تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     02-02-2017

سامراجی سفاکیت کے چہرے سے سرکتا نقاب!

حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی دو اہم کیفیتوں کی غمازی کرتی ہے۔ پہلی یہ کہ موجودہ امریکی جمہوری نظام میں اب اتنی گنجائش بھی نہیں رہی کہ وہ کوئی ایسا متبادل پیش کر سکے جو وہاں کے عوام کو کسی قسم کی سنجیدہ اصلاحات اور زندگیوں میں بہتری کا کوئی حقیقی پروگرام ہی دے سکے۔ دوسری یہ کہ امریکہ میں عوام کی حالت اب اس قدر ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے کہ وہ ان معاشی اور سماجی عذابوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کسی انتہا سے بھی توقعات وابستہ کرنے پر مجبور سے ہو گئے ہیں۔ امریکی ریاست کا اقتصادی بحران اتنا شدید ہو چکا ہے کہ اس میں عوام کی بہتری کی صلاحیت ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ٹرمپ وہی اقدامات کر رہا ہے جن کا انتہا پسندانہ اظہار اس نے اپنی انتخابی مہم میں کیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر قومی شائونزم اور حب الوطنی کے جنون کو ابھار کر اس زوال پذیر نظام کے تسلط اور حاکمیت کو جاری رکھنے کی پالیسی ہے۔ ٹرمپ نے دہشت گردی کو جس طرح ''اسلامو فوبیا‘‘ سے جوڑا اور اس مذہبی تضاد کو ابھارا ہے‘ اس میں پہلے سے بحران زدہ صورتحال میں کسی استحکام کی بجائے مزید خلفشار کا انجام نظرآرہا ہے۔ سات مسلمان اکثریت والے ممالک‘ جن میں سوڈان، یمن، ایران، عراق، شام، صومالیہ اور لیبیا شامل ہیں، کے تمام افراد کی امریکہ میں آمد پر 120 دن کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اگلی لسٹ میں پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب زیر غور ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آبائی اور قدیمی طور پر امریکی قوم اس سرزمین کی باسی نہیں تھی‘ بلکہ یہ تو تقریباً پوری قوم ہی تارکینِ وطن پر مشتمل ہے‘ جو یورپ اور دنیا کے دوسرے ممالک سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔
دہشت گردی میں ڈوبی یہ ریاستیں بنیادی طور پر اسی بحران کی بگڑی ہوئی شکلیں بن گئی ہیں‘ جس کا سامنا امریکی معاشرے کو کسی دوسرے انداز میں ہے۔ ان پالیسیوں سے جس مذہبی اور نسل پرستانہ تقسیم اور تعصبات کو پھیلانا مقصود ہے اس سے ٹرمپ کی مقبولیت امریکی سفید فام آبادی کی کچھ پرتوں میں عارضی اور مصنوعی ہی رہے گی‘ لیکن اس کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ جہاں دہشت گردی سے امریکی عوام کو مزید خوفزدہ کرکے نفسیاتی اور سماجی طور پر مطیع بنانا ہے، وہاں اس تعصب کو بھی ہوا دی جا رہی ہے کہ یہ غیر ملکی اور غیر سفید فام نسلوں اور رنگوں کے مزدور ان کی نوکریاں خطرے میں ڈال رہے ہیں یا پھر وہ کم اجرتوں پر ان سے نوکریاں چھین رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لئے اس نسلی اور قومی تضاد کو بیروزگاری کی سب سے بڑی وجہ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہی رجحان ہمیں یورپ میں ابھرتی ہوئی قوم پرستی کی صورت میں بھی نظر آرہا ہے‘ لیکن جس حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے‘ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اس میں مزید روزگار پیدا کرنے کی اہلیت ختم ہو رہی ہے۔ امریکی محنت کشوں سے نوکریاں بیرون ملکی مزدور نہیں چھین رہے بلکہ یہ سرمایہ داری ہے جو شرح منافع کی خاطر انسانی محنت پر منحصر (Labour Intensive) سرمایہ کاری کی بجائے مشینوں اور ربورٹس کے ذریعے(Capital Intensive) پیداوار کی طرف مائل ہے۔ اس نظام میں ٹیکنالوجی انسانی زندگی کو سہل کرنے کی بجائے بیروزگاری کا باعث بن رہی ہے۔
دوسری جانب امریکی ریاست دنیا کی انتہائی مقروض ریاست بن چکی ہے اور پنشن سے لے کر علاج تک کی سہولیات پر ہونے والے پہلے سے معمولی ریاستی اخراجات کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں آج ''تارکین وطن‘‘ مزدوروں سے ہر حق چھینا جا رہا ہے تو یہ سلسلہ سفید فام مزدوروں پر آ کر رکنے والا نہیں ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں ٹرمپ کی رجعتی بڑھک بازی اور اقدامات سے اس نظام کی ٹوٹ پھوٹ رکے گی نہیں بلکہ مزید شدت ہی اختیار کرے گی۔ یہی پالیسی ہمیں اس کی خارجہ پالیسیوں میں ملتی ہے۔ جہاں وہ روس سے کسی سمجھوتے کے لیے امریکہ کے فوجی اخراجات میں کٹوتیاں کرنا چاہتا ہے وہاں چین کی برآمدات پر ٹیکس لگا کر تجارتی جنگ کو شدید کرے گا۔ گلوبلائزیشن میں تحفظاتی قومی معیشت (State Protectionism) کی پالیسی ہمارے ایک ساتھی الیاس خان کے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ''جہالت کا کوہ ہمالیہ‘‘ ہے۔ عالمگیریت یا گلوبلائزیشن پر مبنی عالمی معیشت سرمایہ داری کے استحصال اور منڈیوں کو پھیلا کر شرح منافع میں اضافے پر مبنی تھی‘ لیکن اب ٹرمپ 19ویں صدی کی ریاستی تحفظ والی سرمایہ داری کی طرف لوٹنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں ریاست ''اپنے سرمایہ دار‘‘ کو تحفظ فراہم کرتی تھی۔ اس سے یہ نظام مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گا۔ چین کی معیشت خود تنزلی کا شکار ہے، امریکہ کی منڈی اس کو درکار ہے۔ یورپ اور امریکہ کی منڈی کے بغیر چینی سرمایہ داری تیزی سے گراوٹ شکا ر ہو گی‘ لیکن امریکہ کے چینی مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے خود ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر سخت دھچکا لگے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی یہ حیثیت ہی کھو بیٹھے۔ 
عالمی جنگیں تجارتی جنگوں سے ہی شروع ہوئی تھیں۔ سامراجی طاقتوں کے فوجی اور جوہری توازن کی وجہ سے کوئی تیسری عالمی جنگ تو برپا نہیں ہو سکتی لیکن اگر ہم غور کریں تو دنیا بھر میں معاشی، اقتصادی اور فوجی تصادم جاری ہیں۔ کہیں ریاستی دہشت گردی جاری ہے، کہیں ریاستوں کی براہ راست جنگوں کی بجائے پراکسی جنگیں جاری ہیں۔ پوری دنیا میں شدید عدم استحکام، بیزاری اور بربادیاں جاری ہیں۔ اس میں ٹرمپ جیسے قوم پرست اور نسل پرست رہنمائوں کی پالیسیاں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔
امریکی حکمران طبقات کے پاس ٹرمپ کا متبادل کون تھا؟ ہلری کلنٹن، جس نے وزیر خارجہ کے طور پر لیبیا، عراق اور شام کو برباد کیا۔ بنیاد پرست تنظیموں کے ذریعے پراکسی جنگوں کا سلسلہ وسیع کیا۔ اور پھر آج جس اسلامی دہشت گردی کا واویلا کیا جا رہا ہے اس کو جنم دینے والا بھی کیا امریکی سامراج نہیں تھا؟ 1956ء میں ''جنگ سویز‘‘ میں سامراج کی شکست کے بعد صدر آئزن ہاور کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈیلس نے ہی مصر میں جدید اسلامی بنیاد پرستی کی بنیادیں رکھی تھیں۔ کمیونسٹوں کے خلاف پراکسی کے طور پر اس وحشت کو افغانستان، پاکستان، شام، انڈونیشیا اور دوسرے کئی مسلمان آبادی والے ممالک میں پروان چڑھایا گیا۔ اس غارت گری میں بائیں بازو کے طلبہ اور محنت کش کارکنان کا قتل عام کیا جاتا رہا اور امریکی سامراج ان کو فوجی اور مالی امداد سے نوازتا رہا۔ انڈونیشیا میں 10 لاکھ کمیونسٹوں کا قتل عام کیا گیا۔ جب یہ قوتیں امریکی 'امداد‘ میں کٹوتیوں یا نئے آقا میسر آ جانے پر برہم ہو کر قابو سے باہر ہو گئیں تو اسی ان کے خلاف ایک محاذ کھول کر ایک طرف دنیا بھر میں جارحیتوں کا بازار گرم کیا گیا تو دوسری طرف دہشت گردی کا خوف ابھار کر مغربی ممالک کے محنت کشوں سے جمہوری حقوق، سہولیات اور رعایات چھیننے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ 
آج اسی ''فوبیا‘‘ (ڈر) کی انتہا کرکے سرمایہ داری اپنا گلا سڑا وجود دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے‘ لیکن دنیا بھر کی طرح امریکہ میں بھی حکمران طبقے کے پاس کسی بہتری اور ترقی کے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں نوجوانوں اور کسی حد تک محنت کشوں نے پچھلے سالوں میں کئی تحریکیں چلائی ہیں۔ آکوپائی وال سٹریٹ سے لے کر برنی سینڈرز کی 'جمہوری سوشلزم‘ پر مبنی انتخابی مہم کے گرد لاکھوں لوگ متحرک ہوئے تھے۔ آج پھر امریکہ اور دنیا بھر میں ٹرمپ کی ان رجعتی پالیسیوں کے خلاف احتجاجوں کا طوفان امڈ آیا ہے جو آنے والے دنوں میں کسی دیوہیکل تحریک کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کا دبائو پہلے ہی سامراجی ریاست کے ایوانوں میں شدید دبائو اور تنائو پیدا کر رہا ہے۔ یہ ممکن ہے ٹرمپ کو برطرف کر دیا جائے‘ لیکن چہروں کے بدلنے سے نظام تو نہیں بدلتے! لیکن موجودہ ٹرمپ مخالف تحریک کو اس نظام کے خاتمے سے جوڑنا ہو گا جو ٹرمپ جیسے رجحانات کی جڑ ہے۔ ٹرمپ اسی نظام کا ایک نمائندہ ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ دنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجا ہو کر کرنا ہو گا!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved