہٹانے کا عمل بھی تو جاری رہتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا کرنا لازم بھی ٹھہرتا ہے۔ عوام بہت سے معاملات میں برحق ہوتے ہیں تو دوسرے بہت سے معاملات میں بے عقلی کی مثال بھی بن جاتے ہیں۔ 
ہلیری کیوں نہیں آئیں یا اُنہیں کیوں نہیں آنے دیا گیا؟ اور ڈونلڈ ٹرمپ کیوں آئے یا اُنہیں کیوں لایا گیا؟ یہ دونوں سوال عمیق غور و فکر اور تجزیے کے متقاضی ہیں۔ اِس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا کو چلانے کی صلاحیت و سکت کے حوالے سے امریکا کمزور ہوتا جارہا ہے؟ یورپ اُس کا ساتھ چھوڑنے کی بھرپور تیاری کرچکا ہے اور اب معاملات کو ''نرم قوت‘‘ کے ذریعے درست کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ دوسری طرف ایشیا تیزی سے طاقت کے مرکز کے طور پر اُبھر اور پنپ رہا ہے۔ چین، روس اور چند دوسری قوتیں مل کر ایشیا کو طاقت کا مرکز بنانے کے عزمِ مصمّم پر کاربند ہیں۔ عرب دنیا بھی بہت حد تک امریکا سے متنفّر ہوچکی ہے۔ پاکستان اور ترکی بھی چاہتے ہیں کہ ہر معاملے میں امریکا کی طرف دیکھنے، اُس کی مرضی جاننے کے مشتاق رہنے اور غیر ضروری طور پر خوف کھانے سے گریز کیا جائے۔ یہ سب کچھ ایسی حقیقتیں نہیں کہ امریکی پالیسی میکرز ''ایزی چیئر‘‘ پر نیم دراز ہوکر دیکھتے رہیں اور مزے لیتے رہیں۔ مشرق بعید، جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، وسطِ ایشیا اور مغربی ایشیا (مشرق وسطٰی) میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکا کے اہم ترین فیصلے کرنے والوں کی نیندیں اُڑادینے کے لیے کافی ہے۔ 
امریکا کی سیاسی و عسکری قیادت، اسٹیبلشمنٹ اور اہم ترین تھنک ٹینکس مل کر جو کچھ طے کرچکے ہیں اُسے رُو بہ عمل لانے کی ایک ہی صورت بچی ہے ... یہ کہ کام کچھ اِس ڈھنگ سے کیا جائے کہ ہو بھی جائے اور الزام بھی نہ آئے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں امریکا کو چند اہم فیصلے کرنے ہیں اور اب یہ بات عیاں اور نمایاں ہوچلی ہے کہ اس حوالے سے بندوق چلانے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا کاندھا بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے! امریکا کو کچھ کمٹمنٹس گھٹانی ہیں، ذمہ داریوں کا بوجھ کم کرنا ہے۔ قدرے غیر سیاسی اور بظاہر غیر سنجیدہ شخصیت کو لاکر ناپسندیدہ فیصلے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اگر باضابطہ تربیت یافتہ یعنی سرد و گرمِ زمانہ سے آشنا سیاست دانوں کے ہاتھوں یہ سب کچھ انجام کو پہنچے گا تو لوگ ورطۂ حیرت میں پڑ جائیں گے اور شاید سیاسی بصیرت پر سے اُن کا ایمان اُٹھ جائے۔ ایسے میں بظاہر حقیقی سیاسی بصیرت سے عاری، خالص کاروباری ذہنیت رکھنے والی شخصیت ہی کو امریکا میں ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کرنے کا کام سونپا جاسکتا تھا اور سونپا گیا ہے۔ دعا کی جانی چاہیے کہ ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرتے کرتے ڈونلڈ ٹرمپ ''ایگزیکیوشنر‘‘ (جلّاد) نہ بن بیٹھیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved