تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     28-01-2017

ٹرمپ کا انڈین ایڈیشن

ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے نقل وطن اور ملاقات کے لئے آنے والوں کو ویزا کے اجرا سے پہلے سخت جانچ پڑتال شروع کر دی ہے جو امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پا بندی لگانے کے مترادف ہے۔سرِ دست اس پابندی کا اطلاق سات ملکوں ایران‘ عراق‘ لیبیا‘ شام‘ یمن‘ سوڈان اور صوما لیہ پر ہوگا۔ ان ملکوںکو، جہاں سے بیشتر دہشت گرد امریکہ اور یورپ میں داخل ہوتے ہیں مصلحتاً اس پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔دریں اثنا امریکی شہروں (بلدیات) کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے غیر قانونی تارکین کو '' پناہ‘‘ دینے کا کام جاری رکھا تو ان کی وفا قی امداد بند کر دی جائے گی۔ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کئے تھے ان میں سے بیشتر پورے ہوگئے ہیں۔صدر نے تارکینِ وطن کو '' اندر‘‘ رکھنے کی غرض سے میکسیکو اور امریکہ کے مابین ایک اونچی آہنی دیوار مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔یہ رکاوٹ 632میل بن چکی ہے اور1933میل باقی ہے۔ایسی دیواریں کئی امریکی شہروں میں مو جود ہیں جو انسانی آبادیوں کو ہائی ویز کے شور شرابے سے بچانے کے لئے بنائی گئی ہیں۔صدر یورپ اور ایشیا کے تجارتی معاہدوں سے نکل آئے مگر ان کی صف لپیٹنے میں وقت لگے گا۔ انہوں نے نیٹو کو از کارِ رفتہ اور ایران سے مغربی اقوام کے جوہری سمجھوتے کا ذکر بھی کیا تھا مگر اب تک انہیں ختم کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منصب کا بھاری پتھر اٹھا لیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سو سے زیادہ کانگرس مین اور ہزاروں دوسرے ڈیمو کریٹ حلف برداری کی تقریب سے غیر حاضر رہے۔جمعہ کے دن ''کیپیٹل‘‘ کی مغربی سیڑھیوں سے لے کر لنکن میموریل تک سارا مال حاضرین سے بھرا ہوا تھا اور اگلے دن سوا میل کا یہ علاقہ، جو جلسہ جلوس کے کام آتا ہے، احتجاجیوں سے پُر تھا۔ ان میں زیادہ تر عورتیں تھیں اور ان کا دائرہ بنگلور تک پھیل گیا تھا۔ خبروں اور تصویروں کے مطابق ایسے مظاہرے امریکہ کے چھوٹے بڑے شہروں کے علاوہ لندن ‘ پیرس‘ برلن اور میلبورن وغیرہ میں بھی ہوئے۔واشنگٹن میں ایسے مظاہرے تقریباً روزانہ ہوتے ہیں۔یہ دنیا کے بدلنے کی نشانیاں ہیں۔
منگل پربھات لودھا‘نریندر مودی کی کاربن کاپی ہیں۔مہاراشٹر بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدرہیں اور ممبئی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتراک سے ان کا 75 منزلہ ہوٹل بن رہا ہے۔وہ مسٹر ٹرمپ کی طرح انڈین ارب پتی ہیں۔ ساؤتھ کیرولائنا کی گورنر نکی ہیلی (Nikki Haley)کو اقوامِ متحدہ میں سفیر بنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے صدر ایک اور انڈین کو نواز رہے ہیں، ہر چند کہ امرتسر کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والی کامیاب ریپبلکن کے خیالات صدر سے ٹکراتے ہیں، جو روس کو ہر شے کے قصور سے بری الذمہ قرار دیتے اور مسلمانوں کے داخلے پر پابندی تجویز کرتے ہیں۔نکی ہیلی نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے فارن پالیسی پر جو بیان دیا اس میں روس کے متعلق تشکیک اور نیٹوکے بارے میں رجائیت کا اظہار کیا گیا ہے۔خاتون نے کہا:مسلمانوں کی ایک رجسٹری بنانے یا ان کے داخلے پر پابندی لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔وہ بولیں: جہاں مجھے صدر سے اختلاف ہو گا میں بر ملا اس کا اظہار کروں گی۔وہ خود مذہبی تفریق و امتیاز کا شکار ہوئی ہیں اور خارجہ پالیسی کے معا ملے میں ٹرمپ پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں۔میرا خیال نہیں کہ ٹرمپ نے ہیلی کو نامزد کرتے ہوئے اس حقیقت کو مد نظر رکھا ہو گا کہ پاکستان پہلے ایک خاتون کو اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب لگا چکا ہے۔بیشتر ہندوستانی امریکیوں نے جب مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ کی یلغار سنی تو وہ ڈیمو کریٹک امیدوار ہلری کلنٹن کو چھوڑ کر ان کی قطار میں لگ گئے تھے۔ الیکٹورل کالج (ریاستی ووٹ) کی بنا پرالیکشن کا نتیجہ نکلا تو خوشی سے دیوانے ہو گئے ہر چند کہ ان کے ہم وطن اہم سر کاری عہدوں پر فائز ہیں۔
واشنگٹن میں ٹرمپ کے دورِ حکومت کے پہلے دن جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہدِ صدارت ‘مذہبی جنوں اورمعاشرتی انتشار اپنے ساتھ لایا ہے۔ ہر چند کہ نئے سربراہ حکومت مذہبی آدمی نہیں ہیں لیکن آئین میں ریاست اور کلیسا کی علیحدگی کے ضامن۔ تقریب کا آغازایک چرچ میں دعاؤں سے ہوا جس میں ایک ہندو پنڈت مدعو تھا مگرکوئی مسلمان نہیں۔ایوانِ مقننہ کی سیڑھیوں پر حلف لینے کی رسم سے پہلے تین طائفوں نے مذہبی گیت گائے مگر ان بھی کو ئی مسلم نہ تھا۔تین مذہبی شخصیتوں نے بائبل کے اقتباسات سنا ئے۔ آخر میں مسٹر ٹرمپ نے جو تقریر کی اس میں ''Radical Islamic terrorism‘‘ کی اصطلا ح موجود تھی۔ سی آئی اے کی تقریب میں بھی یہ الفاظ دہرائے گئے۔ بارک حسین اوباما اور ان کی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے ٹرمپ کا یہ جھگڑا رہا کہ وہ اس رجحان کی مذمت نہیں کرتے۔ جواب تھا کہ رجحان اسلامی ہو تو وہ اس کی مذمت کریں۔مودی نے تعلقاتِ عامہ درست رکھے ہوئے تھے۔ ابھی وہ ہندوستان کی تقدیر کے مالک نہیں بنے تھے کہ بندرا بن سے میرا گزر ہوا اور ایک شخص، جو کسی ٹور کمپنی کا نمائندہ معلوم ہو تا تھا، اپنے بیانیہ میں کہنے لگا: بس کے دائیں بائیں جتنے مندر دیکھ رہے ہو سب کی سیوا نریندر مودی کرتے ہیں۔
سیاسی گرو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے منگل پربھات لودھا بھی مندروں کی سیوا کرتے ہیں اور سماجی خدمت کے دوسرے کام سرانجام دیتے ہیں۔ مثلاً وہ میٹرک کرنے والے ہر بچے کو پندرہ سو روپے نقد دیتے ہیں اور والدین کی دعائیں لیتے ہیں۔لودھا نے پہلی بار 1955ء میں ریاستی اسمبلی کی ایک نشست جیتی تھی۔اس کے بعد وہ کئی دفعہ اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب ہوئے اور ان کی اقبال مندی بڑھتی چلی گئی۔ انفرادی مالیات کی امریکی فرم فوربز کے مطابق لودھا کی دولت کا اندازہ 1.6 بلین ڈالر ہے۔سوشل میڈیا اکثر لودھا کا موازنہ ٹرمپ سے کرتا ہے۔ ایک اخبار نے تو اْن کو '' ڈونلڈ ٹرمپ مائنس فلیش‘‘ یا چمتکار کے بغیر ڈونلڈ ٹرمپ لکھا مگر وہ نریندر مودی کا چربہ ہیں، جو ریاستِ گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے، ودوھدرا میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہوئے اور امریکہ کے ویزا سے محروم رہے۔
2018ء میں جب ممبئی کا ٹرمپ لودھا ٹاور مکمل ہو گا تو وہ جنوبی ایشیا میں گھروں کا سب سے بڑا مجموعہ ہو گا جس میں چار سو رہائش گاہیں ہوں گی اور ایک ہیلی کاپٹر سروس جس سے جہاز کرائے پر حاصل کئے جا سکیں گے۔ مسٹر لودھا ریاستی اسمبلی میں سرکاری پارٹی کے رکن بھی ہیں جو ان کے جائیداد بنانے کاروبار کی غیر معمولی کامیابی کا راز بھی ہے۔ بی جے پی میں ان کے حریف راج پروہت کہتے ہیں کہ اس کاروبار سے وابستہ بیشتر لوگ مقا می حکومت کے دفاتر سے اپنے پرمٹ منظور کرانے کے لئے رشوت دیتے ہیں لیکن پروہت نے ایک وڈیو ٹیپ میں، جو اس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ یو ٹیوب پر ڈالی،کہا: اگر لودھا کے پرمٹ کی کوئی فائل رک جائے تو وہ وہاں جاتے ہیں اور کڑاکے دار آواز میں کہتے ہیں، ''میں قانون ساز ہوں،میری فائل میں رکاوٹ کون ڈال رہا ہے؟‘‘ لودھا غیر قانونی کاروبار سے انکار کرتے ہیں۔ لوگ اکسٹھ سالہ لودھا کی کمپنیوں کے گروپ کے گرویدہ ہیں جو ممبئی میں رئیل اسٹیٹ کی نشوونما کے لئے کام کرنے والی کامیاب کمپنیوں کا مجموعہ ہے مگر عدالتی ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لودھا گروپ ٹیکس کی مد میں حکومت کو تیس ملین ڈالر نہ دینے کے ایک کیس میں بھی ملوث تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved