یہ شعرو ادب کی موت کا اعلان نہیں ہے جیسا کہ ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ بلکہ شاعری کو لگے ایک مرض کی تشخیص مطلوب ہے جس میں نثری نظم بطور خاص شامل ہے۔ نظم اور غزل کا جھگڑا بہت پُرانا ہو چکا ہے اور وہ بھی نظم کا غزل کے ساتھ تھا‘ غزل کا نظم کے ساتھ کوئی تنازع نہ تھا‘ حتیٰ کہ غزل کے خلاف ہمارے بعض نظم گو دوستوں نے تحریک بھی چلائی کہ یہ صنف اب ازکاررفتہ ہو چکی ہے اور اپنے سارے امکانات ختم کر چکی ہے‘ اس لیے اس کا ترک کیا جانا وقت کی اوّلین ضرورت ہے ؛ حالانکہ غزل سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے کیونکہ یہ صرف اور صرف دل کی شاعری ہے کہ اس کا اساسی موضوع ہی عشق اور محبت ہے اور جب تک محبت کی جاتی رہے گی اس وقت تک غزل بھی لکھی اور پڑھی جاتی رہے گی‘ اس لیے یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو چکی ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ غزل کے موضوع کو بھی کافی حد تک پھیلا دیا گیا ہے اور جہاں غم جاناں کے ساتھ ساتھ غم دوراں اور فلسفے وغیرہ کا تڑکا لگایا گیا‘ اب وہاں ہمارے ہاں سیاسی غزل‘ انقلابی غزل‘ آزاد غزل اور مزاحیہ غزل بھی پائی جاتی ہیں اگرچہ سیاست‘ صحافت اور انقلاب وغیرہ غزل کے موضوعات ہیں ہی نہیں۔ خود میرا ایک مجموعہ''سرِعام‘‘ کم و بیش سب کا سب کا سیاسی اور احتجاجی غزلوں پر ہی مشتمل ہے لیکن میں اسے اپنی ادنیٰ شاعری ہی سمجھتا اور کہتا ہوں‘ میری دوسری شاعری بھی اعلیٰ درجے میں شمار ہوتی ہو یا نہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ میرا موضوع نظم اور بالخصوص نثری نظم ہے۔ میں نثری نظم کو نا شاعری ہرگز نہیں سمجھتا بلکہ میں نے تو ایک سے زیادہ ایسے مجموعوں کے دیباچے تک لکھ رکھے ہیں۔ اور میں نثری نظم کا اُس وقت سے قائل ہوں جب احمد ندیم قاسمی اسے نظم نہیں مانتے تھے۔ نیز میں نے یہ بھی کہہ رکھا تھا کہ جو نثری نظم کو شاعری نہیں سمجھتا اُسے نسرین انجم بھٹی کی اُردو اور پنجابی نظمیں پڑھنی چاہئیں جو نثری ہونے کے باوجود معرکے کی نظمیں ہیں۔ اور اب میری رائے میں ابرار احمد نثری نظم کے سب سے زیادہ قابلِ توجہ شاعر ہیں‘ اگرچہ ان کی آزاد نظم بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
زمانۂ موجود کی نثری نظم پر مجھے سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ اس کا سارا زور بالعموم موضوع پر ہے‘ شاعری پر نہیں‘ اور موضوع بھی اکثر و بیشتر سیاسی ہوتا ہے۔ میرا اعتراض سیاسی موضوعات پر بھی نہیں ہے بلکہ میری فکر مندی یہ ہے کہ اس کا زیادہ زور موضوع پر ہوتا ہے‘شاعری پر نہیں۔ مثلاً آپ مقبوضہ فلسطین ‘ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر نظم ضرور لکھیں یا استبداد‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور استحصال یقیناً بڑے موضوعات ہیں لیکن اگر نظم میں شاعری نہیں ہے تو وہ محض ایک نثری ٹکڑا ہو گا‘ نظم نہیں اور چونکہ بنیادی طور پر یہ سیاسی موضوعات ہیں اور ان کا زیادہ تر تعلق خود عوام اور ان کے مسائل سے ہوتا ہے‘ اس لیے انہیں عوامی پذیرائی بھی حاصل ہوتی ہے اور ہاتھوں ہاتھ بھی لیا جاتا ہے۔
اصل میں تو ان موضوعات پر لکھنا اور بولنا سیاستدانوں کا کام ہے اور یہ اُنہی کو کرنا بھی چاہیے۔ لیکن چونکہ اسے جلد از جلد مقبولیت بھی حاصل ہو جاتی ہے اور ایسی نظموں میں شاعری کا تقاضا بھی شاعر سے نہیں کیا جاتا‘ اس لیے شاعر بھی شاعری سے بے نیاز ہو کر موضوع ہی کے نشے میں سرشار رہتا ہے۔ آج کی ہماری اکثر نثری نظمیں اسی رُجحان کی نمائندگی کرتی ہیں کیونکہ ایسی نظموں میں شاعر محنت کرنے سے بھی بچ جاتا ہے اور ہینگ پھٹکڑی لگائے بغیر رنگ بھی چوکھا آ جاتا ہے اور شاعری کا اصل زوال شروع بھی یہیں سے ہوتا ہے۔
حق تو یہ ہے کہ ایسے شعراء کو سیاسی شاعرہی کہا اور سمجھا جائے کیونکہ وہ ایسا کرتے ہوئے ایک سیاسی مقصد حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور چونکہ ایسی شاعر ی صحافت کا ذائقہ لیے ہوئے بھی ہوتی ہے‘ اس لیے میڈیا میں بھی اسے خصُوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اس طرح بھی قاری کو باور کرایا جاتا ہے کہ یہی شاعری ہے اور ایسی ہی شاعری تخلیق بھی کی جانی چاہیے جس کے نتیجے میں یہ شاعری سیاست اور صحافت ہوکر ہی رہ جاتی ہے‘ شاعری کا خانہ خالی ہی رہتا ہے۔ اور اگر ایک چیز میڈیا کے لیے پسندیدہ ہے تو شاعر کو اس میں شاعری ڈالنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی‘ حتیٰ کہ نقاد حضرات بھی اس کے صدقے واری ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح ایسی شاعری کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سیاست اور صحافت شاعری کو کھا جائیں گی۔ ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے گا کہ شاعری کی ضرورت اورگنجائش ہی باقی نہ رہے‘ اس لیے بھی کہ مادی لحاظ سے سیاست اور صحافت قاری کے زیادہ قریب واقع ہوئی ہیں۔ وہ جہاں سیاسی خبریں ‘ تجزیے اور کالم شوق سے پڑھتا ہے وہاں وہ سیاسی شاعری ہی کا طلب گار بھی ہوتا ہے‘ جس کے برعکس ایک سیاستدان اور صحافی کو شاعر بنتے کسی نے دیکھا ہے اور نہ ہی اُسے اس کی ضرورت ہی ہوتی ہے کیونکہ اس کے اپنے پاس ایسا مسالہ پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے جو اس کے شوق اور ضروریات کے لیے کافی ہوتا ہے‘ ورنہ اگر نثری نظم کا شاعر فنا فی السیاست ہوتا ہے تو سیاست دان اور صحافی کو بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لیے شاعری کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جو کہ وہ نہیں ہوتا‘ اس لیے بھی کہ سیاست اور صحافت شاعری کی نسبت کہیں وسیع اور کُشادہ میدان ہے اور شاعری جیسے محدود موضوع کو وہ کیونکر منہ لگانا پسند کرے گا۔ چنانچہ شاعری پر سیاست اور صحافت کا غلبہ ہے جس سے شاعری نکلتی نظر نہیں آتی اور یہی وجہ ہے کہ شاعری کا گراف روز بروز نیچے جا رہا ہے‘ اس لیے بھی کہ یہ کام زیادہ آسان ہے کہ نثری نظم کے نام پر ایک مختصر سیاسی واقعہ بیان کر دیا جائے یا کسی ''بڑے‘‘ موضوع پر چند سطریں تحریر کر دی جائیں کیونکہ یہ آدمی کی فطرت ہے کہ وہ آسان کام کی طرف زیادہ مائل ہوتا اور مشکل کام سے گھبراتا ہے جبکہ آسان کام میں اس کا وقت اور محنت بھی کم لگتے ہیں‘جبکہ نثری چھوڑ‘ اب تو آزاد نظم کے بھی یہی مرغوب موضوعات ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر غالبؔ اور میرؔ کیوں بڑے شاعر شمار ہوتے ہیں اور ان کا طلسم آج تک کیوں قائم ہے ؛حالانکہ انہوں نے سیاسی شاعری نہیں کی۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ اور دیگر اساتذہ بھی غزل ہی کے بل بوتے پر زندہ چلے آ رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اس وقت میڈیا مفقود تھا ورنہ شاید وہ بھی سیاسی شاعری ہی کرتے اور اُن کا جو جادو آج حیران کُن حد تک ہمارے دل و دماغ پر چھایا ہُوا ہے ‘ اس کا کہیں نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ چنانچہ آج حالت یہ ہے کہ شاعری نے سیاست اور صحافت کے لیے جگہ خالی کردی ہے اور شاعری کی بجائے موضوع کا بول بالا ہے‘ وہ بھی شاعرانہ کم اور سیاست آمیز زیادہ۔
بیشک آج شاعری کے زوال پذیر ہونے کا احساس نہیں کیا جا رہا لیکن اس کا احساس ہو گا ضرور‘ اور اُس وقت ہو گا جب بہت سا نقصان ہو چکا ہو گا۔ شاعری جن جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہو چکی ہے وہ انسانی جبلّت ہی کے خلاف ہے۔ اور‘ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو شاعری کا سارا کام غزل ہی کو سنبھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ شاعری ان جذبات و احساسات کی ترجمانی نہیں کرتی جو فطری طور پر انسان کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں اور جنہیں ان سے جُدا نہیں کیا جا سکتا کہ انسانی جبلّت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
چنانچہ وہ وقت‘ زود یا بدیر‘ ضرور آئے گا جب شاعری کو اپنی چھینی ہوئی جگہ سیاست اور صحافت سے واگزار کرانی ہو گی اور وہ لطافتیں‘ نزاکتیں اورنفاستیں دوبارہ واپس آئیں گی جن سے شاعری کو محروم کر دیا گیا ہے اور شاعری محض ایک اخباری چیتھڑا ہو کر رہ گئی ہے۔ اصولی بات بھی یہ ہے کہ سیاستدان اپنا کام کریں‘ صحافی اپنے اور شاعروں کو اپنا کام کرنے دیں کیونکہ سیاسی اور صحافتی ضروریات شاعری کے بغیر بھی پوری ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور اس سلسلے کی آخری بات یہ کہ اگر نظم نثری ہے تو یہ پیرا گرافس میں کیونکہ نہیں لکھی جاتی کہ سطروں کو توڑ توڑ کر نثر نظم نہیں بنائی جا سکتی بلکہ یہ تو سراسر ایک دھوکا ہے۔ علاوہ ازیں نثری نظم محض بیانیہ نہیں ہوتی۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نثر اور نظم میں بنیادی کردار زبان کا ہے کیونکہ نظم یا شاعری میں زبان اور طرح سے استعمال ہوتی ہے اور نثر میں اور طرح سے۔ میں اب بھی نثری نظم کو مستقبل کی شاعری کہتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس میں شاعری بھی ہو۔ نیز نظم اور نثر کے ذائقے الگ الگ ہیں۔ اِنہیں الگ ہی رہنا چاہیے۔
آج کا مقطع
اب اس میں گردِ سفر کا قصور کیا ہے‘ ظفر
روانہ میں ہی اگر کارواں کے بعد ہوا