تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     30-01-2017

ذرا پارلیمنٹ تو آؤ!

دھرنا چھوڑو مسائل پارلیمنٹ کے اندر حل ہوں گے۔ لاک اپ چھوڑو، مسائل کا حل پارلیمنٹ کے اندر ہے۔ سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے اندر آ کر بات کرو۔ جمہوریت پارلیمنٹ کے اندر ہے جمہوریت دشمنی سڑکوں پر ہوتی ہے۔ ہڑتالیں اور مظاہرے مسائل کا حل نہیں مسائل کا حل پارلیمنٹ کے اندر ہے۔ احتجاج کرنے والے ترقی کو روک رہے ہیں انہیں پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہیے۔ پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر مکمل استثنا ہے۔ جو پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں کرتا وہ آئین کا دشمن ہے۔ پارلیمنٹ کا تحفظ کریں گے۔ پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح نہیں ہونے دیں گے۔ 
اوپر درج نعرے لگانے والے کیا فرماتے ہیں‘ اب پارلیمنٹ کی بالادستی پر؟ قومی اسمبلی کے فلور پر جو کچھ ہوا وہ پوری قوم نے دیکھا‘ لیکن شاباش ہے سپیکر صاحب کو جو فرماتے ہیں: مکمل تحقیقات کروں گا تاکہ پتہ لگایا جا سکے مجرم کون ہے۔ پاکستانی قوم کو امید رکھنی چاہیے کہ حکومت اپنے کسی تابعدار ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنائے گی۔ پھر اس کے بعد قوم کو بتایا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں کس نے کس پر حملہ کیا۔ مکمل طور پر غیر جانبدار سپیکر قومی اسمبلی سب سے اونچی جگہ بیٹھتے ہیں‘ جہاں سے انہیں سارے ارکانِ اسمبلی سر سے پائوں تک نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی ممبر کھسر پھسر کرے تو تب بھی سپیکر کی یہ آواز آتی ہے ''آرڈر ان دا ہائوس‘‘۔ اگر کوئی ایم این اے اپنی گھومنے والی کرسی کو پچھلی لائن کی طرف موڑ کر دوسرے ممبر سے مخاطب ہو تو سپیکر فوراً بول اٹھتا ہے ''اپنی پُشت سپیکر کی طرف مت موڑیں‘‘۔ اگر کوئی رکن اسمبلی کھڑا ہو کر دوسرے رکن اسمبلی سے بات کرے تو سپیکر اسے کہتا ہے: اپنی نشست پر تشریف رکھیں۔ کمال کی بات 
یہ کہ ایک وزیر اپنی حکومتی نشست سے اٹھا، وہ اپوزیشن کی نشستوں پر پہنچا اور بہت کچھ بولے جانے کے بعد ماحول میں مکا بازی شروع ہوئی‘ لیکن سپیکر نے کچھ نہیں دیکھا کہ جھگڑا کس نے شروع کیا‘ پہل کس نے کی۔ سپیکر قومی اسمبلی کی نشست سے سارا ایوان نظر آنے کے باوجود اتنی بڑی جنگ چھیڑنے کے ذمہ دار کا تعین نہ ہو سکا۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ سپیکر ابھی تک ریفری بننے کے لئے تیار نہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ قومی اسمبلی میں واپس آنے کے لئے ان کو سرکاری پارٹی کا ٹکٹ چاہیے۔ پارلیمنٹ کے اندر غیر پارلیمانی ریسلنگ کا آغاز ''گلی گلی میں شور ہے‘‘ کے نعرے کو روکنے پر ہوا۔ یہ نعرہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف لگایا‘ اور سپیکر وزیر اعظم کی اتھارٹی جانتے ہیں۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان کو پارلیمنٹ میں اپنی نشست سے اٹھ کر اپوزیشن بنچوں پر حملہ آور ہونے والا وزیر نظر آ جاتا۔ اس کی ایک دوسری وجہ بھی ہے‘ جس کے قلابے تلور کے شکار اور ایل این جی کے ٹھیکے سے جا ملتے ہیں۔ 
جمعہ کے روز عدالت سے فارغ ہو کر میں سیدھا پارلیمنٹ ہائوس گیا۔ قومی اسمبلی کے ہال میں داخل ہوا تو مائیک پر نعت شریف پڑھی جا رہی تھی۔ اسمبلی فلور پر اپوزیشن موجود نہیں تھی‘ لہٰذا نعت سننے کی سعادت حاصل کرکے میں باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر میں اسمبلی کی کارروائی میں وقفہ ہوا۔ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں شامل دوستوں نے بتایا کہ سپیکر صاحب مٹی ڈالو پالیسی پر چل رہے ہیں‘ لیکن ہم بھی اس پارلیمنٹ کا حصہ ہیں‘ جس کا استحقاق غلط بیانی سے مجروح کیا گیا۔ دھونس‘ دھمکی اور مارکٹائی کے ذریعے تحریک استحقاق فلور پر لانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اپوزیشن اس بات پر شاکی تھی کہ سرکاری بنچوں سے ایوان کا استحقاق مجروح کیا گیا، لیکن سپیکر صاحب اپوزیشن ارکان کے خلاف کھوج لگانے میں لگے ہوئے ہیں‘ لہٰذا براہِ راست معلومات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اب اسمبلی فلور پر 
مسلسل احتجاج ہو گا۔ اپوزیشن نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر استحقاق کی تحریک زیرِ بحث لائے گی۔ دوسری جانب سے پارلیمانی امور کے وزیر کا بیان آیا ہے کہ وزیر اعظم اب پاناما معاملے پر مزید کوئی بیان نہیں دیں گے۔ ان حالات میں موجودہ پارلیمانی ڈیڈ لاک جاری رہے گا۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو ایوانِ بالا کا اجلاس بھی شروع ہو چکا ہو گا‘ میرے خیال میں جس کے ایجنڈے پہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک استحقاق اور قومی اسمبلی میں حکومتی مار کٹائی شامل ہے۔ پنجاب اسمبلی کے فلور پر اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے خلاف لندن اور لاہور کے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں دائر ریفرنس کی کھلی سماعت شروع کی جائے۔
یہ ریفرنس پی ٹی آئی نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے پاس دائر کر رکھا ہے۔ آئین کے آرٹیکل دس اے کے مطابق سپیکر کو اس ریفرنس کی شفاف سماعت کرکے آئین کی رو سے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا شہباز شریف کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کی نااہلی کا سوال پیدا ہوا یا نہیں۔ اسی تسلسل میں ایک اور اہم پیش رفت پشاور ہائی کورٹ میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور کابینہ کی رٹ پٹیشن ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے‘ جس میں وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا گیا ہے کہ وہ بتائے کہ کس آئینی اختیار کے تحت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے لئے صوبے کے سارے راستے بند کئے گئے؟ دوسری جانب پاناما کا ہنگامہ عالمی منظرنامے پر بھی چھایا ہوا ہے۔ بھارت میں بڑے بڑے کامیڈی شوز ہمارے وزیر اعظم کے ذکر سے بھر چکے ہیں۔ کرپشن کے خلاف گلوبل ویلیج کے غریب 
لوگ متحرک اور بیدار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پارلیمنٹ عوام کے لئے نو گو ایریا ہے۔ نہ عام آدمی پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے نہ غریب کا بچہ الیکشن لڑنے کی عیاشی کر سکتا ہے۔ نہ ہی قرض خوروں، خزانے کے چوروں اور سینہ زوروں کو روکنے کا کوئی آسان طریقہ موجود ہے۔ غریب مزدور، ہاری، کسان، بے روزگار یوتھ، خواتین جیسے طبقے نہ پارلیمنٹ کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں‘ نہ ہی پارلیمنٹ کو ان کی پروا ہے۔ اعلیٰ ترین عدالت میں پارلیمنٹ کو جھوٹ بولنے کی جگہ بنا کر پیش کیا گیا، یہ ابھی کل کی بات ہے جب وزیر اعظم کے وکیل نے قومی اسمبلی کے فلور پر تحریری تقریر پڑھنے کو وزیر اعظم کا سیاسی بیان دے کر پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا۔ قطر سے ایل این جی کس ریٹ پر خریدی گئی؟ وہاں تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف لینے والے کو گھریلو ملازم کے عہدے سے اٹھا کر پاکستان کا سفیر لگا دیا گیا۔
ملتان میٹروبس، پنڈی میٹرو سروس اور لاہور میں ترکی کی شاہانہ ٹرانسپورٹ کے ٹھیکے خفیہ ہیں‘ بلکہ ٹاپ سیکرٹ‘ بلکہ ایٹمی فارمولے سے بھی زیادہ اہم اور خفیہ ترین۔ آج اگر کوئی پارلیمنٹ کی چھت پر چڑھ جائے‘ وہاں کھڑا ہو کر چیخے کہ شیر آیا شیر آیا‘ مجھے بچا لو۔ میں پارلیمنٹ کی بالادستی ہوں۔ میں غریبوں کے لئے آئینی سہولت کار ہوں۔ میں آپ کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں آپ کو روٹی کپڑا اور مکان‘ تعلیم‘ صحت اور امن و امان دینے کے لئے جان کی بازی لگا دوں گا‘ تو ذرا سوچیں پارلیمنٹ سے نکلنے والی ایسی آواز پر عوام روئیں گے یا ہنس دیں گے۔ رہا بالادستی خانم شیر کو بچانے کا سوال تو اس کے جواب میں اتنے ہی غریب عوام باہر نکلیں گے جتنے عوام نواز شریف صاحب کو جلاوطنی سے بچانے کے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے تھے۔ ایک سوال ہر ذہن میں ضرور موجود ہے۔ یہ پارلیمنٹ، یہ جمہوریت، یہ بڑے بڑے بالادست ایوان کیا سرمایہ داروں کے ریسٹ ہائوس ہیں یا گیسٹ ہائوس ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved