تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-01-2017

پانی کا ڈاکو

متعصب اور جانبدار منصف چاہے اپنے ملک یا اقوام عالم میںکسی بھی فورم پر فرائض انجام دے رہا ہو، اس کے دیے جانے والے فیصلے تاریخ کی کتابوں میں لکھے تو سیاہ حرفوں سے جاتے ہیں، لیکن تاریخ اس کے چہرے پر جو سیاہی ثبت کر تی ہے اس کے بھیانک نشانات اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی نظر آتے رہتے ہیں۔ 
کسی خطے میں ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوںکی زندگیاں اگر متعصبانہ اور جانبدارانہ فیصلوںکی تباہ کاریوں کی زد میں آجائیں تو منصف کا نامہ اعمال سیاہ ہو جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بنی نوع انسان ہی نہیں بلکہ کرہ ارض پر بسنے والی ہر مخلوق جس میں چرند پرند اور نباتات شامل ہے، پانی کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔ اگر کوئی منصف ان کا پانی چھیننے کی کوشش کرے گا یا اس کوشش میں اس کا ساتھ دے گا،تو وہ مکافات عمل سے نہیں بچ پائے گا، چاہے وہ چوبیس گھنٹے اپنے تصور کیے گئے خدائوں کی عبادت میں مصروف ہی کیوں نہ رہتا ہو۔
بگلیہار پر یک طرفہ فیصلہ دینے والے جج اور ان کو بھارت کے حق میں فیصلے کے لئے اکسانے والے لوگ کیوں اس اہم نکتے کو بھول رہے ہیں کہ 1960ء میں جب انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) پاکستان کے سر تھونپاگیا تو اس وقت پاکستان اور بھارت کی حیثیت مختلف تھی، لیکن آج جب پاکستان کے منہ سے پانی چھین کر دراصل روٹی کا نوالہ چھینا جا رہا ہے، وہ بھارت سے بڑی ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ جب موت کے منہ
میں جاتی زندگیوں کو بچانے کے لئے موت کے درندے کے خلاف ہاتھ پائوں مارنے پڑیں تو پھرکسی بھی چیزکو استعمال کیاجاسکتاہے۔ انٹرنیشنل کورٹ کے جن ججوں نے بھارت کی جانب سے تعمیر کئے جانے والے بگلیہار ڈیم کے خلاف پاکستان کی اپیل پر متعصبانہ اور ظالمانہ فیصلہ دیا ہے، اسے عالمی عدالت کا فیصلہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ عقل حیرت زدہ ہے کہ کروڑوں انسانوں کی ضروریات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے اس قدر متعصب لوگوں کو منصف کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے جو اس کے قریب کھڑے ہونے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔ عالمی عدالت انصاف (آئی سی اے) کا بھارت کی جانب جھکائو، صرف پاکستان نہیں بلکہ اس مقدمے کی کارروائی سننے والے میڈیا اور غیر جانبدار مبصروں کو بھی حیران کر گیا۔ وہ سب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ انصاف ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے دلائل انتہائی مضبوط اور مدلل ہیں، لیکن عالمی عدالت کے ججوں کی باڈی لینگوئج اور دوران سماعت پاکستان کے وکلاء کو ان کے دیکھنے کے انداز سے ہی ان کا بھارت کی جانب جھکائو صاف دکھائی دے رہا تھا۔ 
اور پھر وہی ہوا، پاکستانی وکلاء اور غیر جانبدار مبصرین کے خدشات درست ثابت ہوئے اور فیصلہ بھارت کے حق میں دے دیا گیا۔ لیکن ایک سوال جو اس کیس کی پیروی کرنے والے، اپنی حکومت اور انڈس واٹر کمشن کے کرتا دھرتا حضرات سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ جب آپ کو آربٹریشن کورٹ کے جج حضرات کے بارے میں اپنے حساس اداروں نے آگاہ کر دیا تھا کہ یہ متعصب خیالات کے حامل ہیں، تو اسی وقت ان پر اعتراضات کیوں نہیں اٹھائے گئے تھے؟ اور دو ماہ قبل، دنیا بھر میں جب''واٹر ڈے‘‘ منایا جا رہا تھا، ہماری حکومت نے عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے اس فیصلے کے بارے میں بین الاقوامی سیمینارکیوں نہیںکروائے؟ اگر اخراجات آڑے آ رہے تھے تو ان کی کمی حکمرانوں کے اللے تللوں پر اٹھنے والے اخراجات میں کٹوتی کر کے پورے کیے جا سکتے تھے۔کیا حکمرانوں نے سوچا ہے کہ چند سال بعد، پانی کے بغیر ہم کیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے؟ درآنحالیکہ نریندر مودی نے کھل کر دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان کو جانے والا پانی کا ایک ایک قطرہ روکے گا۔
اپنی مشہوری کے لئے حکمرانوں نے اب تک 12 ارب خرچ کر دیے ہیں، کیا پانی کے لئے ایک کروڑ بھی خرچ نہیں ہو سکتا تھا؟ پاکستان کی حکومت کو بتانے والا کوئی نہیں کہ ملک کا پانی کا ذخیرہ صرف 9 فیصد رہ گیا ہے، جو زیادہ سے زیادہ تیس دنوں کی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں پانی کے ذخیرے کی اوسط تیس فیصد ہوتی ہے اور ہمارے مقابلے میں بھارت کے پاس پانی کا 100 دنوں کی ضروریات سے زیادہ کا ذخیرہ موجود ہے۔ اور وہ ممالک جو متعصب ججوں کو پاکستان کی گردن دبانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، ان کے پاس ایک سے ڈیڑھ سال تک کا پانی کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے 56 سال ہونے کو ہیں، لیکن ہمارے پاس اس پانی کو استعمال میں لانے کی پوری آپریشنل صلاحیت نہیں ہے جس کا فائدہ بھارت کو پہنچ رہا ہے۔ سندھ طاس سے متعلقہ کسی دریا کو دیکھ لیں، بھارت اس سے بھر پور استفادہ کر رہا ہے۔کالا باغ ڈیم کو بموں سے اڑانے کی گیدڑ بھبکیوں سے ہم کب تک سہمے رہیں گے؟ پختونوں پر اعتبارکریںکیونکہ وہ اب جاگ چکے اور یہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کا پانی کون چھین رہا ہے؟
بے خبر پاکستانی نہ جانے کب اپنی حکومت سے پوچھیں گے کہ سڑکوں اور میٹرو کی تعمیر کے لئے تو آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ بیس کروڑ عوام کی گردنوں پر لادا جا رہا ہے، لیکن جب آپ کو ورلڈ بینک اور پاکستان کا زرعی ترقیا تی بینک ڈیم بنانے کے لئے300 بلین روپے فراہم کرنے کو تیار ہے تو آپ یہ پیشکش کیوں قبول نہیں کرتے؟ کیا حکمران مستقبل میں ہمیں میٹرو اور سڑکیں چٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ حکومت اور باشعور پاکستانیوں کو یہ نظر کیوں نہیں آ رہاکہ ملک کی زرعی زمینیں رہائشی کالونیاں کھاتی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں، بلکہ ہر ضلع، تحصیل، قصبے اورگائوں میں آبادیاں دور دور تک پھیلتی جا رہی ہیں۔ ملک کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنے لوگوں کے لئے خوراک کہاں سے حاصل کی جائے گی۔ اور جو زمین رہائشی آبادیوں سے بچ رہے گی اس کو سیراب کرنے کے لئے پانی کہاں سے آئے گا؟ کیا ملک کی سیاسی اور دفاعی قیادت کو اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بھارت جنگ کے بغیر ہی پاکستان کے جسم سے پانی کی مقدار کم کر کے اسے بتدریج ناکارہ کر رہا ہے۔ 
ہمارے ملک کے انجینئرز اور انڈس واٹر کمشن کو کیوں یاد نہیں کہ اس وقت پاکستان میں فی کس Water Availability صرف 950 کیوبک میٹر رہ گئی ہے جو1951ء میں 5500 کیوبک میٹر تھی۔ اب پاکستانی قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر کوئی حاکم کالا باغ ڈیم پر آنکھیں بند رکھتا ہے تو وہ اسے ٹھکرا دے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved