تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-01-2017

یہ چَین سے کھانے بھی نہیں دیں گے!

ترقی یافتہ اقوام سے تعلق رکھنے والے اور اُن کی ترقی پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ جو بھی کچھ ہے تحقیق کا نتیجہ ہے۔ بڑے کاروباری اداروں میں ''شعبۂ تحقیق و ترقی‘‘ لازمی رکھا جاتا ہے تاکہ جدید ترین رجحانات کا جائزہ لے کر مزید نئے رجحانات کی راہ ہموار کی جا سکے۔ فی زمانہ ندرت کا بازار گرم رکھنے ہی کو ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو لوگ تحقیق و ترقی کے شعبے میں خدمات انجام دیتے ہیں اُن کی بے حد قدر کی جاتی ہے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اُن کی آراء کی روشنی میں لائحۂ عمل طے کیا جائے۔ 
تحقیق سے بہت سی مثبت تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہوں گی مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم آج تک سمجھ نہیں پائے کہ محققین جو کچھ کہتے ہیں اُس کے بطن سے آسانیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں یا مشکلات۔ آپ کی طرح ہم بھی زندگی بھر ہر اُس مخلوق سے اللہ کی پناہ مانگتے رہے ہیں جو دلوں میں وسوسے پیدا کرتی ہو۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ دلوں میں سب سے زیادہ وسوسے کون پیدا کرتا ہے؟ ارے بھئی یہی محققین، اور کون! 
ویسے تو خیر بہت سے شعبے محققین کے نشانے پر ہیں مگر اِنہیں مشقِ ستم کے لیے سب سے زیادہ پسند ہے کھانے پینے کا شعبہ۔ جیسے ہی لوگ کسی چیز کو کھانے یا پینے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، محققین لٹھ لے کر اُس چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور تحقیق کی زنبیل سے ایسے ایسے نکات نکال کر پیش کرتے ہیں کہ اُس چیز کے کھانے پینے والے دل تھام کر رہ جاتے ہیں اور پھر اُس چیز کے ساتھ بہت سے وسوسے بھی حلق سے نیچے اُتارتے رہتے ہیں! 
اگر آپ کو گرمی میں ٹھنڈا شربت اچھا لگتا ہے تو یہ فطری بات ہے۔ ٹھنڈا شربت گرمی کا دشمن کہلاتا ہے مگر محققین اور ماہرین کو یہ پسند نہیں۔ وہ وقفے وقفے سے ''ایڈوائزری‘‘ جاری کرتے رہتے ہیں کہ شدید گرمی میں فلاں شربت زیادہ پینے سے گریز کیا جائے اور اگر دل پر قابو پانا ممکن نہ ہو تو احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اور پھر احتیاطی تدابیر کے نام پر ایسی ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ بندہ سوچتا ہے یوں شربت پینے سے بہتر ہے کہ مجنوں کی طرح صحرا میں بھٹک بھٹک کر پیاس سے مر جائیے! 
محققین ''کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کے اُصول کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ وہ خود کچھ کھاتے ہیں نہ دوسروں کو کھاتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کا بس چلے تو پانی کے بارے میں بھی ایڈوائزری جاری کردیں کہ ہر روز پانی پینے سے جسم کو شدید نقصانات پہنچ سکتے ہیں! 
گوشت کسے اچھا نہیں لگتا؟ آپ بھی کھاتے ہوں گے۔ مگر محققین اور ماہرین کو گوشت سے بھی الرجی ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ بڑے کا گوشت کھانے سے فلاں بیماری لاحق ہوتی ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ گوشت کھانا ہے تو وائٹ کھائیے۔ وائٹ گوشت میں مُرغی بھی آتی ہے اور مچھلی بھی۔ آج کل فارم کی مُرغی جس طرح کی فیڈ کھا کر پُھولتی ہوئی کُپّا ہو جاتی ہے اُسے دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ اِس گوشت میں کچھ جان ہو گی۔ اور رہی مچھلی تو جناب عرض ہے کہ مچھلی کے دام اِتنے ہیں کہ دام سُنتے ہی بندے کا چہرہ مچھلی کے گوشت سے زیادہ سفید پڑ جاتا ہے گویا کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو! 
محققین اور ماہرین کو سبزیوں اور پھلوں سے بھی خدا واسطے کا بیر ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کے خواص گِنواتے ہوئے وہ ایسے ایسے نکات بیان کرتے ہیں اور اِس قدر خوفزدہ کر دیتے ہیں کہ بندے کے لیے کومبی نیشن بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ سُنا ہے جوڑے آسمان پر بنتے ہیں۔ بنتے ہوں گے۔ ہم آپ تو مجبور ہیں کہ سبزیوں اور پھلوں کے جوڑے ہمیں زمین ہی پر، محققین کے ارشاداتِ عالیہ کی روشنی میں تیار کرنا پڑتے ہیں! گھر میں سبزی پکی ہو تو اخباری مضامین کھنگالنے پڑتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اُس سبزی میں کون کون سے خواص ہیں اور پھر اُن خواص سے مطابقت رکھنے والے پھلوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ محققین قدم قدم پر ڈراتے ہیں کہ فلاں سبزی کھانے کے بعد فلاں پھل نہ کھائیے یا فلاں پھل کا جوس پیا ہے تو اب فلاں سبزی نہ کھائیے گا۔ کھانے پینے کی اشیاء کا کومبی نیشن بناتے ہوئے انسان سہما رہتا ہے اور اُس کا خون خشک ہوتا رہتا ہے۔ محققین یہ نہیں بتاتے کہ اِس طور خشک ہونے والے خون کی کمی دور کرنے کے لیے کیا کھایا اور پیا جائے! 
اشیائے خورونوش کے خواص سے متعلق تحقیق کا بازار گرم کرنے والے اتنے ستم ظریف ہیں کہ کبھی کسی بھی چیز کے بارے میں سب کچھ ایک ساتھ یا کھل کر نہیں بتاتے۔ لوگ سوچتے رہ جاتے ہیں ؎ 
جو ہم پہ گزرنی ہے اِِک ساتھ گزر جائے 
وہ کتنے ستمگر ہیں کُھل جائیں تو اچھا ہو! 
سیاست دانوں کے بیانات بعد میں بدلتے ہیں، محققین زیادہ تیزی سے یُو ٹرن لے لیتے ہیں! وہ کسی تکلیف کے رفع کرنے کے لیے آج جو کچھ کھانے کا مشورہ دے رہے ہیں کل اُسی چیز کو کھانے سے اجتناب تجویز کریں گے یعنی آپ کی تکلیف کا گراف بلند کر دیں گے! محققین کے مشوروں کی روشنی میں آپ اگر کسی چیز کو اپنے فیورٹ آئٹمز کی فہرست میں شامل کریں گے تو کچھ ہی دن بعد فرمان جاری ہو گا کہ وہ چیز تو منہ لگانے کے قابل تھی نہ ہے! شاید ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے ع 
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا! 
کھانے پینے کی کوئی بھی چیز صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ اُس سے لذّت کشید کی جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اللہ نے جو کچھ پیدا کیا ہے‘ اُس میں ہمارے لیے افادیت بھی رکھی ہی ہو گی۔ اللہ کی کوئی بھی تخلیق غیر مفید نہیں۔ یہ محققین ہی ہیں جو کسی بھی چیز کے مفید یا غیر مفید ہونے کی بحث شروع کرکے کھانے پینے کی اچھی خاصی اشیا کا مزا خراب کر دیتے ہیں۔ اِنسان کھاتا بھی جاتا ہے اور اندر ہی اندر اُلجھتا بھی جاتا ہے کہ جو کچھ بھی کھایا ہے اُس سے جسم کو فائدہ زیادہ پہنچے گا یا نقصان۔ جب کھانے پینے کے عمل میں وسوسے داخل ہوں گے تو مزا کیا خاک آئے گا؟ 
آج کل سردی شباب پر ہے۔ ایسے میں خشک میوے کھانے کو جی چاہتا ہے مگر حالات ایسے ہیں کہ انسان بس چاہنے ہی کی منزل میں رہتا ہے۔ محققین نے نوید سُنائی ہے کہ خشک میوے کھانے سے کینسر کا خطرہ ٹلتا ہے۔ اب کوئی ذرا اُن سے پوچھے کہ صاحب! خشک میوے کھانے سے کھانے والے کا جسم تو کینسر سے بچ جاتا ہے مگر جیب یا گھر کے بجٹ کو لاحق ہو جانے والے سرطان کا علاج کون کرے گا! ہم بھی مانتے ہیں کہ بعض خشک میوے کھانے سے خون صاف ہو جاتا ہے مگر اُن کے دام سُن کر جو خون خشک ہو جاتا ہے وہ ہم کہاں سے لائیں گے! 
آخری مغل تاجدار سراج الدین بہادر شاہ ظفرؔ کے اُستاد شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کیا خوب کہا ہے ؎ 
اے ذوق! تکلّف میں ہے تکلیف سراسر 
آرام سے ہیں وہ جو تکلّف نہیں کرتے 
ہم نے محققین کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آ کر یہی طے کیا ہے کہ جو کچھ بھی کھانا اور پینا ہے وہ کھائیں گے اور پیئیں گے اور اس معاملے میں محققین کی آراء کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔ اچھے خاصے کھائے پیے کو بے مزا کرنا کہاں کی اور کس درجے کی دانش مندی ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved