امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مسٹر ٹرمپ‘ ووٹوں کی بھاری اکثریت لے کر وائٹ ہائوس کی طرف بڑھے۔ اس سے پہلے ان کی مجوزہ پالیسیوں کے مخالف مظاہرین نے بھی وائٹ ہائوس کی طرف رخ کر لیا۔اب صدر صاحب‘ وائٹ ہائوس کے اندر ہیں تو مظاہرین باہر۔نہ صدر صاحب مظاہرین کو مشتعل کرنے سے باز آرہے ہیں اور نہ ہی مظاہرین۔ مسٹر ٹرمپ کا ہر فیصلہ مظاہرین کو مشتعل کر رہا ہے اور مظاہرین‘ صدر کو مشتعل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ۔ امریکی نظام کے تحت‘ عوام کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے والا ‘چار سال تک اپنی مدت اقتدار پوری کرنے کا حق دار ہے جبکہ مظاہرین جتنی بھی بھاری تعداد میں ہوں ‘وہ صدر کو وائٹ ہائوس سے باہر نہیں کر سکتے۔مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ امریکہ کی جمہوری تاریخ میں ایسا کتنی بار ہوا ہے؟ لیکن اس مرتبہ جوہو رہا ہے‘ یہ اپنی مثال آپ ہے۔ نہ صدر صاحب اشتعال انگیزی سے باز آتے ہیں اور نہ ہی مظاہرین‘ صدر کو اشتعال دلانے سے۔ امریکیوں کی روایت یہ ہے کہ اگر عوام کی رائے صدر کے حق میں نہ ہو تو صدر فوری طور پرعوام کی نا پسندیدہ راہیں چھوڑ کر نیا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اور دوسری طرف عوام بھی صدر کے رویے میں نرمی دیکھ کر اپنا غصہ چھوڑ دیتے ہیں۔یہی جمہوریت ہوتی ہے کہ ملکی نظام بڑے جھٹکوں کے بغیر‘ نرم روی سے آگے بڑھتا رہے۔ کاروبار مملکت میں کوئی خلل نہ پڑے ۔ عوام بھی خوش رہیں اور حکومت بھی۔لیکن اس بار لگتا ہے کہ دونوں طرف غصے کا پیمانہ مسلسل چھلک رہا ہے۔مجھے اس بات کا علم تو نہیں کہ امریکی صدر کی روایات کیا ہوتی ہیں لیکن جس تیزی سے مسٹر ٹرمپ اپنے پے در پے احکامات دے کردستخطی قلم استعمال کر رہے ہیں‘وہ یقیناً امریکی صدر کی کوئی مخصوص روایت ہو گی۔مثلاً جب بھی کسی نئے حکم پر دستخط کرتے ہیں‘اس کے بعد جب دوسرے حکم پر دستخط کرنا ہوں تو نیا قلم اٹھا لیتے ہیں۔اگر ایسی ہی بات ہے تو اب تک مسٹرٹرمپ بے شمار قلم استعمال کر چکے ہوں گے۔یقیناً یہ قلم ریاست کی یادگار کے طور پر محفوظ کئے جارہے ہوںگے۔ جس رفتار سے مسٹر ٹرمپ احکامات پاس کر رہے ہیں‘ اگر ان کی تعداد میں ایسے ہی اضافہ ہوتا رہا تو جلد وائٹ ہائوس کا وہ کمرہ‘ جہاں پر صدر کے استعمال شدہ قلم محفوظ کئے جاتے ہوںگے‘ انہیں رکھنے کی گنجائش بہت جلد ختم ہو جائے گی اور صدر کے استعمال شدہ دستخطی قلم محفوظ کرنے کے لئے کوئی نیا کمرہ تیار کرنا پڑے گا۔صدر نے نشانہ بازی کا سلسلہ مسلمانوں سے شروع کیا ہے۔ ان کے ذہن میں نجانے کس وجہ سے یہ بات ثبت ہو گئی ہے؟ کہ ان کی مشکلات کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا طرزعمل ہے۔ مسٹر ٹرمپ کا ابھی تک ان لوگوں سے واسطہ نہیں پڑا‘جنہیں دنیا دہشت گردوں کے نام سے یاد کرتی ہے۔جب دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کے ابتدائی ایام واقعی ایسے تھے کہ امریکی اور مغربی اقوام بجا طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی تھیں کہ جو دہشت گرد اپنے جارحانہ مقاصد پورے کرنے کے لئے دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کرر ہے ہیں‘ ان سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ نفرتوں کا یہ دو طرفہ کھیل آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔آپ انفرادی دشمنیوں کا تجزیہ کر کے دیکھ لیں یا قوموں کے درمیان نفرت کی وجوہ تلاش کریں‘ وجہ ایک ہی سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ نفرت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ہم خود بھی70 سال سے نفرت کے اس کھیل میں دل و جاں سے مصروف ہیں۔
برصغیر میں ہندو مسلم نفرت دیرینہ مشغلہ ہے‘جو صدیوں پر پھیلا ہے۔آپ برصغیر میں ہندو مسلم فساد کی جڑیں تلاش کریں‘ تو ہمیشہ ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ''پتہ نہیں‘‘۔جب بھی متحدہ ہندوستان میں کوئی ہندو مسلم فساد ہوا اور بعد میں اس کی وجوہ تلاش کی گئیں تو پتہ یہی چلا کہ '' کوئی وجہ نہیں‘‘۔مسلمانوں نے تنگ آکر اس کا علاج یہ تلاش کیا کہ برصغیر کے مسلمان جہاں بھی اکثریت سے ہیں‘ ان علاقوں میں وہ اپنی حکومت قائم کر لیں اور جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے‘ وہاں کا کنٹرول وہ اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔اس علاج کو انگریز حکمرانوں نے بھی پسند کر لیا۔ جیسے ہی اس نسخے پر عمل درآمد شروع ہوا‘ تو فسادات کی وہ لہر شروع ہوئی کہ عوا م ماضی کے تمام فسادات بھول گئے۔ دلوں میںادھوری خواہشیں یوں والہانہ انداز میں آگے بڑھیں کہ احتیاط اور صبر کے سارے بندٹوٹ گئے اور پورے برصغیر میں اتنی آزادی سے ایک دوسرے کا خون بہایا گیا کہ دریا سرخ ہو گئے اور انسانی لاشیں اتنی کثرت سے شہروں اور دیہات میں پھیل گئیں کہ مہینوں انہیں جلانا یا دفنانا مشکل ہو گیا۔ ایک عرصے تک لاشیں نہلانے اور ٹھکانے لگانے کا کام سمیٹنا مشکل ہو گیا۔ خون اور لاشیں بہر حال مٹی کی خوراک ہوتی ہیں۔ مٹی نے انہیں ہضم کر لیا لیکن ہم ایسا نہ کر سکے۔ہم نے نفرت کا چراغ ر وشن رکھنے کے لئے‘ دو طرفہ نفرت کے پودے ہرے بھرے رکھنے کا مستقل انتظام کر لیا‘ جسے ہم اب تک کامیابی سے چلا رہے ہیں۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ انسان بنیادی طور پر جس جذبے کو مستقل مزاجی سے فروغ دے رہا ہے ‘ وہ صرف اور صرف نفرت ہے۔آپ قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ ماضی بعید میں جائیں تو یہودیوں اور مسلمانوں کی نفرت‘ ہمیشہ فروغ پذیر رہی۔ فلسطین میں یہودیوں نے مسلمانوں کو سماجی حیثیت سے محروم کر کے‘انہیں بے دست و پا کر دیا مگر نفرت کا پیٹ نہ بھر سکا۔ یہی حال پاک بھارت میں ہندو مسلمان کا ہے۔ یہ دونوں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد‘ مسلسل خون کی ہولی کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ اگر اس نفرت کے انجام پر غور کیا جائے تو یہی واضح ہو گا کہ یہ دونوں ایٹمی قوتیں اگر ایک دوسرے کو تباہ کرنے میں خاکم بدہن کامیاب ہو بھی گئیں‘ تو نفرت کا پیٹ نہیں بھرے گا۔کرہ ارض پر کہیں بھی توجہ مرکوز کریں‘ آ پ کو نفرت کا یہی کھیل دکھائی دے گا۔ چینیوں اور جاپانیوں کی تعداد میں زمین و آسماں کا فرق ہے۔ چین اگر انسانوں کا سمندر ہے تو اس کے برعکس جاپان کی سرزمین پر کہیں کہیں انسانی آبادیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان دونوں قوموں کی باہمی دشمنی کا جائزہ لیں تو انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ عربوں اور ایرانیوں کا حال بھی یہی ہے۔انہوں نے ایک مذہب اختیار کر لیا لیکن باہمی نفرت سے آزاد نہ ہو سکے۔برما ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں ملک اور معاشرے پر بدھوں کو بالادستی حاصل ہے‘ اس کے باوجود ان کی نفرت میں کمی ہونے میں نہیں آرہی۔ انہوں نے مسلمانوں کوملیا میٹ کرنے کے تمام طریقے آزما لئے‘ اس کے باوجود ‘مہاتما بدھ کے پیروکاروں کی تسلی نہیں ہو رہی۔مسلمانوں کے گھر جلا دئیے گئے ہیں۔انہیں گھروں سے نکال کر سمندروں میں پھینک دیا گیا ہے۔انہیں مسلسل خون میں نہلا کر ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن مسلمان ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ یورپی جلا وطنوں نے امریکہ پر قبضہ کر کے‘ وہاں کی عوامی آبادی کو اپنی دانست میںنیست و نابود کر ڈالا لیکن ریڈ انڈین آج بھی وہاں موجود ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے وہ دوبارہ سر نہیں اٹھا سکیں گے لیکن نفرت کو قدرت نے بے پناہ طاقت دے رکھی ہے۔ کون جانتا ہے‘ آنے والی صدیوں میں ریڈ انڈین کسی وقت زور پکڑ لیں اور قابض سفید فاموں کو امریکہ سے نکال کر سمندر وں میں پھینک دیں۔
نفرت بہت بڑی طاقت ہے۔محبت کے پھول بڑی مشکل سے کھلائے جاتے ہیں لیکن نفرت کا بیج‘ دیکھتے ہی دیکھتے بستیوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔جدید دور میں امریکہ سب سے بڑی طاقت گنا جاتا تھا لیکن نفرت کی طاقت لے کر‘ مسٹر ٹرمپ جیسے وائٹ ہائوس پر قابض ہوئے اور تیز رفتاری سے نفرت کے پودے لگانا شروع کئے‘ اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے جمہوری اور انسانی اقدار کا یہ چیمپئن‘ دیکھتے ہی دیکھتے نفرت اور خون ریزی میں صفحہ اول کی طاقت بننے جا رہا ہے۔گزشتہ چند عشروں کے دوران‘ جس تیزی سے ایٹمی ہتھیار پھیل رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ قیامت بڑی تیزی سے نزدیک آرہی ہے۔ چین‘ بھارت‘ امریکہ‘ پاکستان‘ شمالی کوریا اور اسی طرح کے چند دوسرے ممالک جس تیز رفتاری سے ایٹمی ذخیروں میں اضافہ کرتے آرہے ہیں‘ کچھ بعید نہیں کہ اس مرتبہ انسان‘ قیامت برپا کرنے کی صلاحیت خود حاصل کر لے گا اور دنیا کو تباہ کرنے کے لئے قدرت کو زحمت نہیں دے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ‘امریکہ کا اقتدار ایک جنونی کے ہاتھ میںآ گیا ہے اور اس نے جتنی تیز رفتاری سے تباہ کاری کے ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کیا ہے اس پرواپسی کی گنجائش بہت کم ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے خلاف سب سے پہلے خواتین میدان میں اتری ہیں۔کیااس شیطانی قوت پر خواتین غلبہ حاصل کر سکیں گی؟ قدرت کے کرشمے انوکھے ہوتے ہیں ۔ مسٹر ٹرمپ کو عورت نے جنم دیا اور یہ شیطان‘ کہیںعورتوں کے ہاتھوںملیا میٹ نہ ہو!