ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں کہ جو لوگ علی الصباح بیدار ہوتے ہیں اُن کی زندگی میں تازگی، توانائی اور توازن ... سبھی کچھ برقرار رہتا ہے۔ علی الصباح بیدار ہونے کے بہت سے فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ پورا ماحول سُورج کے طلوع ہونے پر تازگی سے ہم کنار ہوکر جاگتا ہے تو ہمیں بھی ماحول سے ہم کنار ہونے کا موقع ملتا ہے۔ گاڑیوں کا شور بھی نہیں ہوتا۔ جب زیادہ گاڑیاں نہیں چل رہی ہوتیں تو دُھول بھی زیادہ نہیں اُڑ رہی ہوتی۔ یہ دھڑکا بھی نہیں لگا رہتا کہ کوئی ملنے کے نام پر وقت برباد کرنے آجائے گا۔ یہ خوف بھی دامن گیر نہیں ہوتا کہ ابھی گھر والے ہرا دھنیا، پودینہ لانے کی فرمائش کرکے ''گیان، دھیان‘‘ کی کیفیت کو تہس نہس کردیں گے! قصہ مختصر یہ کہ علی الصباح بیدار ہوکر ذہن کی دنیا میں کھو جائیے۔ جس معاملے پر جتنا سوچنا ہے سوچیے۔ کوئی روکنے والا ہوگا نہ ٹوکنے والا۔
بات سمجھ میں آتی ہے کہ علی الصباح بیدار ہونے اور بستر چھوڑنے والوں کو بہت کچھ ملتا ہے۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے سے دن بھر توانائی کا گراف بلند رہتا ہے، کام میں من لگتا ہے اور بلا سبب بیزاری قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہم ہمیشہ سَحر خیزی سے الرجک، بلکہ اِس کے مخالف رہے ہیں۔ جو لوگ سُورج کے طلوع ہونے سے پہلے یا عین اُس کے طلوع ہونے کے وقت بستر چھوڑ دیتے ہیں اُنہیں سب رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر ہم شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، نیند کا اپنا مزا ہے جو کسی بھی اور چیز میں نہیں۔ بھرپور نیند کا مزا چھوڑنا ہمیں تو کبھی عقل کا سَودا نہیں لگا۔ جو لوگ میٹھی نیند کے مزے اچھی طرح جانتے ہیں کچھ اُنہی کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ بستر چھوڑ کر دنیاداری میں لگنا کتنا بڑا جھنجھٹ ہے!
شکر کا مقام ہے کہ نیند کے حوالے سے ہمارے ''نظریے‘‘ سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ ملک کا سوادِ اعظم تشکیل دیتے ہیں یعنی واضح اکثریت میں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ علی الصباح بیدار ہونے والوں سے آنکھ ملانے میں کبھی زیادہ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ ہاں، کبھی کبھی ''جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے‘‘ والا محاورہ سُن کر ہم تھوڑے سے شرمندہ ہوتے رہے ہیں کیونکہ اِس محاورے میں پایا جانے والا کھوتا ہمیں پنجابی کا محسوس ہوتا رہا ہے!
کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کچھ لوگوں کو محض سَحر خیزی کی بنیاد پر تھوڑی بہت کامیابی سے ہم کنار ہوتا دیکھا تو جذباتی ہوکر ہم علی الصباح بیدار ہونے اور کچھ کر گزرنے کا فیصلہ کر بیٹھے مگر پھر یہ جوش کچھ ہی دیر میں سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور پرنالہ وہیں بہتا رہا جہاں بہتا آیا تھا۔
کچھ دن قبل ایک ایسی راحت افزا خبر آئی کہ طبیعت کلی کی طرح کِھل کر پُھول بنی اور یوں مہکنے لگی گویا وجود کے اندر کوئی چمن بس گیا ہو۔ محققین سے ہم ہمیشہ نالاں رہے ہیں کہ وہ فضولیات میں الجھے رہتے ہیں اور یہ کہ اُنہیں دلوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کے سِوا کچھ نہیں آتا ... بلکہ ہمارے نزدیک تو اُن کا ''ایجنڈا‘‘ ہی یہ ہے کہ لوگ تحقیق کے نتائج پڑھ پڑھ کر الجھتے رہیں، بے حواسی میں مبتلا رہیں۔ مگر اب محققین نے کم از کم ایک ایسی خبر سُنائی ہے کہ ہم علی الصباح بیدار ہونے والوں کے سامنے شرمسار ہونے سے نہ صرف یہ کہ بچ گئے ہیں کہ بلکہ اِس قابل بھی ہوگئے ہیں گردن اور سَر دونوں اُٹھاکر اُن سے بات کرسکیں۔ برطانوی محققین کی ایک ٹیم نے سیکڑوں افراد کے معمولات کا جائزہ لے کر جو کچھ کہا ہے اُس کا نچوڑ یہ ہے کہ جو لوگ دیر سے بیدار ہوتے ہیں اُنہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے کیونکہ ع
یہ بڑے لوگ ہیں، جینے کا ہُنر جانتے ہیں
محققین نے مُژدۂ جاں فزا سُنایا ہے کہ دیر سے بیدار ہونے والے اور بستر چھوڑنے میں بھی تساہل کا مظاہرہ کرنے والے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ ذہانت کے معاملے میں خیر ہم صبح دیر سے اُٹھنے کے محتاج نہیں۔ ہمیں تو بس اِس بات سے خوشی ہوئی کہ ہماری کوئی تو بُری عادت ایسی ہے جو مثبت نتیجے کی حامل ہے! محققین نے دیر سے بیدار ہونے اور بستر چھوڑنے میں خاصی سُستی دکھانے والوں کو زیادہ ذہنی صلاحیت و سکت کا حامل قرار دے کر ہمیں سینہ تان کر چلنے اور اپنے وجود پر فخر کرنے کا موقع عطا کیا ہے! جس عادت کے ہاتھوں ہم کبھی کبھی شرمندہ ہوا کیے ہیں اُسی پر اب اِس قدر فخر محسوس ہو رہا ہے کہ جی میں آتا ہے تھوڑا بہت یعنی زائد از ضرورت تفاخر اوپن مارکیٹ میں بیچ دیں!
ہم سوشل میڈیا کو بروئے کار لانے کے معاملے میں خاصے ان سوشل واقع ہوئے ہیں مگر اب سوچتے ہیں کہ فیس بک یا واٹس ایپ پر اُن لوگوں کا گروپ تشکیل دے دیں جو صبح کی میٹھی نیند کے مزے لینے پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں اور بستر چھوڑنے میں تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں!
جب ہم نے نیند اور ذہانت کا تعلق ثابت کرنے والی اِس تحقیق کا ذکر مرزا تنقید بیگ سے کیا تو وہ انتہائِ مسرّت سے بے حال ہوگئے۔ ہونا بھی چاہیے تھا۔ بات کچھ یوں ہے کہ مرزا زندگی بھر تمام معاملات پر اپنی نیند کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ چھوٹے تھے تو نیند میں ڈوبے رہنے کے باعث اسکول ہمیشہ دیر سے پہنچتے تھے اور پھر اُنہیں انسانیت سے محروم کرکے بہت دیر تک مُرغا بنایا جاتا تھا! ایسے میں کیا خاک پڑھتے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم بس واجبی سی پائی یعنی صرف سرکاری نوکری کے قابل رہ گئے! نوکری کے زمانے میں بھی نیند نے پیچھا نہ چھوڑا۔ جس دن سے سرکار کے نوکر ہوئے تب سے ریٹائرمنٹ کے دن تک سرکاری نوکری کا حق خوب ادا کیا یعنی دفتری اوقات میں بھی بھرپور نیند کے مزے لوٹتے رہے!
برطانوی محققین کی تحقیق کو اپنے حق میں سند سمجھتے ہوئے مرزا نے سکون کا سانس لیا اور کہا : ''محققین نے پہلی بار کوئی کام کی بات کہی ہے اور بات بھی ایسی کہ اپنے پچھلے تمام گناہوں کے داغ دھو ڈالے ہیں۔ ہماری نیند کو ذہانت میں اضافے کا وسیلہ قرار دینے والوں کے درجات اللہ بلند کرے اور اُنہیں ایسی ہی پُرلطف و جاں فزا تحقیق کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘
یہ دیکھ کر کہ نیند اور ذہانت کے مثبت تعلق کی خبر سُن کر مرزا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا، ہم بھی سَرخوشی کے عالم میں جُھوم اُٹھے اور جب اہل خانہ کے سامنے اِس خبر کا تذکرہ کیا تو جواب آیا جن محققین نے نیند میں ڈوبے رہنے کو ذہانت میں اضافے کا وسیلہ بتایا ہے اُن کا دماغی معائنہ کرایا جانا چاہیے کیونکہ تحقیق کی آڑ لے کر اِس طرح کی بات وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دماغ موت کی نیند سوچکے ہوں!
اہل خانہ کی جلی بُھنی رائے کا ہم نے زیادہ بُرا نہیں مانا کیونکہ وہ جب کبھی ہماری ذہانت کی تصدیق کرنے والی کوئی خبر سُنتے ہیں تب کچھ ایسا ہی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں ہم آپ کی تسلّی کے لیے ایک وضاحت ضروری سمجھتے ہیں ... یہ کہ ہم کالم لکھتے وقت نیند اور ذہانت کے تعلق کو بُھول جاتے ہیں یعنی نیند کو بالائے طاق رکھ کر پورے ہوش و حواس کے ساتھ کالم لکھتے ہیں تاکہ اُن میں ذہانت کی زیادتی واقع نہ ہو! ہمارے کالموں میں جو تھوڑی بہت ''ذہانت‘‘ در آتی ہے وہی (دوسروں کے لیے) سوہانِ رُوح بن جاتی ہے! ایسے میں ہم اضافی ذہانت کے تیر چلاکر اپنے قارئین کو مزید مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتے!