جناب رفیق تارڑ کے ایوانِ صدر کے درو دیوار بعض تاریخی ‘ بلکہ تاریخ سازواقعات کے عینی شاہد بھی تھے۔ 12اکتوبر 1999ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی برطرفی اور ان کی جگہ جنرل ضیاء الدین کے تقرر کا حکم جاری کیا تو 13ویں ترمیم کے تحت یہ ان کا اختیار تھا۔ تاہم اس پر (رسمی طور پر سہی) صدر صاحب کے دستخط بھی ہونا تھے۔ معاملہ اتنا اہم اور حساس تھا کہ وزیر اعظم یہ فائل لے کر خود ایوانِ صدر آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ملاقات ہنگامی نہ تھی۔ ایک دن پہلے ایوانِ صدر کی اگلے روز کی سرگرمیوں کا پروگرام تیار ہو کر متعلقہ حکام کے پاس آ جاتا ہے۔ 11اکتوبر کو جو پروگرام ان کے پاس تھا اس میں وزیر اعظم کی 12اکتوبر کی ملاقات شامل تھی۔
وزیر اعظم کی ایوانِ صدر آمد سے قبل کئی ڈرامائی موڑ آئے۔ وہ اس روز شجاع آباد میں ایک جلسہ عام میں تھے۔ یہاں ٹیلی فون ہاٹ لائن کا خصوصی اہتمام بھی کیا گیا تھا اور ٹیلی فون سیٹ جناب وزیر اعظم کی نشست کے ساتھ تھا۔ ایم این اے جاوید علی شاہ تقریر کر رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ وزیر اعظم نے خود فون اٹھایا اور تقریباً ڈیڑھ منٹ گفتگو کے بعد ملٹری سیکرٹری جاوید اقبال کے کان میں کچھ کہا اور اسے ایک چٹ دی۔ اگلے ہی لمحے فوجی افسر ٹیلی فون پر مصروف ہو گیا۔ ادھر باقی تقاریر ختم کر دی گئیں اور وزیر اعظم مائک پر آ گئے‘ قدرے مختصر تقریر کے بعد بذریعہ کار ملتان پہنچے اور وہاں سے اسلام آباد کے لیے پرواز کر گئے۔ اسی روزسیکرٹری ڈیفنس لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار علی خاں (چودھری نثار علی خاں کے برادرِ بزرگ) سی ایم ایچ راولپنڈی میں انڈو سکوپی کے بعد گھر پر آرام کر رہے تھے۔ وزیر اعظم کے پیغام پر‘ وہ ایئر پورٹ پہنچے۔ وزیر اعظم نے انہیں کار میں ساتھ لیا اور راستے میں بتایا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی برطرفی اور ان کی جگہ جنرل ضیاء الدین کے تقرر کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اب سیکرٹری ڈیفنس کے طور پر انہیں یہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔ جنرل افتخار اس فیصلے پر مطمئن نہ تھے لیکن وزیر اعظم کو اس حوالے سے''پُرعزم‘‘ پا کر انہوں نے نرمی سے کہا کہ نوٹیفکیشن کے لیے انہیں تحریری حکم درکار ہو گا۔ کار سے اترتے ہوئے وزیر اعظم نے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ وہ سیکرٹری ڈیفنس کو تحریری حکم مہیا کر دیں۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں‘ ان سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے ہیں‘ لیکن وہ یہ کہتے ہوئے اپنے آفس کی طرف بڑھ گئے کہ ابھی انہیں ایک ضروری کام کرنا ہے، اس کے بعد ہی وہ کسی سے ملیں گے۔ جنرل افتخار پرائم منسٹر ہائوس کی سیڑھیاں اتر رہے تھے جب انہوں نے اپنے پیچھے شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں کی آواز سنی۔ وزیر اعظم کا فیصلہ ان دونوں کے لیے بھی حیرت اور تشویش کا باعث تھا۔
وزیر اعظم طے شدہ وقت سے کوئی ایک گھنٹہ لیٹ ایوان صدر پہنچے تھے چنانچہ جناب صدر سے ان کی ملاقات دفتر کی بجائے گھر پر ہوئی۔ آغاز میں فوٹو سیشن ہو جاتا ہے۔ ون آن ون ملاقات کے بعد پریس ریلیز کے لئے صدر صاحب متعلقہ لوگوں کو بریف کر دیتے ہیں۔ عرفان صاحب بتا رہے تھے کہ بارہ دن بعد ان کے صاحبزادے کی شادی تھی۔ وہ اس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ کارڈ وغیرہ بھی ختم کرنا تھے۔ ان کا سٹاف ملاقات کی فلم اور فوٹو بنوا کر آ گیا تو انہوں نے پرائم منسٹر کے پریس سیکرٹری رائے ریاض کو فون کیا اور اپنی مصروفیات کا بتا کر درخواست کی کہ وہ اس ملاقات کا پریس ریلیز جاری کر دیں۔ تھوڑی دیر بعد ان کا فون آیا‘ وہ جنرل مشرف کی برطرفی اور جنرل ضیاء الدین کے تقرر کی خبر دے رہے تھے۔ راستے میں موبائل پر ایوانِ صدر کے سکیورٹی افسر کی کال آئی کہ باہر فوج نظر آ رہی ہے‘ شاید وہ ٹیک اوور کرنے لگے ہیں۔ رات آٹھ بجے عرفان صدیقی ایوانِ صدر لوٹ آئے‘ یہاںکوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں تھی‘ ایوانِ صدر کے گیٹ پر بھی نہیں۔ ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر محمد اکرم ساہی کا گھر ان کے گھر کے ساتھ ہی تھا۔ دونوں صدر صاحب کی خیر خبر معلوم کرنے ان کی طرف روانہ ہوئے۔ صدر صاحب نے گورنر سندھ ممنون حسین کا کھانا کیا ہوا تھا۔ عرفان صاحب اور بریگیڈیئر اکرم ساہی پہنچے تو صدر صاحب نے پوچھا، کیا خبریں ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ حکومت برطرف کر دی گئی ہے۔ اسی دوران کراچی سے جنرل مشرف کا فون آیا‘ وہ صدر صاحب سے درخواست کر رہے تھے کہ میرا انتظار کریں اور اس وقت تک کوئی قدم نہ اٹھائیں (شاید ان کے ذہن میں ہو کہ یہ استعفے نہ دیدیں۔) جنرل مشرف اگلے روز ایوان صدر آئے اور درخواست کی کہ ملک کے منتخب آئین صدر کے طور پر آپ Continueکریں۔ مشرف نے 17اکتوبر کی تقریر میں بھی یہ بات کہی کہ صدر صاحب نے اس کی درخواست پر‘ اس منصب پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ تقریر کے بعد مشرف دوبارہ آیا اور جناب صدر کا شکریہ ادا کیا۔
12اکتوبر کی فوجی کارروائی کے بعد جناب صدر کی سوچ یہی تھی کہ انہیں وزیر اعظم (اور ان کی جماعت) نے اس منصب کے لیے نامزد کیا تھا اور اب انہیں کوئی بھی فیصلہ ان کی منشا کے خلاف نہیں کرنا چاہیے۔ بالآخر وہ میاں صاحب کی رائے معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے(جس طریقے سے یہ رابطہ ہوا‘ یہ ایک الگ کہانی ہے۔) انہیں یہی کہا گیا کہ استعفیٰ دینے کی بجائے Continue کریں۔ بڑے میاں صاحب (مرحوم) کی رائے بھی یہی تھی۔
25مارچ (2000ئ) ایوانِ صدر میں ایک اور تاریخی دن تھا۔ صدر کلنٹن برصغیر کے دورے پر تھے‘ ہندوستان اوربنگلہ دیش کا یہ دورہ کوئی ہفتے بھر کا تھا۔ مشرف حکومت کی کوشش تھی کہ امریکی صدر‘ زیادہ نہ سہی‘ اسلام آباد میں چند گھنٹے کے سٹاپ اوور پر ہی آمادہ ہو جائیں (1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے ٹیک اوورکے ابتدائی ایام تھے‘ جب صدر کارٹر، تہران اور دہلی کے دورے پر آئے۔ حکومت پاکستان کی کوشش (اور خواہش) تھی کہ وہ چند گھنٹے کے لیے ہی سہی‘ اسلام آباد میں رک جائیں، لیکن کارٹر اس پر آمادہ نہ ہوئے۔) اب کلنٹن اس علاقے میں تھے۔ حکومت پاکستان کی بھرپور سعی و کاوش کے نتیجے میں وہ دہلی سے واپسی پر چند گھنٹے کے سٹاپ اوور پر رضا مند ہو گئے‘ اس شرط پر کہ وہ جنرل مشرف کے ساتھ نظر نہیں آئیں گے۔ اس کے علاوہ ریڈیو‘ ٹی وی پر پاکستانی قوم سے خطاب بھی کریں گے۔ چنانچہ ایوان صدر میں جناب محمد رفیق تارڑ نے مہمان صدر کا استقبال کیا۔ وہ چالیس سکینڈ کی تاخیر سے وہاں پہنچے، جہاں کلنٹن گاڑی سے اترے تھے (یہ دانستہ تھا یا ہر بات خفیہ رکھنے کے امریکی بندوبست کا شاخسانہ؟) یہ بات پہلے ہی طے پا چکی تھی کہ صدر کلنٹن گارڈ آف آنر کا معائنہ نہیں کریں گے۔ مشرف کے ساتھ تصویر نہیں بنوائیں گے۔ کوئی خیر مقدمی تقریب (سوائے صدر تارڑ کے) ٹیلی ویژن پرنہیں دکھائی جائے گی۔ یہ پاکستان میں 12 اکتوبر کی فوجی کارروائی پر‘ صدر کلنٹن کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار تھا۔ ایوانِ صدر میں‘ چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل مشرف کے ساتھ امریکی صدر کے''مذاکرات‘‘ میں مشرف فوجی وردی کی بجائے سویلین لباس میں تھا۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر پاکستانی قوم سے خطاب میں مہمان صدر نے جمہوریت کے فضائل و محاسن کا ذکر کیا اور اس توقع کا اظہار کہ پاکستان میں جمہوری عمل جلد لوٹ آئے گا۔
12 اکتوبر کے بعد تارڑ صاحب جتنا عرصہ صدر رہے‘ مشرف اور ان کے فوجی رفقاء کار نے ان کے ساتھ ادب و احترام کا رویّہ رکھا۔ یہاں تک کہ جب انہیں کہا گیا کہ ملک میں انویسٹمنٹ نہیں آ رہی، غیر یقینی کی فضا ہے، چنانچہ ہم نے سوچا ہے کہ صدر کا عہدہ بھی مشرف سنبھال لیں تاکہ استحکام کا تاثر پیدا ہو، تو تارڑ صاحب نے کہا‘ لیکن اس کا طریقِ کار کیا ہو گا؟ یہی کہ آپ استعفیٰ دیدیں۔ ''لیکن میں استعفیٰ کیسے دوں۔ آئین کے تحت تو میں سپیکر قومی اسمبلی کو استعفیٰ دے سکتا ہوں اور اسے آپ نے ختم کر دیا ہے۔ آپ آرمی چیف کی حیثیت سے میرے ماتحت ہیں اور ماتحت کو میں استعفیٰ کیسے دوں؟‘‘ بالآخر پی سی او کے تحت یہ مشکل مرحلہ بھی طے پا گیا۔ مشرف کی طرف سے الوداعی کھانے کی خواہش پر انہوں نے معذرت کر لی۔ اب جنرل کا اصرار تھا کہ آپ جہاز پر لاہور جائیں‘ جہاں گورنر آپ کو ریسیو کر کے گھر پہنچائے گا۔ تارڑ صاحب اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔
انہوں نے تین چار روز پہلے ہی سامان سمیٹنے کے لیے کہہ دیا تھا اور ''متاعِ درویش‘‘ تھی کیا؟ اتنی سی کہ تین چار اٹیچی کیسوں میں سما جائے۔ قواعد و ضوابط کی رُو سے وہ سبکدوشی کے 15دن تک ایوان صدر میں قیام کر سکتے تھے(دسمبر1997ء میں جناب لغاری نے یہی کیا تھا۔) تارڑ صاحب کو اب ایک دن بھی یہاں رہنا گوارا نہ تھا۔ خدمت گزاروں سے گلے ملے۔ ایک کار میں کتابیں تھیں اور دو کاروں میں وہ خود‘ ان کی بیگم‘ بیٹی ‘ بیٹا اور وہی تین چار اٹیچی کیس۔ مشرف کے الوداعی سلیوٹ کے ساتھ تین کاروں کا مختصر کارواں لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔