تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-01-2017

ٹرمپ کا امریکہ

ایک تازہ مضمون میں ٹرمپ کے امریکہ کے بارے میں قیاس آرائیاں کی گئیں ہیں‘ جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
''ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 45ویں صدر کی حیثیت سے حلف ضرور لے لیا ہے لیکن وہ اس عظیم اور تنہا سپرپاور اور شاید دنیا کے ایسے پہلے صدر ہیں‘ جنہیں نفرت انگیزی‘ نسل پرستی‘ مسلم مخالفت پر مبنی ان کے وژن کی وجہ سے نہ صرف انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام و خواص کی ایک قابل لحاظ تعداد کی مخالفت‘ مزاحمت‘ احتجاج اور غم و غصہ کے طویل سلسلے کو جھیلنا پڑا‘ بلکہ انتخابات میں کامیابی‘ حتیٰ کہ صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد بھی‘ انہیں ملک بھر میں لوگوں کی مخالفت ہی نہیں بلکہ پرتشدد احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دارالحکومت واشنگٹن کی سڑکوں پر مظاہرین نے گاڑیاں جلائیں‘ توڑ پھوڑ کی اور ٹرمپ کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کئے۔ ان کے ہاتھوں میں ابھی تک''ٹرمپ میرا صدر نہیں‘ ابھی نہیں اور کبھی نہیں‘‘ جیسی عبارت والے پلے کارڈز نظر آ رہے ہیں اور وہ قطعی طور پر اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ یہ نعرے جذباتی طور پر نہیں لگا رہے بلکہ ان کے الفاظ حقیقی معنی میں‘ ان کی سوچ کی ترجمانی کر رہے ہیں جو ایک قابل مشاہدہ سچائی ہے۔
ان ملک گیر احتجاجوں اور مظاہروں سے ظاہر ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی صدارت و حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ اس بات کا امکان ہے کہ ان کی فکر اور ارادے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ تاہم پوری دنیا میں یہ واضح پیغام ضرور پہنچ گیا ہے کہ وہ اعداد و شمار کے جمہوری کھیل میں جیت کا سہرا سر پر باندھ کر ‘قصر صدارت میں داخل ہو گئے ہیں۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد‘ ابھی تک انہیں اپنے صدر کے طور پر قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ یہ بات صرف امریکہ اور امریکی عوام تک ہی محدود نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی ٹرمپ کی جیت اور وہائٹ ہائوس میں ان کے ورود کو‘ خوش دلی سے قبول نہیں کر رہے۔ البتہ ایک عظیم ترین جمہوری ملک کے منتخب صدر کے طور پر انہیں تسلیم کرنا‘ دنیا کے ان تمام ملکوں اور لوگوں کی بھی ایک مجبوری ہے‘ جنہیں ٹرمپ کے نظریات سے شدید درجے کا اختلاف ہے۔ دنیا بھر میں ٹرمپ کے احمقانہ خیالات کے حوالے سے بے چینی کی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی پالیسی سے پوری دنیا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔
یوں ٹرمپ کے تئیں عمومی طور پر اکثر امریکی عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کی ناگواری‘ ناراضی اور عدم اطمینان کے کئی اسباب ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جب بھی زبان کھولی‘ کسی نہ کسی فرقہ‘ نسل اور شخصیت کے خلاف زہرافشانی ہی کی۔ انہوں نے میکسیکو سے امریکہ آ کر آباد ہونے والے سیاہ فام میکسیکن‘ ہسپانوی اور لاطینی امریکیوں کے بارے میں خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں عصمت دری‘ قتل‘ منشیات کی تجارت اور مختلف النوع جرائم کی زیادہ تر وارداتوں میں یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایک پوری نسل کے خلاف ملک کے باقی طبقات کو بھڑکایا اور ان کے خلاف نفرت اور ناپسندیدگی کا ماحول بنا دیا۔ کبھی انہوں نے بعض بڑے اور معتبر میڈیا گھرانوں کو جعلی خبروں کا خالق قرار دیا ‘تو کبھی کسی معذور اخباری نامہ نگار کا مذاق اڑایا۔ کبھی ایشیائی باشندوں کی کمزور انگریزی دانی کی تضحیک کی۔ کبھی برصغیرکے انگریزی لب و لہجہ کی ہنسی اڑائی۔ کبھی خواتین کو موضوع مذاق بنایا تو کبھی ہلیری کلنٹن کی تذلیل کی۔
زیرنظر مضمون میں بہت ہی اختصار کے ساتھ صدر ٹرمپ کے صرف د وبیانات کا ذکر اور ان سے متعلق تشویش کا ذکر کریں گے۔ایک کا تعلق مسلمانوں سے ہے اور دوسرے کا برصغیرسے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ میں دہشت گردی کے کسی واقعہ پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی لگانے کی بات کہہ کر صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سنسنی خیزی پیدا کر دی۔ ٹرمپ کی اس سوچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردی کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے جوڑتے ہیں اور صرف یہی نہیں ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو وہ امریکہ میں آباد تمام مسلمانوں کا ایک ڈیٹا بیس تیار کریں گے اور ان کے لئے یہ لازم کیا جائے گا کہ وہ اپنے ساتھ کوئی ایسی چیز نمایاں طور پر رکھیں‘ جس پر ان کی مذہبی شناخت جلی حروف میں درج ہو۔ یعنی ان کے نابغہ روزگار منصوبے کے تحت‘ تمام امریکی مسلمانوں کو اپنے گلے میں ایک ایسا کارڈ ہمہ وقت ڈال کر رکھنا ہو گا‘ جس پر لکھا ہو گا کہ وہ مسلمان ہیں یا یہ کہ ان کا مذہب اسلام ہے۔ تاکہ دوسرے لوگ دور سے ہی سمجھ لیں کہ سامنے والا شخص مسلمان ہے۔
ایک معتبر امریکی سفیدفام صحافی نے لکھا ہے کہ ٹرمپ کی یہ بات سن کر خوف کی ایک تیز لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان اور خاص طور سے وہ مسلمان ‘جو امریکہ میں کئی برسوں یاددہائیوں سے آباد ہیں‘ وہ آج کن اندیشوں میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ہم امریکہ میں مسلمانوں پر حتیٰ کہ مسلمان عورتوں پر‘ حملے کی خبریں پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔ اکثر سکھوں کو بھی اس نوعیت کے حملوں کا شکار ہونا پڑا ہے۔ کیونکہ حملہ آور امریکی‘ پگڑی اور لمبی داڑھی اور وضع قطع کی وجہ سے انہیں مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔ 9/11 کے دہشت گردانہ واقعہ کے بعد ‘جس کے لئے اسامہ بن لادن کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا‘ امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اب جبکہ ٹرمپ صدر بن گئے ہیں اور مسلمانوں کا ملک میں داخلہ بند کرنے اور مسلم امریکیوں کے گلے میں مذہبی شناخت کا کارڈ ڈرالنے کا ارادہ رکھنے ہیں‘ تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ عمل ‘مسلمانوں کے خلاف نفرت اور پرتشدد حملوں کو حکومتی منظوری کے مترادف ہی سمجھا جائے گا۔ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ ان کے لئے زندگی محال ہو جائے ۔ لیکن امریکہ خود بھی اس نفرت اور تشدد کی آگ میں جھلسنے سے نہیں بچ سکے گا۔
ٹرمپ کا یہ بیان قابل ذکر کرتے ہیں‘ جس سے برصغیر مسلمانوںکے متاثر ہونے کااندیشہ ہے اور خاص طور سے ہمارے ان برادران وطن کو صدمے سے دوچار کر سکتا ہے‘ جو ٹرمپ کی کامیابی کے لئے اپنے ملکوںمیں اس امید سے بیٹھے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے داخلے کی بات کہہ کر اپنا مسلم مخالف نظریہ ظاہر کیا تھا۔ صدر کی حیثیت سے اپنی افتتاحی تقریر میں بھی ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ امریکیوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ان کی اولین ترجیح ہو گی اور وہ ان کے لئے ملازمتوں کا انتظام کرنے اور آڈٹ سورسنگ بند کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ اس سے امریکہ میں آئی ٹی‘ ہیلتھ کیئر اور دیگر کئی شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ورکروں کی ملازمتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ امریکہ آزاد تجارت اور اقتصادی مساوات کا ہمیشہ سے ہی چیمپئن رہا ہے‘ اب اگر ٹرمپ کی ''امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسی کی وجہ سے سابقہ حکمت عملی الٹ جاتی ہے‘ تو ظاہر ہے کہ اس سے برصغیرپر منفی اقتصادی اثر پڑے گا۔ دنیا کی ترقی کی رفتار بھی سست پڑنے کا اندیشہ ہے۔
ٹرمپ اپنی ذاتی سوچ اور نظریہ کو جس کا اظہار انہوں نے صدر منتخب ہونے سے پہلے کیا تھا۔ اب صدر بننے کے بعد اپنے ملک کی پالیسی کس حد تک تبدیل کر سکیں گے اور وہاں پالیسیاں کس حد تک قابل عمل ہوں گی؟اس کا اندازہ آنے والے چند مہینوں کے بعد ہی ہو گا۔ تاہم ان کی ناقابل اعتبار شخصیت اور متنازع بیانات کی وجہ سے یہ اندیشہ بہرحال موجود رہے گا کہ ان کا وژن صرف مسلمانوں اور برصغیر کی کمپنیوں اور ملازمین کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ خود امریکہ کو بھی شدید اذیت اور نقصان میں مبتلا کر سکتا ہے۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved