تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     31-01-2017

ایک حسینہ عالم اور ایک فاؤنڈری کا ماتم

ایک شبنم اور دُوسرا شعلہ۔ تاریخ پیدائش بے حد مختلف مگر تاریخ وفات ایک ہی ہفتہ۔ حسینہ عالم کی عمر 99 برس اور لوہے کو پگھلانے والی بھٹی(Foundary) کی عمر چھ سو برس۔ شہرہ آفاق حسینہ کا نام ZSA Gabor ZSA اور فائونڈری کا نام Whitechapel Foundary۔ یہ کالم نگار پچاس کی دہائی کے وسط میں بی اے کا امتحان (بمشکل) پاس کرنے کے بعد لاہور آیا تو آنکھیں اس روشنیوں کی شہر میں اس قدر چکا چوند نہ ہوئیں جتنی اتوار کی دوپہر کو ریگل سینما میں لگنے والی انگریزی فلم میں مذکورہ نام کی امریکی اداکارہ کے کمال کے میک اپ اور ہیرے جواہرات سے جگمگاتے ہوئے چہرے کے دیدار سے۔ ایک 20 سالہ دیہاتی نوجوان کو اس حسینہ پر آناً فاناً عاشق ہوجانے میں کتنی کم دیر لگی ہوگی۔ 
اب روزگار کی چکی پیسنے کا سلسلہ شروع ہوئے تین چوتھائی صدی گزر گئی ہیں۔ جب نصف صدی قبل برطانیہ پڑھانے (اور بعد ازاں) پڑھنے کے لئے آیا تو Darwen (شمالی انگلستان) کے بعد لندن کے مغرب میں Slough اور وہاں سے مشرقی لندن منتقل ہوا۔ مشرقی اور وسطی لندن کے سنگم E.I پرWhitechapel اور ملحقہ Aldgate کے مقام پر اپنے پانچ بیرسٹر بیٹوں میں سے تین کے ساتھ مل کر اپنا دفتر بنایا۔ ایک دن فرصت ملی تو میں اپنے محلے کی سیر کرنے نکلا۔ میں نے تھوڑی دیر بعد اپنے آپ کو ایک فائونڈری کے سامنے کھڑا پایا۔ اس کے باہر ایک بے حد قدیم اور خستہ بورڈ پر لکھا تھا Whitechapel Bell Foundary ۔
20 دسمبر کا روزنامہ گارڈین گھر آیا تو اس کے صفحہ نمبر37 پر میری پرانی پسندیدہ خاتون ZSA ZSA Gabor کی وفات کی خبر تھی اور اُس کی ساتھ 99 سالہ زندگی پر دلچسپ مضمون۔ چار دن بعد برطانیہ کا عالمی شہرت کا مالک ہفت روزہ اکانومسٹ ملا تو میں نے حسب معمول سب سے پہلے اس کا آخری صفحہ دیکھا (جس پر وفات پا جانے والی شخصیات پر ماتمی مضامین شائع ہوتے ہیں) تو ماتھا ٹھنکا اور یوں محسوس ہوا کہ میرا کوئی دوست دُنیا سے چلا گیا ہے۔ یہ فائونڈری بند ہونے کی خبر تھی۔جب بھی پاکستان سے کوئی مہمان مجھے ملنے آتا تو میں اُسے اس تاریخی فائونڈری کی سیر کرانے لے جاتا جہاں ہمیشہ کی طرح میرا گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا۔ محلہ دار ہونے کی وجہ سے مجھے ٹکٹ خریدنے سے بھی معافی دے دی گئی۔ میرے ساتھ سالہا سال جو دوستانہ سلوک کیا جاتا رہا اُس نے میرے اندر نقلی احساس ملکیت اور اصلی احساس اپنائیت پیدا کر دیا۔ جب یہ برُی خبر ملی کہ مالی طور پر نفع بخش نہ ہونے کی وجہ سے یہ فائونڈری بند کر دی گئی ہے تو مجھے امیر کبیر نہ ہونے پر شدید صدمہ پہنچا۔کاش میں اپنی محبوب فائونڈری کو خرید کر عجائب گھر بنا دیتا، جہاں مہمانوں کا خوش اخلاقی سے استقبال کیا جاتا۔ 
اس فائونڈری میں ہزاروں گھنٹیاں بنائی گئیں جو برطانیہ کے گرجا گروں میں صدیوں سے بج رہی ہیں۔ یہاں بنائی ہوئی گھنٹیاں رُوس سے لے کر آسٹریلیا اور امریکہ تک پہنچیں۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی فائونڈری بند ہونے کا نوحہ اکانومسٹ میں شائع ہوا تو وہ کتنی قدیم، کتنی تاریخی اور کتنی اہم ہوگی؟ اس فائونڈری میں جو سب سے وزنی گھنٹی بنی اُس کا وزن 13 ٹن تھا۔ یہ 1858ء میں برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت کے معروف گھنٹہ گھر Bigben میں لگائی گئی۔ 1776ء میں امریکی شہر فلا ڈیلفیا میں پرجوش عوام کے بڑے اجتماع کے سامنے اس فائونڈری کی بنائی ہوئی گھنٹی بجائی گئی اور امریکہ کا اعلان آزادی پہلی بار پڑھ کر سنایاگیا۔ ہر گھنٹی اس توجہ اور احتیاط اور ہنر مندی سے بنائی جاتی تھی کہ آرڈر موصول ہونے اور تیار شدہ مال گاہگ کے حوالہ کرنے میں اوسطاً گیارہ برس کا وقفہ ہوتا تھا۔ 
میں نے اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں جو انگریزی شاعری پڑھی وہ تو میں بھول چکا ہوں مگر ایک نظم یاد ہے جس کا نام تھا: Elegy Written in a Country Grave Yard اور وہ Thomas Gray نے لکھی۔ اس کا پہلا مصرع ہے: "The Curfew Tolls the Knell of Passing Day Whitechapel Foundry....A۔۔۔ برطانیہ کے غالباً اس پہلے صنعتی ادارے کی وفات پر لکھے جانے والے مضمون کا عنوان "A Curfew Tolls" اسی نظم کے تین الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس فائونڈری کی بنائی ہوئی گھنٹیاں ابھی ایک عرصہ تک زیر استعمال رہی گی اور بجتی رہیں گی مگر اُن کو بنانے والی فائونڈری اور کئی دھاتوں کو پگھلا کرگھنٹیاں بنانی والی بھٹی اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی ہے۔ 
سال نو میں دفاتر پھر کھلیں گے تو میں اپنی سیر کا راستہ بدل لوں گا۔ ہر ہفتہ اپنے وفات پا جانے والے دوست کا مزار دیکھنا یقیناً اُس دل کو مزید اُداس کر دے گا جس میں ZSA ZSA کی بھولی بسری تصویر کے گرد آلود نقوش بار بار اُبھرتے ہیں مگر اتنے پرانے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اربوں انسانوں میں Glamorous یعنی پرُکشش اور چمک دمک سے مالا مال خواتین کی کتنی بڑی تعداد ہوگی؟ اس زاویہ سے دیکھیں توZSA ZSA کی عالمی شہرت یقیناً کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ اُس نے ہالی وڈ کی کل 30 فلموں میں چھوٹے موٹے رول ادا کیے، ان گنت امیر ترین لوگوں سے گہری دوستی کا رشتہ قائم کرنے کے علاوہ نو باقاعدہ سرکاری شادیاںکیں۔ اس رُسوائے زمانہ حسینہ کے حاسدوں اور بدخواہوں کی تعداد یقیناً کافی زیادہ ہوگی۔ اُن میں سے ایک نے جل بھن کر کہا کہMadame de Pompadour (فرانس کے بادشاہLouis XV کی منظور نظر خاتون جو لوگوں کو وزارت دلواتی تھی) کے بعد کوئی خاتون اتنی بیش قیمت داشتہ نہیں بنی۔ جنوبی امریکہ کے ایک ملک Dominican Republic کے ایک فوجی آمر مطلقGeneral Trujillo کی عنایات سے بھی فیض یاب ہونے والوں میں وہ سر فہرست تھی۔ اگرچہ موصوفہ ہمیشہ با اصرار کہتی رہی کہ اُس نے اپنے قدر دان سے ماسوائے ایک مہنگی کار اور بے حد مہنگے کوٹ کے کوئی اور تحفہ نہیں لیا۔ وُہ 1917 ء میں ہنگری کے دارالحکومت Budapet میں پیدا ہوئی۔ اُس کی دادی کا شمار بھی اپنے وقت کی زرق برق حسینائوں میں ہوتا تھا۔ باپ ہیروں کا تاجر تھا مگر وُہ اُس کی والدہ کی زیبائش کے کام آتے تھے۔ ہیروں اور جواہرات سے ZSA ZSA کی گہری دلچسپی تین پشت پرانی تھی۔ مرتے دم تک وہ گنتی کی اُن خواتین میں شامل رہی جو ہیروں کے بیش قیمت ذخیرہ کی مالکہ سمجھی جاتی ہیں۔ عالمی اُفق پر نمودار ہونے کے لئے اُس نے پہلا قدم خود اپنے ملک میں Miss Hungary کا اعزاز حاصل کرکے اُٹھایا۔1942ء میں اُس نے ہلٹن ہوٹلوں کے جس ارب پتی مالک سے شادی کی وہ اُس سے 30 سال بڑا تھا۔ چند سالوں کے بعد طلاق نہ ہو جاتی تو 1950 ء میںZSA ZSA کے شوہر کے ایک پہلی شادی سے پیدا ہونے والے بیٹے کی مشہور اداکارہ ایلزبیتھ ٹیلر کی مختصر شادی اُسے دُنیا کی سب سے خوبصورت خاتون کی ساس بنا دیتی۔ اُسے مرتے دم تک یہ اعزاز نہ ملنے کا افسوس رہا۔
مرحومہ نے جو چار سنسنی خیز اور دلچسپ کتابیںلکھی ہیں آپ وہ پڑھ سکتے ہیں۔ کتابوں کے نام پڑھ کر ہی میرے قارئین کے چہروں پر مسکراہٹ اُبھرے گی: How To Get Rid of a Man.... How to Keep a man.... How to Catch a man.... One life time is not enough ۔ اخبارات نے اُس خاتون کی 50 سالہ پرُانی تصویر شائع کی جو میں نے کاٹ کر سنبھال لی ہے۔ اُس کے نام کے پہلے دو حروف میں Z نہیں بولا جاتا اس لئے دوست احباب اُسے ساسا کہہ کر پکارتے تھے۔ تفتیش کے باوجود اس کالم نگار کو یہ پتا نہیںچل سکا کہ مرحومہ کے جواہرات کا خزانے کا کیا بنا؟ غالباً ایک غیبی ہاتھ نے اُس کے آخری خاوند کو بطور معاوضہ دلوا دیا۔ اگر وہ یہ جواہرات اپنی اگلی بیوی کو دے دے تو ہم کون ہوتے ہیں دخل دینے والے؟ 
اپنے وطن پر نظر ڈالیں تو ہمارے سیاست دانوں میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے تین (کم از کم ) اور غلام مصطفی کھر نے پانچ (زیادہ سے زیادہ ) شادیاں کیں۔ بھٹو صاحب کے اقتدار کے آخری دنوں میں کوثر نیازی نے ان کا ایک بنگالی حسینہ سے نکاح پڑھایا جس پر بیگم نصرت بھٹو نے اُسے مرتے دم تک معاف نہ کیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved