تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     29-01-2017

رفتگاں کی یاد (آخری قسط)

دیکھنے والے یہ سمجھے کہ صدرنے کانفرنس ہال سے تلاوت کلام پاک سنانے کا خصوصی انتظام کیا ہے‘ مقصود بھی یہی تھا۔ قرأت کے دوران ہال میں بیٹھے مندوبین کی تصویریں بھی دکھائی جاتی رہیں تاکہ محسوس ہوکہ وہ تلاوت کلام پاک سن رہے ہیں حالانکہ وہ اس وقت صدرپاکستان سے پہلے بولنے والے مقررکی تقریرسن رہے تھے۔ بعض اخبارات میں اس حوالے سے تعریفی خبریں بھی چھپوائی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اظہرلودھی کی اناؤنسمنٹ اور قاری خوشی محمد کی تلاوت ‘اقوام متحدہ کے ہال سے منسلک ایک سٹوڈیو سے کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی عمارت میں ایسے کئی سٹوڈیوموجود ہیں جہاں سے آنے والے وفود کی کیمرہ ٹیمیں‘ اپنی خبریں اور پروگرام تیارکرکے اپنے ملک بھیجتی ہیں ‘‘۔
اس دور میں سنسرکی بڑی سخت پابندی تھی۔ ہر پروگرام نشر ہونے سے پہلے ایک کمیٹی دیکھتی۔ بلھے شاہ ؒکا یہ شعر 
مسجد ڈھادے مندر ڈھادے، ڈھادے جوکج ڈھیندا
ایک بندے دا دل نہ ڈھائیں، رب دلاں وچ رہندا
عون محمد رضوی نے ایک پروگرام میں ریکارڈ کیا تو سنسرکمیٹی نے مسترد کردیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ یہ شعر کچھ دن پہلے‘ وزیراعظم نوازشریف نے پڑھا اور ٹی چینلوں پرسنا بھی گیا۔ چلیں ہم اتنا تو آگے آگئے ہیں کہ ہمارے حکمران ایسا شعر سنسرکرانے کے بجائے اسے پڑھتے ہیں۔ کچھ لوگ معترض بھی ہوئے ہیں جن میں سے ایک صاحب کو وجاہت مسعود نے جواب بھی دیا ہے لیکن معترضین کا قصور نہیں‘ بند ذہن سے بلھے شاہؒ کے شعر پلے نہیں پڑتے۔ بلھے شاہ ؒکے شعر کی کم علموں نے جو درگت بنائی ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے ع
شعر مرا بمدرسہ کہ برد
یہ کتاب نوازشریف کے ذکرسے خالی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''میاں نوازشریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں‘ میاں صاحب کے انٹرویو اورخبروں کی کوریج میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا کہ ان کی تصویرمیں سرکا پچھلا حصہ دکھائی نہ دے کیونکہ ان کے سرکے اس حصے میں بال کچھ کم تھے جنہیںدکھانا وزیراعظم کوپسند نہ تھا۔ اس حوالے سے باقاعدہ تحریری احکامات جاری ہوئے تھے‘‘۔ یہ اس زمانے کی بات ہے‘ جب ہیرٹرانسپلانٹ شاید اتنا عام نہ تھا۔ آنے والے برسوں میں شریف برادران نے اپنا یہ مسئلہ حل کرلیا‘ جس سے ان کی شخصیت میں نکھار آیا اوراس کام کے کرنے والے کو شریف برادران کے سخت ناقد‘ ایاز امیر نے بھی اپنے ایک کالم میں داد دی۔ اختر وقارعظیم بتاتے ہیں کہ جنرل مشرف نے 12 اکتوبرکی رات کو کمانڈو کی جس قمیص کو پہن کر خطاب کیا وہ ان کی اپنی نہ تھی بلکہ ڈیوٹی پر موجود کمانڈو سے مستعار لی گئی تھی۔ اس موقع پر بننے والے گروپ فوٹو میں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا کہ تصویر میں سوٹ کی پتلون نظر نہ آئے۔
اختر وقار عظیم نے ضیا اورمشرف کے فراڈ ریفرنڈم کا زمانہ دیکھا‘ جس میں پی ٹی وی کی ذمہ داری تھی کہ ظاہرکیا جائے کہ لوگ جوق در جوق ان آمروں کوووٹ دینے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آمروں کے آنے پر مٹھائی بانٹنے والے ریفرنڈم کے وقت ستو پی کرکیوں سوئے رہتے ہیں؟ ضیا کے اس ریفرنڈم کے بارے میں حبیب جالب نے لکھا ؎
شہر میں ہْو کا عالم تھا
جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
اختر وقار عظیم بتاتے ہیں ''مقامی اور مرکزی سطح پرانتظامیہ نے اہتمام کر رکھا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کی قطاریں لگی ہوں لیکن جونہی پی ٹی وی کے کیمرہ مین اپنی فلم بنا کر الگ ہٹتے ‘ قطارمیں کھڑے لوگ بھی ادھر ادھر کھسک جاتے۔ انتظامیہ بھی انہیں وہاں روکے رکھنے کی بس اس حد تک پابند تھی کہ ٹی وی والے اپنی تصویریں بنا لیں‘‘۔
جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال تھی۔ پولنگ اسٹیشن ویران تھے لیکن سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن‘ برابر ریفرنڈم میں لوگوں کی دلچسپی کی خبریں نشرکر رہے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان فراڈ ریفرنڈموں کے کل وقتی حمایتی بھی اب دھاندلی پر شور مچاتے ہیں۔
اختر وقار عظیم‘ لمبا عرصہ سپورٹس کے شعبے کے نگران رہے۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں سے ان کا بہت ملنا جلنا رہا۔ اس کتاب میں کرکٹروں کے بہت سے واقعات ہیں۔ 1983ء میں کرکٹ ٹیم ظہیر عباس کی کپتانی میں بھارت گئی۔ ایک ٹیسٹ جالندھرمیں تھا۔ ضیا الحق بڑے خوش تھے کہ پہلی بار دونوں ٹیمیں ان کے آبائی شہرمیں میچ کھیل رہی تھیں۔ صدر نے فون کیا توظہیر عباس نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی صدر صاحب کا آبائی مکان دیکھنے جائیں گے۔ صدر یہ سن کربہت خوش ہوئے‘ اور ظہیرعباس کا مقصد بھی یہی تھا۔ ایسا کوئی پروگرام پہلے سے نہیں تھا‘ اس لیے اختر وقار عظیم نے ظہیر عباس سے پوچھا: ''جنرل صاحب کا گھرکہاں ہے، کچھ پتا ہے؟‘‘ یہ پتا چلانا ہمارا نہیں ہمارے سفارت خانے کے لوگوں کا کام ہے۔ ظہیرنے جواب دیا۔ سفارت خانے والوں کی گھر تلاش کرتے کرتے مت ماری گئی۔ ایک دو بار انہوں نے اس جھنجھٹ سے جان چھڑانی چاہی لیکن خوشامدی ظہیرعباس راضی نہ ہوئے۔ انہیں ڈر تھا کہ صدر پاکستان نے واپسی پر پوچھ لیا توکیا ہوگا؟ قصہ مختصر‘ صدرکا گھرتلاش کرلیا گیا۔ ''پرانی طرز کے بنے گھر کی حالت خاصی خستہ تھی‘ تقریباً غیر آباد تھا۔ گھرکے برآمدے میں ایک سائیکل والے نے پنکچرلگانے کی دکان کھول رکھی تھی لیکن گھرکے گیٹ کے ساتھ دیوار میں نصب ‘جنرل ضیا کے والد کے نام کی تختی اب بھی موجود تھی‘‘۔
اختر وقار عظیم نے اس کتاب میں پی ٹی وی سے متعلق شخصیات کو بھی بیچ بیچ میں یاد کیا ہے‘ جن میں سے سب سے وکھری ٹائپ کے آدمی ہمیں مصلح الدین لگے‘ جو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے سے نہیں چوکتے تھے‘ خواہ سامنے کتنا ہی با اثر شخص کیوں نہ ہو۔ ضیا دور میں مشیر اطلاعات‘ جنرل مجیب الرحمن کے سامنے کوئی چوں نہ کرتا تھا لیکن مصلح الدین انہیں بھی پلٹ کرجواب دیتے۔ ایک موقع پر جنرل صاحب‘ صدر کی کسی تقریب کی تصویرکشی کے سلسلے میں کئے جانے والے انتظامات پر برہمی کا اظہار کر رہے تھے۔ روشنی کی جا رہی تھی‘ اس میں کچھ دیر ہو رہی تھی‘ مصلح الدین بھی وہاں موجود تھے‘ وہ کچھ دیر تو خاموش رہے‘ پھر بات ان کی برداشت سے باہر ہو گئی تو انہوں نے جنرل صاحب کومخاطب کیا: ''جناب عالی! یہ روشنی بہتر تصویر بنانے کے لیے ضروری ہے‘ کیمرہ لائٹ مانگتا ہے‘ یہ کام صرف ایمان کی روشنی سے نہیں ہو سکتا؟‘‘ جنرل مجیب الرحمٰن نے سب کے سامنے یہ سنا اور خاموش رہے‘‘۔ ایک بار جنرل مجیب نے جب یہ کہا کہ ''بی بی سی والے کیسے اتنی اچھی اورخوبصورت فلمیں بنالیتے ہیں؟‘‘ اس پرمصلح الدین نے کہا '' وہاں وزارت اطلاعات اورسیکرٹری اطلاعات نہیں ہوتے‘‘۔
آخر میں یہ بتاتے چلیں کہ اختر وقار عظیم کے والد وقار عظیم اردو کے معروف نقاد تھے۔ اورینٹل کالج میں صدر شعبہ اردو رہے۔ اپنے زمانے کے بڑے ادیبوں سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ اختر وقار عظیم نے ناموران ادب کو اپنے گھر آتے دیکھا۔ ان سے متاثر ہوئے۔ یوں وہ بڑے علم پرور ماحول میں پروان چڑھے۔ استاد دامن بھی وقار عظیم سے ملنے اکثر آتے۔ ان کے ملنے والوں میں سبھی اردو میں بات کرتے لیکن استاد دامن کا پنجابی میں بات کرنا بچوں کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہوتا۔ وقارعظیم اردو میں بات کرتے۔ دونوں رمز شناس تھے‘ اس لیے ایک دوجے کا کہا خوب سمجھتے۔ استاد دامن اکثر اپنے ساتھ ایسے ضرورت مند کو ساتھ لاتے تھے جس کے امتحان میں نمبرکم آئے ہوں اورکسی اچھے کالج میں داخلہ مطلوب ہو۔ سفارش کچھ یوں کرتے تھے ''سید صاحب یہ لڑکا میں لے آیا ہوں‘ نالائقی میں اس کے پورے نمبر ہیں۔ کسی کالج میں داخلہ چاہیے۔ مدد کریں ورنہ اپنا شاگرد بنانا پڑے گا‘‘۔ میرے والد استاد کی باتیں سن کر ہنستے رہتے اور ان کی خواہش کے احترام میں کہیں نہ کہیں داخلہ دلا دیتے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved