تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     27-01-2017

ایک معافی سکیم ان کے لیے بھی

چند دن ہوتے ہیں کہ وزیراعظم ملک کے نامور کاروباری حضرات کے سامنے اپنی حکومت کے وہ کارنامے بیان کررہے تھے جو اس نے معاشی میدان میں سر انجام دیے ہیں۔ وزیراعظم سے پہلے تقریر کرنے والے ایک صاحب نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ایک ایسی ٹیکس معافی(ایمنیسٹی) سکیم کا اعلان کرے جس کے تحت بیرونِ ملک پڑا کالا دھن پاکستان میں لایا جاسکے۔ وزیراعظم نے اس مطالبے کا ذکرکرتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھے بزنس مینوں سے کہا کہ آپ مجھے ہاتھ کھڑے کرکے بتائیں کہ معافی سکیم کے حق میں کتنے لوگ ہیں۔ یہ سنتے ہی وہاں موجود ہر شخص نے اپنا ہاتھ اٹھا دیا ، دوسرے لفظوں میں ملک کے چیف ایگزیکٹو کے سامنے کالادھن کمانے اور رکھنے کا اعتراف کرلیا۔ یہ دیکھ کر وزیراعظم کے چہرے پر گہری سنجیدگی آگئی ۔ ایک ذرا سے توقف کے بعدانہوں نے پھر کہا کہ اب وہ لوگ اپنا ہاتھ اٹھائیں جو کالے دھن کو سفید کرنے کی اس سکیم کے خلاف ہیں۔ اس پرآگے بیٹھے سیاہ پیسہ رکھنے والے اقبالی مجرموں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ پچھلی نشستوں پر بیٹھا کوئی دیوانہ ہاتھ تو نہیں اٹھا رہا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا تو آگے پیچھے بیٹھے سب لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کردیں گویا سیاہ پیسے کو سفید کرنے کی تجویز منظور ہوگئی ہے۔ تالیوں کا طوفان تھما تو وزیراعظم نے زیادہ سنجیدہ یا رنجیدہ چہرے سے وعدہ کرلیا کہ وہ وزیرخزانہ اسحٰق ڈار سے اس موضوع پر بات کرکے کوئی راستہ نکالیں گے۔ اس پر ایک بار پھر تالیاں بجنے لگیں ، وزیراعظم نے اپنی تقریر کے اختتامی کلمات ارشاد فرمائے ،تقریب ختم ہوگئی اور حکومتی مشینری ملک سے باہر پڑے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے کام میں جت گئی۔ 
حکومت کا مزاج ، مجبوری اور معاشی رجحان دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت جلدملک کے نامور تاجروںاور صنعتکاروں کو مطلوبہ رعایت فراہم کردی جائے گی جس کے بدلے میں وہ اسی ملک کا وہ ٹیکس جو انہوں نے چوری کرکے بیرون ملک بھجوادیا تھا، واپس لاکر قوم پر احسانِ عظیم فرمائیں گے۔ اس کے بعد پھر ٹیکس چوری ہوگا، پھر پیسہ ملک کے اندر یا باہر چھپا دیا جائے گا، تین چار سال گزرنے پر حکومت کے سامنے اپنی خدمات گنوانے کے بعد چوری کے مال پر ٹیکس معافی کی درخواست کی جائے گی اور ایک بار پھر حکومت اس قوم کے چوری شدہ سرمائے کو چوروں کے سپرد کرنے کے لیے قانونی طریقے اختیار کرتے ہوئے ایک نئی اسکیم متعارف کرا دے گی۔
پاکستان میں پہلی ٹیکس معافی سکیم جنرل ایوب خان نے 1958ء میں متعارف کروائی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ایک بار پچھلی چوریوں کی معافی دے کر آئندہ کے لیے یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیں گے۔ ان کا خیال کتنا غلط تھا، اس کا اندازہ اس با ت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری پیاری حکومت جس نئی ایمنیسٹی سکیم کی تیاری کررہی ہے یہ گزشتہ انسٹھ سال میں بارہویں سکیم ہوگی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سالوں میں صرف ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے واحد حکمران تھے جنہوں نے ایسی کوئی سکیم نہیں دی۔ ٹیکس چوروں کو ملنے والی ان رعایتوں میں سے چار فوجی حکمرانوں کی عنایات سے ملیں اور باقی کی آٹھ سکیمیں جمہوری ادوار کا لطف و کرم تھیں۔ حکومت ہائے مملکتِ خداداد کی کی دادودہش کا اندازہ لگائیے کہ ان میں دوایسی سکیمیں بھی ہیں جن کے تحت ملک میں سمگل ہوکر آنے والی قیمتی گاڑیو ں کے مالکان کو درخواست کی گئی کہ وہ ان پر عائد ہونے والے ٹیکس کا کچھ حصہ جمع کراکے سمگلنگ کے جرم سے بغیر کسی کارروائی کے بری ہوجائیں۔ ان سکیموں کے علاوہ پاکستان کے زرمبادلہ اور ٹیکس قوانین میں ایسی شقیں بھی مستقل طور پر شامل ہیں کہ اگر کوئی شخص پاکستان میں ٹیکس چوری یا بدعنوانی سے پیسہ کما لے اور اسے کسی طریقے سے دوبئی بھیج کر بینکوں کے ذریعے واپس منگوا لے تو اس کا یہ مالِ حرام عین حلال و طیب قرار پائے گا۔ یعنی وہ برگزیدہ بندے جو اپنے اثاثوں پر ایمنیسٹی کا ٹھپا لگوا کر عام مخلوق کی نظروں میں نہیں آنا چاہتے ، تھوڑے سے تردد کے بعد اپنا مال حاسدین کے نظروں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ 
ٹیکس چوروں کو یکے بعد دیگرے دی جانے والی رعایتوںا ور یہاں کے دیگر معاشی قوانین کا مطالعہ کرنے کے بعد سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین اپنی کتاب (پاکستان ـ : طبقہء امراء کی معیشت ) میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دراصل دولت مندوں کو مزید دولت مند اور غریب کو غریب تر بنانے کا وہ نظام ہے جس کی پشت پر ریاست اپنی پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہے اور اس میںجمہوری حکومتیں اتنی ہی قصوروار ہیں جتنی فوجی حکومتیں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے سابق سربراہ مارک آندرے فرانشے نے چند ماہ پہلے یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے کہا تھا ، '' یہاں کے طبقہء امراء کو اب سوچنا ہوگا کہ انہیں اس ملک (پاکستان) کی ضرورت بھی ہے یا نہیں کیونکہ یہاں کے غریبوں سے کما کر دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں رہ کر عیاشی کرنے کا سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا‘‘۔دولت مندوں کے حق میں جھکے ہوئے اس معاشی نظام نے ہمارے ریاستی اداروں کو اس طرح قبضے میں لے لیا ہے کہ اب سماجی انصاف تو دور کی بات قانونی انصاف بھی بغیر سرمائے کے ممکن نہیں رہا۔ کسی بھی معاہدے کے نفاذ کے لیے اگر کوئی فریق عدالت سے رجوع کرلے تو اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ اس کا نفاذ بے معنی رہ جاتا ہے، پھر عدالت سے رجوع کرنا ہی اتنا مہنگا ہوچکا ہے کہ سوائے سرمایہ دار کے کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ سیاست میں سرمائے کا عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ نظریات کے لیے جانیں کھپانے والے پس منظر میں دھکیل دیے گئے ہیں جبکہ لودھراں کے جہانگیر ترین، لاہور کے علیم خان اور اوکاڑہ کے ریاض الحق جج جیسے لوگ اپنی دولت کے بل بوتے پر قوانین کو روندتے ہوئے ملکی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔
یہ اس خطہء زمین کا احوالِ سیاست ہے جسے ایک اسلامی فلاحی مملکت اور سماجی انصاف کی آماجگاہ بننا تھا ، اس نظام اور ان لوگوں کے طفیل ایک ایسا ملک بن رہا ہے جس کے ایک چھوٹے سے حصے پر بنی ہوئی جنت میں سرمائے کے زور پر دنیا کی ہر نعمت میسر ہے اور اس کا بہت بڑا حصہ ایک ایسا دوزخ بن چکا ہے جہاں پاکستان کے کروڑوں لوگ غریب ہونے کی سزا پارہے ہیں۔ قوانین اور پالیسیوں سے بنے اس جہنم میں وہ ڈیڑھ کروڑ بچے بھی ہیں جن کے قد اور دماغ اس لیے پوری طرح نشوونما نہیں پاسکے کہ انہیں کبھی پیٹ بھر کر کھانا ہی نہیں ملا، یہاں وہ اڑتالیس فیصد بچے بھی ہیں جن کے والدین نے چاہا کہ وہ سکول میں پڑھ لیں مگر پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے پہلے انہیں سکول سے نکال کر کام پر لگا دیا گیا۔ یہاں اس ملک کے تیس فیصد عوام بھی جھلس رہے ہیں جودن بھر کام کرنے کے باوجود اپنی ضرورت کے مطابق روٹی کا بندو بست نہیں کرسکتے کیونکہ آج سے دس برس پہلے ایک دن کی مزدوری سے وہ جتنا آٹا خرید سکتے تھے آج اس کی مقدار نصف ہوچکی ہے۔ جنت میں رہنے والوں کو چھینک بھی آتی ہے تو وہ دنیا کے بہترین ہسپتال میں پہنچ جاتے ہیں اور جہنم کے مکین کی ماں ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پرپڑی مر جاتی ہے۔ ایک طرف کے بچوں کی چوسنی بھی ولایت سے آتی ہے اور دوسری طرف کے بچوں کو پہننے کے لیے کپڑا بھی نہیں ملتا۔اُن کی باہر پڑی فاضل دولت پر سوال بھی اٹھے تو قانون، انصاف، حکومت، عدالت سب کچھ حرکت میں آجائے اور اِ ن بے چاروں کی زندگی کا اثاثہ ایک گائے چوری ہوجائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ یہ کیسا ملک بن گیا ہے جہاں امیر کو تو ہرگناہ کی ایمنیسٹی مل جاتی ہے مگرغریب کو بھوک ، جہالت، بیماری اور ذلت سے رہائی کی کوئی سکیم نہ ملتی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved