آج کراچی کے چڑیا گھر میں جشن کا سماں تھا۔ تمام جنگلی جانور اپنے اپنے پنجرے میں خوشی سے نعرے لگا رہے تھے۔ جب وجہ پوچھی گئی‘ تو پتہ چلا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اور کراچی کے میئر‘ دونوں ایک ساتھ چڑیا گھر میں تشریف لا رہے ہیں۔ جانوروں کی خوشی دیدنی تھی۔ انہوں نے برسوں تک قائم علی شاہ پر گزارا کیا تھا۔ جب بھی پھٹے پرانے وزیر اعلیٰ چڑیا گھر میں تشریف لاتے تو سہمے ہوئے جانور خوف زدگی اور بیزاری کی حالت میں ادھر ادھر چھپ جاتے۔ شاہ جی‘ چڑیا گھر کے معائنے پر نکلتے‘ تو کوئی بھی جانور انہیں دیکھنے کے لئے قطار میں نہ لگتا۔ بعض بدبخت تو ایسے تھے کہ جب چڑیا گھر میں بچے اپنے والدین کے ساتھ سیر کو آتے تو ان کے ساتھ کھیل کود میں شریک ہو کر خوب مزے کرتے۔ جیسے ہی پتہ چلا کہ وزیر اعلیٰ اور میئر‘ دونوں ایک ساتھ چڑیا گھر کے دورے پر آ رہے ہیں تو سب کے چہرے اتر گئے۔ ان کے خیال میں نیا وزیر اعلیٰ‘ پرانے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے زیادہ بوسیدہ ہو گا‘ لیکن نئے وزیر اعلیٰ نوجوان‘ قدآور اور صحت مند ہیں اور وہ ایک ہی سانس میں پورے چڑیا گھر کا کامیاب دورہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تو وزیر اعلیٰ کے پیچھے پیچھے ایک سٹریچر چلا کرتا تھا۔ کوئی بلند آواز میں وزیر اعلیٰ کے لئے دعائے خیرکرتے ہوئے التجا کرتا کہ ''اے خداوند! وزیر اعلیٰ زندہ سلامت واپس گھر چلے جائیں‘‘ تو جیسے ہی شاہ جی کے کان میں یہ آواز پڑتی‘ وہ چلتے چلتے اپنے قدم روک کر وہیں کھڑے ہو جاتے۔ ڈنڈ بیٹھک لگاتے۔ تھوڑی سی اچھل کود کرکے دکھاتے اور پھر پنجروں میں سہمے ہوئے جانوروں کی طرف دیکھ کر فاتحانہ قہقہہ لگاتے اور ان کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے‘ جیسے کہہ رہے ہوں ''دیکھ لو! میں چڑیا گھر سے زندہ سلامت واپس جا رہا ہوں‘‘۔ مگر نئے اور جواں سال وزیر اعلیٰ کو دیکھ کر سارے جانوروں نے جی بھر کے اچھل کود کی اور ایک دوسرے کو دکھایا کہ ''دیکھو! نوجوان وزیر اعلیٰ ایسا ہوتا ہے‘‘۔ بعض نے مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ سمجھا اور بعض نے میئر کراچی کو۔ کراچی کو کافی عرصے کے بعد ایک میئر ملا ہے‘ جو میئر کے سوا سب کچھ لگتا ہے اور قائم علی شاہ کو بطور وزیر اعلیٰ دیکھتے دیکھتے کراچی والوں کی نظریں اتنی عادی ہو گئی ہیں کہ انہیں اور کوئی جچتا ہی نہیں۔ کراچی والوں کے صبر کی داد دینا پڑتی ہے کہ آزادی کے بعد وہ شاہ جی کے اتنے عادی ہوئے کہ دوسرا کوئی وزیر اعلیٰ انہیں بھاتا ہی نہیں۔ سچی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ کی کار اور حفاظتی سکواڈ کے بغیر انہیں پُرہجوم سڑکیں نظر آتی ہیں‘ جن کے وہ عادی نہیں رہ گئے تھے۔ وزرائے اعلیٰ نکلتے ہی اس طرح ہیں جیسے کوئی جن ''آدم بو آدم بو‘‘ کہتا شہر میں نکلا ہو اور خلق خدا خوفزدہ ہو کر یوں روپوشی اختیار کرتی ہے‘ جیسے وزیر اعلیٰ انہیں کھا جائے گا۔ ان کا ڈر غلط بھی نہیں۔
لاہور کے ان شہریوں کو‘ جن کے پاس اپنی سواری نہیں ہوتی‘ ویگنوں‘ بسوں اور چنگ چی رکشوں کے سفر کی عادت پڑ چکی ہے۔ وہ اطمینان سے تیار ہو کر گھروں سے نکلتے۔ گزشتہ روز کے پہنے ہوئے میلے لباس کو زیب تن کرتے اور اللہ کا نام لے کر لبالب بھری ہوئی ویگن میں دھنس جاتے۔ جو زندہ سلامت رہتے‘ منزل تک جا پہنچتے اور جن کی ہمت راستے میں جواب دے جاتی‘ وہ ایمبولینس لے کر اپنی منزل پا لیتے۔ ہم پنجاب والوں کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف‘ شاہی مزاج کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہ جب بھی لاہور کے اندر کسی سڑک پر نکلتے ہیں تو سڑک سنسان ہو جاتی ہے۔ کرائے پر چلنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور اور کنڈکٹر عادی ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی وزیر اعلیٰ اپنے گھر سے نکلتے ہیں شہر کی ساری سڑکوں پر طرح طرح کی پولیس ''آدم بُو آدم بُو‘‘ کہتے ہوئے نکل کھڑی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ صرف وہی سڑکیں خالی کرائی جائیں‘ جن سے وزیر اعلیٰ کو گزرنا ہو۔ وزیر اعلیٰ کو کہیں بھی جانا ہو‘ سڑکیں پورے شہر کی خالی کرا لی جاتی ہیں۔ ہم لاہور والے اپنے وزیر اعلیٰ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ ان کی آمد کی افواہ بھی پھیل جائے تو شہر خالی ہو جاتا ہے۔ پورے اہتمام اور احتیاط کے ساتھ جب وزیر اعلیٰ سڑکوں پر آتے ہیں‘ تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے خالی ہو جاتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے شہر میں عام آبادی بالکل نہ رہتی ہو۔ ہم لاہور والے خاندان شریفیہ کی آمد و رفت کے راستوں سے اتنا واقف ہو چکے ہیں کہ جیسے ہی خطرے کا سائرن بجتا ہے‘ تمام راہگیر اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے بوکھلاہٹ کے عالم میں جس کا دروازہ دکھائی دے اس میں گھس جاتے ہیں۔ لاہور کے شہری بدحواسی کے عالم میں کسی غیر کے گھر میں گھس کر جوتے‘ تھپڑ اور لاتیں کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جا بجا رکی ہوئی ٹریفک سے بچ نکلنے میں جو کامیاب رہتے ہیں‘ انہیں ہر طرف سے مبارک سلامت کے الفاظ سنائی دیتے ہیں اور جو شہری جزوی طور پر اپنے حفاظتی انتظامات سے غافل ہوتا ہے‘ اسے غیرمعینہ مدت کے لئے سرکاری مہمان بنا کر حوالات میں لاتیں‘ ٹھڈے اور ڈنڈوں کی غذا ملتی ہے اور جب تک اس کے نصیب میں گھر کا کھانا دوبارہ نہیں ہوتا‘ تو وہ نفل پڑھ کر رہائی کی دعائیں مانگتا ہے۔ لاہور شہر پورے کا پورا زیرِ حراست رہتا ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ اور باقی ہر کشمیری کا شاہی خاندان سے رشتہ نکل آتا ہے۔ اس کے بعد آپ قیاس کر سکتے ہیں کہ ہم شاہی غیظ و غضب سے محفوظ رہ کر کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔
چند روز پہلے خدا جانے شاہی خاندان کے کس رکن کو غصہ آیا کہ ان تمام آرام دہ کاروں اور ٹیکسیوں‘ جن میں کوئی بھی تھرڈ کلاس شہری چند روپے دے کر سواری کر سکتا ہے‘ پر بندش لگا دی گئی ہے۔ ان سب کمپنیوں‘ جو ایک ٹیلیفون کال پر کاریں لوگوں کے گھروں کو پہنچا دیتی تھیں‘ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اب شہریوں کو اپنی اوقات کے مطابق ویگنوں‘ بسوں اور ایسی ٹیکسیوں پر سفر کرنا پڑتا ہے‘ جن میں ہارن کے سوا سب کچھ بجتا ہو۔
آج کل عام شہریوں کے لئے کھٹارا ٹیکسیاں اور مزید کھٹارا رکشے اور ان دونوں سے زیادہ کھٹارا ویگنیں اور بسیں سواری کے لئے دستیاب رہتی ہیں‘ لیکن ان سب میں ایک احتیاط کی جاتی ہے کہ جن سڑکوں سے شاہی سواری کو گزرنا ہو‘ انہیں صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک وہاں سے بچ کر نکلنا پڑتا ہے۔ لاہور کے شہریوں کو بہرحال سنسان سڑکوں کی تلاش رہتی ہے۔ جدھر سے عوام کے کسی محبوب لیڈر کو گزرنا ہو‘ وہ پچاس گز پہلے ہی کوئی رش بھری سڑک دیکھ کر‘ اس کی ٹریفک میں جا گھستے ہیں‘ تاکہ جو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ اور رش سے محفوظ ہوں‘ ان سے بچ کر نکل جائیں۔ اگر خالی سڑک پر کوئی شریف آدمی‘ پولیس کے ہاتھ لگ جائے‘ تو سنتری بادشاہ اسی پر اپنی تھکن اتارنے لگتا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ جیسے ہی شاہی خاندان کے کسی فرد کو خبر ملتی ہے کہ عام شہری کوئی اچھی کار کرائے پر لے کر سفر کر سکتا ہے‘ تو اس کی فوری اطلاع سرکاری میڈیا سل کو دے دی جاتی ہے‘ پھر جس کی جو قسمت۔ اگر جوابی کارروائی کے لئے اس کی قسمت میں دانیال عزیز لکھا ہے‘ تو سمجھ لیں کہ اسے شاہانہ عتاب کا ہدف بننے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ وہ گندی گلیوں اور بازاروں کے معروف القاب اور الفاظ کا حق دار ہو گیا۔ اب ذرا بچ کے نکلئے اور محنت کرکے معلوم کر لیجئے کہ کوئی ''میاں صاحب‘‘ سامنے والی سڑک پر تو نہیں آ رہے؟