تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     31-01-2017

پاکستانی سفراء اور دوہری شہریت

قطر میں پاکستانی سفیر شہزاد احمد کے بارے میں اگلے روز ایک نیوز چینل پر کہا گیا کہ وہ پاکستان کے علاوہ برطانیہ کی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر بحث میں شریک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ سفیر دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ دوسرے، علی ظفر کا کہنا تھا کہ کاغذات کی تصدیق صرف قونصل جنرل کا کام ہے، سفیر اور سفارت خانہ کا یہ کام نہیں۔
علی ظفر کی ایک بات درست ہے اور دوسری غلط۔ یہ بات صحیح ہے کہ کوئی پاکستانی قانون سفراء کو دوہری شہریت سے نہیں روکتا، لیکن سفراء پر کسی ڈاکیومنٹ کو تصدیق کرنے کی کوئی پابندی نہیں۔ ہاں جس جگہ پاکستانی قونصل خانہ موجود ہو وہاں تصدیق کا کام قونصلیٹ ہی کرے گا۔ مگر یہ بات بھی محل نظر ہے کہ تمام قونصلیٹ بھی سفیر کے انڈر کام کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ قونصلیٹ دوسرے درجے کا سفارت خانہ ہوتا ہے، جس کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ سفیر صدر مملکت کا نمائندہ ہوتا ہے جبکہ قونصل جنرل کی تعیناتی کا خط وزیر خارجہ سائن کرتا ہے۔ معاف کیجیے بات ذرا موضوع سے ہٹ گئی۔ اینکر صاحب دوہری شہریت سے غالباً یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ قطری خط پر شہزاد احمد کی تصدیق اُسے مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی منطق نہیں‘ یہ ضروری نہیں کہ دوہری شہریت رکھنے والا شخص خائن ہی ہو۔ البتہ میرے ذہن میں چند اور سوال اٹھتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ شہزاد احمد کے پیشرو حسن رضا کو قطر سے اچانک کیوں ٹرانسفر کیا گیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا واقعی شہزاد احمد کے وزیر اعظم سے خاندانی تعلقات ہیں اور اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا شہزاد کی وفاداری ریاست پاکستان کی بجائے وزیر اعظم کے خاندان سے تو نہیں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ سفیر کو ان کاغذات کی تصدیق کی ضرورت کیوں پیش آئی‘ یہ کام عمومی طور پر سفارت خانہ کے کسی افسر کو تفویض کیا جاتا ہے۔ میں دس سال تک چار ملکوں میں پاکستان کا سفیر رہا ہوں، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی میں نے ڈاکیومنٹ تصدیق کیے ہوں یا پاسپورٹ سائن کیے ہوں۔ سفراء کے فرائض ان روٹین کاموں سے اعلیٰ اور ارفع ہوتے ہیں۔
میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا سفارت کا حساس کام کسی دوہری شہریت والے شخص کو دیا بھی جانا چاہیے کہ نہیں۔ کیا دوہری شہریت والا شخص مکمل طور پر پاکستان کا وفادار ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی وفاداریاں تقسیم نہیں ہو جاتیں؟ میرے کئی عزیز اور دوست دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ میں نے اکثر کو پاکستان میں کیڑے نکالتے ہی دیکھا ہے، جیسے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ اچھا ہوا آپ کے ملک سے ہماری جان چھوٹ گئی۔
ہمارا ملک بھی بڑا عظیم ہے۔ یہاں معین قریشی کو نگران وزیر اعظم بنایا گیا تو موصوف کے پاس قومی شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔ میں دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے سفیر مقرر کرنے کے خلاف اس لیے بھی ہوں کہ تمام سفراء کو اس سیکرٹ کوڈ تک رسائی ہوتی ہے جس کے ذریعے حساس معاملات پر خط و کتابت ہوتی ہے۔ اگر خدانخواستہ دشمن کو اس سیکرٹ کوڈ تک رسائی مل جائے تو پاکستان کا کوئی راز محفوظ نہیں رہے گا۔ کیا دو کشتیوں کے سوار دوہری شہریت کے حامل شخص کو تمام سرکاری اسرار و رموز کی ماں یعنی سائفر کے کوڈ تک رسائی حاصل ہونی چاہیے؟ جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن میرا جواب دس مرتبہ نفی میں ہے۔
1993ء میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈاکٹر فاروق رانا کو کینیڈا کے لیے سفیر مقرر کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب کے کاغذات نامزدگی اوٹاوہ کینیڈین حکومت کو بھیجے گئے تو جواب آیا کہ آپ کے تجویز کردہ شخص نے تو کینیڈین نیشنلٹی کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے۔ فاروق رانا وزیر اعظم کی انگریزی تقریریں لکھا کرتے تھے اور اس بات پر مصر تھے کہ ہر صورت میں کینیڈا ہی جائیں گے۔ پھر درمیانی حل یہ نکالا گیا کہ جب تک وہ اوٹاوہ میں پاکستان کے سفیر ہوںگے ان کی نیشنلٹی والی درخواست معلّق رہے گی۔ اب آپ ذرا غور فرمائیے کہ ایسے سفیر کی قدر و منزلت کینیڈین حکام کی نظروں میں کیا رہی ہو گی۔
2001ء میں جنرل مشرف نے میجر جنرل مصطفیٰ انور حسین (ریٹائرڈ) کو انڈونیشیا میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا۔ موصوف نے وزارت خارجہ کی اجازت کے بغیر دو عدد شاندار سرکاری عمارتیں اونے پونے بیچ دیں‘ بعد میں مشرف صاحب نے خود ان عمارتوں کی فروخت کی Ex Post facto منظوری دی۔ میں متبادل پلاٹ دیکھنے کے لئے سرکاری حیثیت میں 2004ء میں جکارتہ گیا۔ بیچی گئی عمارتیں دیکھیں تو دل بے حد خراب ہوا، لیکن کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ مشرف یا اُس کے کاکول کے انسٹرکٹر مصطفی انور حسین کو اس قومی جُرم کے بارے میں سوال کرتا۔ آج بھی معاملہ نیب کے سردخانے میں پڑا ہے۔ سُنا ہے کہ مصطفی انور حسین بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں‘ دورغ بر گردن راوی۔ لیکن عین ممکن ہے کہ موصوف کی دیدہ دلیری کا ایک سبب دوہری شہریت بھی ہو۔
میں جب جکارتہ گیا تو وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکرٹری ساجد حسن میرے ہمراہ تھے۔ میرے پاس ان دنوں ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خارجہ کا چارج تھا اور میں انتظامی امور کو دیکھتا تھا۔ ہم جکارتہ میں تین چار روز رہے۔ سفیر صاحب نے ہمیں ریسٹورنٹ میں کھانا ضرور کھلایا مگر گھر نہیں بلایا۔ عام پروٹوکول یہ ہے کہ اسلام آباد سے آنے والے سرکاری افسروں یا وفود کو سفیر کھانے یا چائے پر اپنے گھر بلاتا ہے۔ لیکن یہ حضرت ہمیں گھر پر کیسے بلاتے، شاندار سرکاری گھر فروخت کرنے کے بعد کوئی چھوٹا سا گھرکرائے پر لیا ہوا تھا۔ 
چند سال پہلے پتا چلا کہ پاکستان کے آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا بھی دوہری شہریت کے حامل ہیں، لیکن انہیں فارغ کسی اور وجہ سے کیا گیا کیونکہ پاکستان میں اہم سے اہم سرکاری افسر دو کشتیوں کا سوار ہو سکتا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی پوسٹ دستوری ہے اور بے حد اہم۔ کئی حساس قسم کے سرکاری اخراجات کی جانچ پڑتال اس دفتر میں ہوتی ہے اور اس میں بہت ہی رازداری والے دفاعی اخراجات بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ازبس ضروری ہے کہ آڈیٹر جنرل کی کرسی پر آئندہ کوئی دوہری شہریت کا حامل شخص نہ بیٹھے۔ ممبران پارلیمنٹ کے لئے عرصے سے قانون موجود ہے کہ وہ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتے، لیکن کئی ایم این اے اور سینیٹرز نے یہ بات چھپائے رکھی۔ ہر ملک کی وزارت خارجہ باقاعدگی سے ڈپلومیٹک بُک یا لسٹ چھاپتی ہے، اس میں ہر ملک کے تمام سفارت کاروں اور ان کی بیگمات کے نام، ایڈریس، ٹیلی فون نمبر وغیرہ درج ہوتے ہیں۔ اس کتاب سے سفارت خانوں کا آپس میں اور وزارت خارجہ کا سفارت خانوں سے روزمرہ کا رابطہ آسان ہو جاتا ہے۔ بادش بخیر چند سال پہلے حسین حقانی امریکہ میں ہمارے سفیر ہوا کرتے تھے۔ یہ وہی شخص ہے جو میمو گیٹ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ سے واپس آنے کا پکا وعدہ کر کے بھاگ گیا تھا۔ ان کی بیگم فرح ناز اصفہانی ایم این اے تھیں، صدر زرداری کی مشیر تھیں اور ترجمان بھی۔ محترمہ نے اپنی دوہری شہریت عرصے تک چھپائے رکھی تاآنکہ امریکہ والوں کی ڈپلومیٹک لسٹ نے راز افشا کر دیا اور پھر انہیں نیشنل اسمبلی کی وہ سیٹ چھوڑنا پڑی جو انہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی۔
اب وقت آگیا ہے کہ دوہری شہریت والوں کو حساس نوعیت کے عہدوں سے دور رکھنے کے لیے قانون سازی کی جائے ورنہ آپ کا کوئی نیشنل سیکرٹ محفوظ نہیں رہے گا۔ سُنا ہے کہ شہزاد احمد کے علاوہ ایک دو اور سفیر بھی دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ میری ناقص رائے میں یہ چلتے پھرتے سکیورٹی رسک ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved