وزارت خزانہ نے قوم کو خوش خبری دے دی ہے کہ چوتھی ایمنسٹی سکیم کا خاکہ تیار کر لیا گیا ہے، جس کے تحت دنیا بھر میں کسی بھی جگہ آف شور کمپنیوں کے مالکان پانچ فیصد ٹیکس دے کر کالے دھن کو صاف و شفاف بنا سکیں گے۔ اس طرح کی ایمنسٹی دینے سے سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے 95 ارب ڈالر قومی خزانے کا حصہ بن جائیں گے۔ ایسے تمام پاکستانی اکائونٹ ہولڈرز پانچ فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر یہ رقم بغیر کسی قانونی رکاوٹ کے پاکستان واپس لا سکیںگے۔
وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کی جانب سے جاری کی جانے والی سوئس اکائونٹس کی تفصیلات اور پھر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی ملتان میٹرو بس کے افتتاح کے موقع پر اپنے برادر اکبر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی موجودگی میں کی جانے والی تقریر سے دل کو کچھ ڈھارس بندھی ہے جس میں انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ سوئس بینکوں میں آصف زرداری کے 600 ملین ڈالر پکار پکار کر فریاد کر رہے ہیں کہ پاکستانیوں! ہم تمہارے ہیں، صرف تمہارے، اس لئے آئو اور ہمیں واپس اپنے پاس لے جائو، ہم سے اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا ،کیونکہ آپ کی جدائی نے ہمیں بے حال کر کے رکھ دیا ہے۔
سوچیے کہ دنیا بھر کی آف شور کمپنیوں اور سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے 95 ارب ڈالر جب ملک میں واپس لائے جائیںگے تو ظاہر ہے کہ بین الاقوامی اداروں کو ادائیگیاں کرنے کے لئے ہمارے ذمے 75 ارب ڈالرکے جو غیر ملکی قرضے واجب
الادا ہیں وہ تو اس طرح ہوا میں اڑ جائیں گے جیسے کبھی تھے ہی نہیں اور ان قرضوں کے ختم ہو جانے سے وہ کشکول بھی ہوا میں اڑ کر دور سمندر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈوب جائے گا جسے در بدر اٹھائے ہوئے ہمارے ہاتھ پائوں کب کے جواب دے چکے ہیں۔ ملتان میں خادم اعلیٰ کی تقریر اور وزارت خزانہ کی چوتھی ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ملنے والی اس خوش خبری کے بعد قوم اب انتظار کر رہی ہے کہ یہ چاند کب چڑھے گا اور پاکستان سے لُوٹا ہوا یہ ایک سو ارب ڈالر کے قریب زرمبادلہ قومی خزانے میں کب واپس آئے گا؟ لیکن خدشہ ہے کہ زرداری صاحب کے چھ سو ملین ڈالر تو ابھی تک کوئی بھی واپس نہیں لا سکا اور اس دوران اس غریب ملک کی کمر پر ہمالیہ پہاڑ جتنے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ لد چکا ہے۔
کل کے قومی اخبارات میں پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف کی ایک ایسی بلیک اینڈ وائٹ تصویر شائع ہوئی ہے جس میں وہ اپنی وزارت کے تحت ہونے والے سیمینار میں اچانک بجلی چلے جانے پر اپنے موبائل کی روشنی میں کچھ پڑھنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اس لئے قوم کو ڈر ہے کہ وزارت خزانہ کی دی جانے والی یہ خوش خبری بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی طرح نہ ہو، جس کے خاتمے کی کب سے قوم کو نوید سنائی جا رہی ہے۔
سٹاک ایکسچینج نے جیسے ہی پچاس ہزار کی حد عبور کی، پاکستان میں ایک جشن کا سماں باندھ دیا گیا، ہر جانب خیر مقدمی اشتہارات کی بھر مار ہو گئی۔ اس سے لگتا ہے کہ کسی دن سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر مسلم لیگ نواز کا بریگیڈ فخریہ انداز میں یہ اعلان بھی نہ کر دے کہ وہ کام جو آج تک کسی بھی حکومت کا نصیب نہیں بن سکا اس کا فیتہ کاٹتے ہوئے ہم نے اﷲ کے فضل و کرم سے پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں کا حجم 75 ارب ڈالر تک بڑھا دیا ہے اور یہ اعزا ز کسی اور کے نہیں بلکہ صرف ہماری حکومت کے حصے میں آیا ہے۔ اگر 75 ارب ڈالر کی سمجھ نہ آئے تو ایک ڈالر کو 108 پاکستانی روپوں سے ضرب دے کر معلوم کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی روپوں میں یہ کتنی رقم بنتی ہے اور جواب سامنے آنے پر ہوش قائم رہیں تو ملکی بینکوں سے حاصل کئے جانے والے اندرونی قرضوں کی تٖفصیلات بھی معلوم کر لی جائیں، جس کے بعد یقیناًََ ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ سینیٹ میں ایک سوال کے جواب میں وزارت خزانہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ہماری حکومت تین سالوں میں پاکستانی بینکوں سے23 کھرب 76 ملین روپے قرضہ لے چکی ہے۔ ان پہاڑ جیسے قرضوں کی وصولیاں بس اتنی ہیں کہ جن سے ان قرضوں کی بر وقت ادائیگیاں تو بہت دور کی بات ہے، کاروبار حیات چلانے کے لئے پھر قرضے لینے پڑ جائیں گے۔
ڈیووس میں سرمایہ کاری کانفرنس کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سوال کیا کہ پاکستان نے بین الاقوامی ساہوکاروں کو ان بے تحاشا قرضوں کے عوض کون سی گارنٹیاں دی ہیں؟ ملک کے کن اثاثوں کو ان کے پاس گروی رکھا گیا ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ کراچی کا جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ، موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز، پاکستان ٹیلی ویژن کے تمام اثاثے اور ریڈیو پاکستان کی تمام عمارتیں آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہیں؟ اور کیا یہ بھی درست ہے کہ چند اور اہم ترین ملکی اثاثے بھی جلد بین الاقوامی اداروں کے پاس رہن رکھے جا رہے ہیں؟ پہلے سے موجود قرضوں کو واپس کرنے کے لئے مزید قرضے وصول کرنے کو Debt Trap کا نام دیا جاتا ہے اور یہ کس قدر خطرناک ہوتا ہے، اس کے لئے کسی بڑے ادارے سے سند یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔
قرض دینے والا کوئی بھی ادارہ ایف بی آر، واپڈا، لیسکو اور پیپکو جیسی کمپنیاں اور کراچی ایئر پورٹ جیسے مالی منفعت دینے والے ادارے اپنے پاس رہن رکھ کر قرضہ دینے میں ایک پل کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔ پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورت حال کو سامنے رکھنے والا دنیا کا کوئی ایک بھی ماہر معاشیات یقین سے کہہ سکتا ہے کہ پاکستانی حکومت ملکی اثاثوں کو گروی رکھتے ہوئے جو بھاری قرضے حاصل کر رہا ہے اس کی ادائیگیوں کے لئے اس کے پاس اس وقت کسی بھی قسم کے وسائل نہیں ہیں۔ اگر ملکی ٹیکسوں کو یا اوور سیز پاکستانیوں کے بھیجے گئے زرمبادلہ کو سامنے رکھیں تو نتیجہ صفر نکلتا ہے کیونکہ اگر کسی بھی سال بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے زرمبادلہ کو قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے مختص کر دیا گیا تو پھر کاروبار مملکت نہیں چل سکے گا۔ بین الاقوامی اداروں سے وصول کیے جانے والے حالیہ بھاری قرضوں کے عوض گروی رکھے گئے اہم ترین قومی ادارے اگر اپنی آمدنیوں سے ان قرضوں کی ادائیگی میں کامیاب نہیں ہوتے تو غور سے سوچنا ہو گا کہ ایسے میں ان قرضوں کے عوض رہن رکھے گئے ملکی اثاثے ہمارے کنٹرول سے نکل سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر بھارت کی جانب سے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی جائے تو ایئر پورٹس، ٹی وی اسٹیشن، ریڈیو اسٹیشن اور موٹر وے جیسے اہم ترین اداروں کا استعمال کس طرح ممکن ہو سکے گا؟ پاکستان کی سکیورٹی سے متعلق اہم ترین عہدے پر رہنے والے ایک افسر نے اس ممکنہ صورت حال پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا:
The Govt. would be in deep trouble if something happens like this. !