تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-02-2017

یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا

حافظ سعید اور ان کی پارٹی پر عائد کی گئی پابندی خوش آئند ، دیر آید درست آید ۔ یہ بھی کہ سول اور فوجی قیادت میں اس پر ہم آہنگی ہے ۔ فیصلہ مگر حالات کے دبائو میں کیا گیا ۔ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ اس کی بنیاد نہیں ۔ کب تک ؟ کب تک اس طرح کام چلے گا ؟ 
یہ جامۂِ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے 
ایک عشرہ ہوتاہے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے سیمینار میں اچانک ایک مقرر نے اسامہ بن لادن کی مدح سرائی شروع کر دی ۔ تالیاں بجنے لگیں ، نعروں سے ہال گونج اٹھا۔ 
اللہ کا شکر ہے ،فیصلہ کیا، جو کرنا چاہیے تھا۔ عرض کیا تھا کہ اللہ کے آخری رسولؐ نے جنگ کی شرائط متعین کی ہیں ۔ درخت نہیں کاٹا جائے گا ، فصل نہیں جلائی جائے گی ۔ بوڑھے ، بچے اور عورت کو قتل نہ کیا جائے گا۔ کارخانے میں کام کرتے مزدور اور کھیت میں مصروفِ عمل کسان کو امان ہے ۔ایک آدھ احتجاجی آواز اٹھی ۔ دلیل مگر ایسی تھی کہ مزاحمت سہل نہ رہی ۔تھوڑا سا علم، ذرا سی جسارت۔ ہم کہاں کے دانا ہیں ۔ یہ کام تو علمائِ حق کو کرنا چاہیے ، وہ کہاں ہیں؟
حقائق کا سامنا اور فیصلہ صادر کرنا ہوتاہے ۔ زمانہ بدل گیا ۔ مکمل طور پہ مگر اب بھی نہیں بدلا ۔ پختون خوا میں تب متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت قائم تھی۔ طالبان پھل پھول رہے تھے ۔ جنرل مشرف کی وفاقی حکومت بے نیاز تھی ۔ حیلے بہانے سے مذہبی جماعتیں طالبان کی تائید کرتی رہیں ۔ مدارس کی رجسٹریشن سے انکار کر دیا گیا ۔ واعظ اور خطیب جہاد کے مفہوم و معانی سے نا آشنا‘ صرف جذبات بھڑکانے پر تلے رہے ۔ ایک ٹی وی مذاکرے کے وقفے میں جمعیت کے سینیٹر نے یہاں تک کہہ دیا کہ مارکیٹوں ، مزاروں اور امام بارگاہوں میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے والے دھماکے کراتے اور الزام طالبان پہ جڑ دیتے ہیں ۔ وہی صاحب ، جو خواتین سے الجھتے رہتے ہیں ۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن پر حملے ہوئے ۔ فضل الرحمٰن سے پاکستانی طالبان کے لیڈر نے تاوان طلب کیا۔تب انہوں نے فریاد کی کہ دہشت گرد اسلام آباد سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ۔ اس کے باوجود جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن نے حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ۔ اس کے باوجود عالم یہ تھا کہ 2009ء میں پاک فوج سوات میں آپریشن کرنے میں متامل تھی ۔ زرداری حکومت نے صوفی محمد سے معاہدہ کیا۔ ان کی شرائط قبول کر کے شرعی نظامِ عدل کا اعلان کر دیا۔ اب جلسۂ عام منعقد کر کے صوفی محمد نے اعلان کیا کہ پارلیمنٹ اور آئین کو وہ تسلیم نہیں کرتے ۔ 
ایک ٹاک شو میں ، طالبان کے ایک گرامی قدر استاد نے ، جو اب اس دنیا میں نہیں ، فخریہ طور پر یہ کہا : ملا عمر سرحدوں کو نہیں مانتے ۔آیتِ مبارکہ انہیں سنائی: ''وعدے پورے کیا کرو، وعدوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ‘‘ پاکستان اور افغانستان جب دو الگ ملک ہیں ۔ دو الگ حکومتیں تو ہر ایک کو عہد کی پاسداری کرنا ہوگی ۔ بات کچھ ان کی سمجھ میں آئی ، کچھ نہ آئی ۔ خاموش ہو گئے ۔ بعد ازاں ایک ساتھی کے ہمراہ جب وہ ان سے بات کرنے گئے تو پاکستانی طالبان کے ہاتھوں شہید ہو گئے ۔ 
سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا امین احسن اصلاحی ، ڈاکٹر حمید اللہ ، پروفیسر احمد رفیق اختر اور علامہ جاوید احمد غامدی ، سبھی اس پر متفق ہیں کہ جنگ کا اعلان فقط حکومت کر سکتی ہے ۔ صرف ایک متفقہ امیر کی قیادت میں جہاد جائز ہے ، جو متبادل نظام کی ضمانت دے سکے تو ہم اس پر غور کیوں نہیں کرتے ؟ سید صاحب کے بعض ماننے والے منحرف ہو گئے یا دو عملی کا شکار ۔ جمعیت علمائے اسلام کے لیڈر زبان سے کچھ ہی کہیں ، ان کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں ۔ مولانا فضل الرحمٰن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خاں شیرانی کھل کر طالبان کی مذمت سے گریز کرتے ہیں ۔ اس وقت بھی ، جب وہ درجنوں اور سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کو مار ڈالتے ہیں ۔
اتنی بے شمار قربانیوں کے باوجود ، سبق سیکھنے سے ہم نے انکار کیوں کردیا ہے ؟ ہم سبھی نے ۔ مولانا سمیع الحق کی مدد سے وزیرِ اعظم طالبان سے مذاکرات پہ مصر رہے ،تا آنکہ یہ ناممکن ہو گیا ۔ عمران خاں نے طالبان خان کہلوانا گوارا کر لیااور قاتلوں سے مکالمے پر اصرار کرتے رہے ۔ افواجِ پاکستان کی قیادت تماشا دیکھتی رہی ۔ یہاں تک کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے کمسن طلبہ بموں اور گولیوں سے اڑا دئیے گئے۔ شش و پنج کا وہ شکار تھی ۔ فضل الرحمٰن ، سمیع الحق، عمران خان ، منور حسن اور دیگر نے قوم کو آپریشن کے خلاف بھڑکا دیا تھا۔ کہا جاتا کہ یہ کرایے کی فوج ہے ۔ ذرائع ابلاغ اب بھی حافظ سعید کا موقف نشر کرنے پہ بضد رہتے ہیں ۔ 
موضوع اس قدر تفصیل طلب ہے کہ کالم میں نمٹ نہیں سکتا ۔ دو نکات بالکل واضح ہیں ۔ اوّل یہ کہ جہاد کا مطلب فقط قتال نہیں ۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اس نکتے کو آشکار کرنے کی کوشش کی ۔ مولانا محمد علی جوہر کی خواہش پر 1920ء کے عشرے میں لکھی گئی کتاب ''الجہاد فی الاسلام ‘‘ بعد ازاں اپنی تفسیر تفہیم القرآن اور دوسری کتب میں بھی ۔ جماعتِ اسلامی کے آخری سالانہ اجتماع میں ، سید منور حسن کو میں نے کہتے سنا ''قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام کرنا ہوگا‘‘۔ حکیم اللہ محسود والے بیان کے کچھ عرصہ بعد پارٹی کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی کے ووٹروں نے انہیں مسترد کر دیا۔اس کے باوجود وہ مدعو کیے گئے ۔ غیر محتاط اظہارِ خیال کا موقع انہیں دیا گیا ۔ 
قتال سے زیادہ جہاد‘ کردار اور افکار کی تطہیر ہے ۔جہاد پر قرآن کریم کی 28آیات میں سے 20کا تعلق ذاتی اصلاح سے ہے۔ ایک معرکے سے آپ ؐ واپس آرہے تھے ۔ مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے آپؐ نے فرمایا: جہادِ اصغر سے اب ہم جہادِ اکبر کی طرف جاتے ہیں ۔ 
ثانیاً یہ کہ ایک آزاد اسلامی ملک میں ، جنگ کا تمام تر انحصار حکومت پر ہوگا ۔ آزاد مسلّح گروہوں اور لشکروں کوبروئے کار آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ حکومتِ پاکستان اور اس کی افواج اس جرم کی مرتکب ہوئیں اور اب اس کی سزا بھگت رہی ہیں ۔ افغانستان سے روسیوں کی واپسی کے بعد حکمتِ عملی بدل جانی چاہیے تھی ۔ سید علی گیلانی کی نشاندہی کے بعد دو اقدامات لازم تھے ۔مولانا فضل الرحمٰن کو کشمیر کمیٹی سے الگ کیا جاتا اور حافظ سعید کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاتی۔ مساجد اور مدارس میں کوئی بھی کچھ بھی کہنے کے لیے آزاد ہے ۔ سچی بات بھی وہی کہتے ہیں اور غلط بھی ۔ جو اجر و ثواب پر آمادہ کرتے ہیں ، وہی جنون اور جذباتیت کو ہوا دیتے ہیں ۔ یہ فرمان کسی کو یاد نہیں کہ جب الجھ جائو تو راسخون فی العلم سے رجوع کرو ۔ 
بھانت بھانت کی بولیاں ہیں ۔ فرقہ واریت ہے ، جذبات ہیں ، حسنِ کردار سے محروم واعظوں کے ٹولے ہیں ۔ دین کے نام پر دنیا طلبی ہے اور حبّ ِ جاہ۔ عام لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں او رفیصلہ کرنے والے خوف زدہ ۔ اپنی سیاسی ترجیحات اور لوٹ کھسوٹ کے لیے وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور بعض اوقات تو گٹھ جوڑ بھی ۔ 
حافظ سعید اور ان کی پارٹی پر عائد کی گئی پابندی خوش آئند ، دیر آید درست آید ۔ یہ بھی کہ سول اور فوجی قیادت میں اس پر ہم آہنگی ہے ۔ فیصلہ مگر حالات کے دبائو میں کیا گیا ۔ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ اس کی بنیاد نہیں ۔ کب تک ؟ کب تک اس طرح کام چلے گا ؟ 
یہ جامۂِ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved