تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-02-2017

الکپون، جان گوٹی، پاناما کیس اور خواجہ عبداللہ

ایمانداری کی بات ہے کم از کم میرے لیے یہ بات بڑی حیرانی کی موجب ہے کہ عدالت عمران خان اینڈ کمپنی سے یہ پوچھے کہ ان کے پاس لندن میں موجود میاں صاحب کی آل اولاد سے منسوب پراپرٹی کے دو نمبر ہونے کا کیا ثبوت ہے۔ میں اس بات پر متعجب ہوں کہ مالی بدعنوانی اور ناجائز دولت اور اثاثوں کے بارے میں ثبوب ملزم کے بجائے مدعی سے مانگے جائیں۔ یہ کہنا کہ بار ثبوت مدعی پر ہوتا ہے مالی معاملات پر لاگو نہیں ہوتا۔ ناجائز اثاثوں، جائیداد اور دولت پر نہیں ہوتا کہ اس سلسلے میں صفائی دینا اور اپنی بریت کے ثبوت فراہم کرنا ملزم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ہاں فوجداری معاملات کا معاملہ مختلف ہے۔ جب کسی پر قتل کا الزام لگتا ہے تو اسے قاتل ثابت کرنے کے لیے مدعی پارٹی ثبوت فراہم کرتی ہے۔ وجہ عناد، وجہ واردات، گواہ، موقع واردات کے ثبوت اور اسی قسم کی دیگر چیزیں ثابت کرنا اور فراہم کرنا مدعی پارٹی کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے بھی۔ لیکن مالی معاملات کے سلسلے میں حقائق بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اگر کسی سرکاری افسر‘ سیاستدان یا ریاست کے کسی بھی شہری کے گھر سے، بینک اکاؤنٹ یا کسی کی ملکیتی کسی بھی جگہ سے غیر معمولی ملکی یا غیر ملکی کرنسی، سونا یا جواہرات وغیرہ برآمد ہو جائیں تو ان کی ملکیت کا جائز ثبوت، ملکیت کے لیے استعمال ہونے و الے ذریعہ آمدنی کی تفصیل اور ثبوت فراہم کرنا ملزم کی ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ مدعی یا متعلقہ محکمے کی۔ اسی طرح کسی شخص کے ظاہر کردہ ذریعہ آمدنی اور اداکردہ ٹیکس کی نسبت سے زیادہ جائیداد اور املاک کی تفتیش شروع ہو تو مدعی سے یہ سوال نہیں ہوتا کہ آپ ثابت کریں کہ یہ جائیداد ناجائز پیسے سے بنائی گئی ہے کہ ایسا ثبوت فراہم کرنا کسی طور ممکن نہیں ‘البتہ یہ ذمہ داری ملزم کی ہوتی ہے کہ وہ اس جائیداد کی ملکیت کو جائز ثابت کرنے کے لیے اپنا ذریعہ آمدنی بتائے، اپنی آمدنی اور متعلقہ جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کے درمیان منی ٹریل فراہم کرے اور ثابت کرے کہ اس نے یہ جائیداد اپنی جائز آمدنی سے بنائی ہے۔ اگر وہ منی ٹریل، ذریعہ آمدنی اور اداکردہ ٹیکس وغیرہ سے اس جائیداد کی ملکیت کے لیے استعمال ہونے والی دولت کا حساب نہ دے سکے تو وہ مجرم ہے۔
دنیا بھر میں ناجائز آمدنی سے خریدی گئی جائیداد ‘جمع کی گئی دولت، بینک اکاؤنٹ میں رکھی رقم، لاکرز میں چھپائی گئی دولت خواہ کسی بھی صورت میں ہو اور بیرون ملک بینکوں میں بھجوائی گئی رقم اور خریدی گئی پراپرٹی‘ یہ سب مالی بدعنوانی کے زمرے میں آتی ہیں اور دنیا بھر میں حکومتیں اس سلسلے میں بار ثبوت ملزم کے سر ڈالتی ہیں۔ امریکہ وغیرہ میں مالی معاملات میں صفائی دینا ہر حال میں ملزم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں دو بڑی مثالیں امریکی نظام انصاف میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
الکپون شکاگو کا ''ڈان‘‘ تھا۔ الکپون کا پورا نام الفانسے گبریل کپون تھا۔ الکپون 1899ء میں نیویارک کی بروکلین بورو میں پیدا ہوا۔ نسلی اعتبار سے اٹالین الکپون بعدازاں شکاگو شفٹ ہو گیا اور وہاں جرائم کی دنیا میں آگے بڑھتے بڑھتے شہر میں ہونے والے تقریباً ہر نا جائز دھندے کا ''دادا‘‘ بن گیا۔ جوئے خانے، شراب اور منشیات کی فراہمی، غنڈوں کی سرپرستی، قاتلوں کی پشت پناہی اور بھتہ خوری... غرض کیا تھا جو اس کی زیرِ نگرانی اور سرپرستی میں نہیں ہوتا تھا۔ وہ ایک مکمل گینگسٹر تھا۔ پورے شکاگو کا مافیا چیف۔ اس کے اثر و رسوخ کا یہ عالم تھا کہ تب شکاگو کا میئر ولیم ہیل تھامپسن اور شہر کی پولیس بھی اسے مکمل تحفظ فراہم کرتی تھی۔ وہ اپنی ناجائز کمائی میں سے اچھی خاصی رقم بڑی دریا دلی سے غریبوں میں تقسیم کرتا تھا‘ فلاحی کاموں میں خرچ کرتا تھا اور بھلائی کے لیے کام کرنے والے اداروں کو خیرات دیتا تھا۔ اس کی اس سخاوت کی بنیاد پر لوگ اسے ''ماڈرن رابن ہڈ‘‘ بھی کہتے تھے۔ سب کچھ بظاہر ٹھیک جا رہا تھا لیکن یہ سب کچھ اوپر سے ہی ٹھیک تھا۔ سرکار اسے اس کے جرائم کے سلسلے میں گرفتار کرنا چاہتی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کون فراہم کرے؟ فوجداری معاملات میں بار ثبوت مدعی یا سرکار کے ذمہ تھے اور یہی اصل مسئلہ تھا کہ اس کے خلاف ثبوت نہیں ملتے تھے۔ گواہ اس کے خوف سے گواہی نہیں دیتے تھے۔
اسی دوران یہ ہوا کہ شکاگو میں ''سینٹ ویلنٹائن ڈے‘‘ پر شہر کے بندوق بردار دو گینگز میں تصادم ہو گیا اور دن دیہاڑے سات لوگ مارے گئے۔ بڑا شور شرابا ہوا اور حکومت پر الکپون کے خلاف کارروائی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ تاہم مسئلہ وہی تھا کہ گواہی کون دے؟ بالآخر حکومت نے الکپون کے مالی معاملات کے نگران ''اوہیئر‘‘ کو اس کے خلاف استعمال کیا اور اس کی خفیہ دولت کی تفصیلات حاصل کر لیں۔ اب بار ثبوت الکپون پر آن پڑا۔ اس سے اس دولت کی ''منی ٹریل‘‘ طلب کی گئی۔ ٹیکس کی تفصیلات مانگی گئیں۔ الکپون اپنی دولت کی نہ تو جائز ذرائع سے منی ٹریل ثابت کر سکا نہ ہی ٹیکس کی ادائیگی کے مساوی اپنی جائیداد اور دولت کا جائز ہونا ثابت کر سکا۔ اسے گیارہ سال کی سزا ہوئی۔ اپیل سپریم کورٹ سے مسترد ہوئی اور اسے فیڈرل جیل بھجوا دیا گیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد اس کے مالی معاملات کے نگران ''اوہیئر‘‘ کو قتل کر دیا گیا۔ یہ ایک علیحدہ داستان ہے جس کا فی الحال اس کالم سے کوئی تعلق نہیں۔
دوسرا کیس نیویارک کے آخری مافیا چیف اور ڈان ''جان گوٹی‘‘ (John Gotti)تھا۔ 1940ء میں نیویارک کی برونکس بورو میں پیدا ہونے والا جان گوٹی نیویارک کا آخری روائتی ڈان تھا۔ قتل و غارت، جوئے خانے، چوری، قحبہ خانے، منشیات سپلائی، غنڈوں کا ریکٹ چلانے اور بھتہ خوری کی سرپرستی کرنے والی اٹلی کی ''گمبینو فیملی‘‘ کے باس جان گوٹی کے خلاف بھی کوئی شخص گواہی دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بے شمار جرائم میں ملوث ہونے اور اس کی ہر کہانی میں پس پردہ نظر آنے والے جان گوٹی کے خلاف استغاثہ کے لیے کوئی جرم ثابت کرنا اور ثبوت فراہم کرنا ممکن نہیں تھا‘ لہٰذا انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ‘اس کو ٹیکس چوری میں گھیرنے کا منصوبہ بنایا۔ ایسے جرم میں کیونکر صفائی دینا ملزم کی ذمہ داری ہوتی ہے ‘لہٰذا سرکار کو اب صرف یہ کرنا تھا کہ وہ اس کی ناجائز دولت یا جائیداد کا سراغ لگائے اور اس سے اس دولت اور جائیداد کا حساب مانگے یعنی اس سے اس ساری دولت اور جائیداد کی ''رسیدیں‘‘ مانگے۔ وہاں کسی نے نہیں کہا کہ منی ٹریل اور ناجائز اثاثوں کا ثبوت سرکار فراہم کرے۔ وہاں اس ساری دولت اور جائیداد کا حساب جان گوٹی سے مانگا گیا کہ وہ ثابت کرے کہ اس نے اپنی جتنی آمدنی پر ٹیکس دیا ہے یہ جائیداد اور دولت اس آمدنی سے مطابقت رکھتی 
ہے۔ ظاہر ہے جان گوٹی کے لیے اپنی ٹیکس شدہ آمدنی اور دولت میں توازن ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔ امریکہ میں جرائم کی دنیا کی تاریخ کے چند طاقتور ترین اور خطرناک ترین سربراہوں میں سے ایک جان گوٹی کو ٹیکس چوری کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ 1992 ء میں جان گوٹی پر پانچ قتل بھی ثابت ہو گئے۔ تاہم اگر وہ جیل سے باہر ہوتا تو ان جرائم کو ثابت کرنا مشکل ہوتا کہ بار ثبوت استغاثہ پر تھا اور استغاثہ کے لیے اسے ثابت کرنا ممکن نہ ہوتا لیکن مالی معاملات میں بار صفائی کیونکہ ملزم پر تھا اور جان گوٹی اپنی صفائی ثابت نہ کر سکا۔ اسے بعدازاں قتل کے جرم میں ٹرائل کیا گیا اور ایک بے شناخت جیوری کے ذریعے سزا سنائی گئی۔ 1992ء میں جیل جانے والا جان گوٹی جیل میں دس سال گزارنے کے بعد دس جون 2002 ء کو امریکی ریاست مسوری کی سپرنگفیلڈ جیل میں انتقال کرگیا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی نیویارک میں جرائم کے طویل باب کا اختتام ہو گیا۔
لندن میں پراپرٹی کیسے خریدی گئی؟ رقم کہاں سے آئی؟ پیسے لندن کیسے پہنچے؟ بینکوں سے لین دین کیسے ہوا؟ آف شور کمپنیاں کس پیسے سے بنیں اور پیسہ کس نے ٹرانسفر کیا؟ پیسہ بینک کے ذریعے گیا یا ہنڈی کے ذریعے؟ جس سال رقم باہر بھیجی گئی اس سال بھیجنے والے نے ٹیکس کتنا دیا اور باہر بھجوائی جانے والی رقم کتنی تھی؟ یہ سب کچھ ثابت کرنا مدعی یا استغاثے کا کام نہیں۔ صفائی دینا، ثبوت فراہم کرنا اور منی ٹریل ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔ دنیا بھر میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہاں کیا ہوتا ہے؟ بقول خواجہ عبداللہ: ''یہ پاکستان ہے ‘یہاں کچھ بھی ہو سکتا۔ کوئی بندہ کسی وقت کچھ بھی بن سکتا ہے۔‘‘ خواجہ عبداللہ کی بات میں بڑا وزن ہے اور اس کا قول بے شمار مرتبہ سچ ثابت ہو چکا ہے۔ اس بار بھی لگتا ہے خواجہ عبداللہ کی پیش گوئی ہی چلے گی۔
٭٭٭

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved