تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-01-2017

تاریخ یعنی ہسٹری اور قطری خط

ادارے باہر سے تو بعد میں برباد ہوتے ہیں، ان کی بربادی کا عمل پہلے اندر سے شروع ہوتا ہے۔ اندر سے بربادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ادارے پر باہر سے حملہ ہو اور اندر سے مزاحمت نہ ہو۔ جب ادارہ ہی اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے متفکر نہ ہو تو بھلا اس کو برباد ہونے سے کون روک سکتا ہے؟
میرے کچھ دوست پاکستان کی ہر خرابی کا ذمہ دار ایک خاص ادارے کو ٹھہرانے کے عادی ہیں۔ یوں سمجھیں کہ اگر ان کی بیگم سے اس کی ذاتی سستی اور لاپروائی سے ہانڈی بھی جل جائے تو وہ اس کا تعلق گھسیٹ گھساٹ کر اسی ادارے سے جوڑ دیں گے۔ ان سے کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سکیم میں کوئی پراپرٹی ڈیلر پلاٹ کا لالچ دے کر پیسے مار جائے تو اس کا سارا ملبہ بھی وہ اسی ادارے پر ڈال دیتے ہیں اور کوٹلہ تولے خان میں ملک فالودے والا اگر اپنے فالودے کے بڑے پیالے کی قیمت میں دس روپے اضافہ کر دے تو اس کا سارا ذمہ بھی وہ اسی کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ یہ ادارہ اب تک ملک کے باقی تمام اداروں کے برعکس ابھی تک قائم کیوں ہے اور کئی خرابیوں کے باوجود ابھی تک باقی اداروں کی طرح شکست و ریخت کا شکار کیوں نہیں ہوا؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس ادارے نے خود کو مضبوط اور قائم رکھنے کی ساری کاوشیں خود کی ہیں۔ اپنے آپ کو برقرار رکھنے کی ساری سعی اپنے اندر سے کی ہے اور سارے بیرونی حملوں کو خواہ وہ کسی طرف سے بھی ہوں‘ اپنی اندرونی یکجہتی اور اتحاد کی بنیاد پر روکا بھی ہے اور بے اثر بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ ادارہ ایسا ہے کہ قوم سیلاب سے لے کر زلزلے تک‘ مردم شماری سے لے کر الیکشن تک اور سرحدوں کی حفاظت سے لے کر شہروں میں ہونے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سدّ باب تک کے لیے اسی کی طرف دیکھتی ہے اور مصیبت پڑنے پر اسی کو پکارتی ہے۔ دیگر اداروں کو اس سے حسد کرنے کی بجائے سیکھنا چاہیے اور جلنے کی بجائے شرم کرنی چاہیے۔ خرابیاں یہاں بھی ہیں اور تھوڑی نہیں‘ لیکن جب موازنے کی بات آئے تو فرق صاف ظاہر ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب کالم میں کسی ایسے موضوع پر لکھتے تھے جو کسی عدالت میں زیرسماعت ہوتا تھا تو ایڈیٹوریل انچارج کہتا تھا کہ اس پر بات نہیں ہو سکتی‘ یہ معاملہ SubJudice یعنی زیرسماعت ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنا‘ لکھنا یا چھاپنا ممکن نہیں۔ لیکن اب معاملہ بالکل مختلف بن چکا ہے۔ اب سب سے زیادہ گفتگو‘ پریس کانفرنسیں‘ مذاکرے‘ ٹاک شوز اور سیاسی دنگا فساد اسی SubJudice معاملے پر ہوتا ہے۔ عدالت میں کارروائی دو گھنٹے چلتی ہے اور میڈیا پر باقی بائیس گھنٹے چلتی ہے اور میڈیا پر بائیس گھنٹے ہر ایرا غیرا‘ نتھو خیرا عدالت لگا لیتا ہے۔ عدالتوں کے بارے میں لکھتے ہوئے از خود احتیاط کر لیں کہ کہیں توہین عدالت نہ لگ جائے تو اور بات ہے، لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ صرف پاناما کیس کے سلسلے میں خواجہ سعد رفیق‘ طلال چوہدری‘ دانیا عزیز‘ خواجہ آصف‘ فواد چوہدری‘ عابد شیر علی اور خود عمران خان نے جو گند مچایا ہے اس کے بعد یہ لکھنے والوں کی زرہ نوازی ہے کہ وہ توہین عدالت جیسی اعلیٰ اقدار پر یقین رکھتے ہوئے اس معاملے میں لکھتے ہوئے ہاتھ ''ہولا‘‘ رکھتے ہیں وگرنہ اب عملی طور پر اس کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
میڈیا کے ذریعے اپنی بڑھکوں سے عوامی پذیرائی حاصل کرنے کا آغاز جناب افتخار چوہدری کے سنہری دور میں ہوا۔ آج ہم اسی کی کمائی کھا رہے ہیں۔ بھلا پہلے کسی کی مجال تھی کہ عدالت کے باہر اپنی عدالت لگاتا؟ عدلیہ کے بارے میں لطیفے بناتا؟ منصفوں پر کیچڑ اچھالتا؟ عدالتوں کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتا کہ فیصلے گول مول نہ کرنا۔ اگر فیصلہ واضح اور صاف نہ کیا تو اچھا نہ ہو گا اور اگر فیصلہ ہمارے خلاف ہوا تو ہر گلی سے تابوت نکلے گا یا فیصلہ ہمارے خلاف ہوا تو عوام اسے تسلیم نہیں کریں گے؟ یہ باتیں میرے جیسے عام لوگ نہیں‘ ذمہ دار‘ صاحب اقتدار اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے حکومتی وزیر اور عوامی نمائندے فرما رہے ہیں۔
اس سارے ہنگامے کے بعد مخلوق خدا کیا کہتی ہے؟ ایک بات پر بندہ کہتا ہے کہ اگر یہ کیس پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کے خلاف ہوتا تو اب تک اس کا نہ صرف فیصلہ ہو گیا ہوتا بلکہ وزیراعظم گھر بھی چلا گیا ہوتا۔ لوگوں سے بات ہوتی ہے تو نوے فیصد کا فرمانا ہے کہ پاناما کیس تو سو فیصد درست ہے اور لندن میں خریدی گئی جائیداد میں دو نمبر پیسہ استعمال ہوا ہے۔ یہ دو نمبر آپ کرپشن کا پیسہ کہہ لیں، منی لانڈرنگ والا پیسہ کہہ لیں یا بغیر ٹیکس والا کاروباری سرمایہ کہہ لیں‘ مگر یہ بات طے ہے کہ یہ پیسہ کم از کم قطری خط والا پیسہ نہیں اور نہ ہی جدہ کی سٹیل مل کی فروخت سے ملنے والی رقم ہے۔ متوالے کی بات چھوڑیں کہ ہمارے ہاں کا جذباتی سیاسی ورکر آنکھ اور عقل کے استعمال کو باقاعدہ گناہ سمجھتا ہے۔ وہ نہ کچھ دیکھتا ہے اور نہ سوچتا ہے۔ لہٰذا اس کی کسی بات کا نہ تو برا منانا چاہیے نہ ہی اسے سنجیدہ لینا چاہیے۔ سو متوالوں کو چھوڑ کر باقی ساری مخلوق خدا اس بات پر متفق ہے کہ وزیراعظم کے بچوں کی لندن والی جائیداد ''ہینکی پھینکی‘‘ سے بنائی گئی ہے مگر سب لوگ اس پر بھی متفق ہیں کہ اس کیس کا کچھ نہیں بنے گا۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ مخلوق خدا ایسا کیوں سوچتی ہے؟ اس پر ان کو کچھ سوچنا چاہیے جن پر خلق خدا بد اعتمادی کا اظہار کر رہی ہے۔ اداروں کو بچانے کی پہلی کوشش اداروں کے اندر سے ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی میں کیا ہوا ہے؟ ایوان کیسے مچھلی بازار بنا؟ کسٹوڈین آف پارلیمنٹ یعنی سپیکر کس حد تک جانبداری یا غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے؟ باسٹھ تریسٹھ کی اہمیت باقی کیا رہ گئی ہے اور وزیراعظم کے اسمبلی کے اندر خطاب کی کیا ساکھ اور کیا اعتبار باقی بچا ہے؟ پارلیمنٹ جسے پچھلے کچھ عرصے سے سارے مل کر ''سپریم‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں، اس میں کی گئی تقریر محض سیاسی بیان ہے؟ جب وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر بھی معتبر نہ رہے تو بھلا پارلیمنٹ کہاں سے معتبر باقی بچتی ہے؟ پھر تین دن پہلے جو ہوا وہ نہ تو حیران کن ہے اور نہ ہی کوئی اچنبھے کی بات ہے۔ تب اسمبلی اور موچی دروازے میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ ویسے ایمانداری کی بات ہے کہ کبھی موچی دروازے میں خطاب کرنے والے بڑے لوگوں کی جلسوں کی تقاریر آج کی اسمبلی میں کئے جانے والے خطابوں سے کہیں زیادہ معتبر ہوتی تھیں۔
یاد آیا، تین دن پیشتر خواجہ آصف نے فرمایا کہ شاہ رکن عالم کی دستار بندی ڈپٹی کمشنر نے کی تھی۔ یہ بات انہوں نے شاہ رکن عالم کے سجادہ نشین شاہ محمود قریشی کے آبائو اجداد کو درباری سرکاری ثابت کرنے کے لیے کی تھی۔ بات تو درست ہے، لیکن حوالہ تاریخی اعتبار سے بالکل غلط اور سراسر ذاتی بغض پر مبنی ہے۔ شاہ رکن عالمؒ 1251ء میں پیدا ہوئے اور 1335ء میں چوراسی سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ یہ سلطان محمد تغلق کا دور تھا۔ محمد تغلق 1324ء سے 1351ء تک بادشاہ رہا۔ اس سے پہلے 1320ء سے 1324ء تک غیاث الدین تغلق حکمران تھا۔ انگریز اور ان کا نظام مع ڈپٹی کمشنر، ہندوستان میں عملی طور پر 1857ہ میں یعنی شاہ رکن عالمؒ کی وفات کے قریب پانچ سو سال بعد نافذ ہوا۔ ملتان شہر پر انگریزوں نے یکم جنوری 1849ء کو اور قلعہ پر اکیس دن بعد اکیس جنوری 1849ء کو قبضہ کیا۔ انگریزوں نے شاہ رکن عالمؒ کی نہیں بلکہ شاہ محمود اوّل کی سجادہ نشینی کی توثیق کی جو شاہ محمود قریشی کے جد امجد تھے۔ تاہم وہ حضرت بہائو الدین زکریا المعروف بہاء الحق کے حقیقی وارث نہ تھے، لیکن یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ میرا مقصد ایک تاریخی حوالے کے غلط ہونے کی نشاندہی تھی۔ خواجہ آصف نے فرمایا کہ وہ اس کا ثبوت بھی دیں گے۔ آئندہ اگر وہ تاریخی حوالہ دینے سے قبل تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بہتر ہو گا کہ انہیں تاریخ سے انگریز ڈپٹی کمشنر سے رکن الدین عالمؒ کی دستاربندی کروانے کی تاریخ کو پانچ سو سال گھسیٹ کر پیچھے لے جانا پڑے گا۔ 
تاریخ بہرحال تاریخ یعنی ہسٹری ہے‘ پاناما والا کیس نہیں جسے قطری خط سے اوپر نیچے کیا جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved