عوام کو طبّی سہولتوں کی فراہمی میں تاخیر قبول نہیں: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کو طبّی سہولتوں کی فراہمی میں تاخیر قبول نہیں‘‘ تاہم تاخیر بیشک ہوتی رہے‘ ہم اسے قبول نہیں کریں گے‘ اگر طبّی سہولتیں موجود اور دستیاب ہی نہیں تو ان میں تاخیرکہاں سے ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے‘‘ لیکن جب دوسری ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے تو یہ کہاں سے پوری ہو گی۔ اسے ریاست کی ذمہ داری سمجھنا اور قبول کرنا اور بات ہے کہ یہ توفیق صرف خدا داد ہے، ہمارے جیسے عاجز بندے کی کیا حیثیت ہے جو پہلے ہی چین سے نہیں بیٹھتا، بلکہ کھڑے کھڑے اور لیٹے لیٹے بھی بے چینی کی حالت میں رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جنوبی پنجاب کی ترقی کے لیے اربوں روپے کے مزید وسائل دیں گے‘‘ اگرچہ ملتان میں موٹر وے کے قیام سے ان کی تمام تر ضروریات خود ہی پوری ہوجائیں گی۔ تاہم فی الحال تو ہم حکومتی خرچے پورے کرنے کے لیے پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کا تیل مہنگا کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
مُلک سے کرپشن کے خاتمے کا سہرا
وزیر اعظم کے سر ہے:صدیق الفاروق
چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ صدیق الفاروق نے کہا ہے کہ ''ملک سے کرپشن کے خاتمہ کا سہرا نوازشریف کے سر ہے‘‘ اور یہ جو بارہ سو ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے‘ اسے ہم کرپشن نہیں سمجھتے بلکہ وزیر اعظم صاحب تو اسے بالکل ہی کرپشن نہیں سمجھتے اور اگر ان کے نیچے چند اہلکار کرپشن کر بھی رہے ہیں تو وہ گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں اورکبھی بخشے نہیں جائیں گے، حتیٰ کہ وزیر اعظم جیسے جتی ستی کی دعائوں سے بھی نہیں بخشے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم نواز شریف نے ملک کو روشنیوں اور خوشحالی کی جانب گامزن کر دیا ‘‘ اگرچہ اس کے منزل تک پہنچنے میں چند صدیاں ضرور لگ جائیں گی کیونکہ فاصلہ کافی زیادہ ہے‘ تاہم ہمیں یقین ہے کہ قیامت سے پہلے پہلے یہ کام ضرور ہو جائے گا، اگرچہ صاحب موصوف کو اپنی خوشحالی میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگی جو ان کی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے اور جس کے ثبوت سپریم کورٹ میں بھی دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم نے عوامی خدمت کی نئی مثالیں قائم کی ہیں‘‘ اگرچہ پچھلے دور میں پیپلز پارٹی والوں کی بھی مساعیٔ جمیلہ اس سلسلے میں ایک مثال ہیں؛ تاہم وزیر اعظم نے عوامی خدمت کے تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں حتیٰ کہ ان ٹوٹے ہوئے ریکارڈز کو رکھنے کے لیے جگہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آج ملک میں شفافیت کا راج ہے‘‘ اور اگر شفافیت کا راج نہ ہوتا تو یہ جو آئے دن اربوں کے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں‘ پوشیدہ ہی رہتے۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف ہرمیدان کے فاتح ہیں‘‘ جبکہ سب سے پہلے انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد تجارت کے میدان میں فتح حاصل کر کے سب کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا بلکہ ساتھ ہی کئی بیرون ملکی بینک بھی فتح کر کے دکھا دیے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم سب کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے سوچنا ہے‘‘ اگر اس کام کے لیے وزیر اعظم خود ہی کافی ہیں کیونکہ وہ غور و خوض اور سوچ بچار کے بھی تمام میدان فتح کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''غلطی کو مان لینا بڑا پن ہے‘‘ جبکہ غلطی کو نہ ماننا اس سے بھی بڑا پن ہے اور صاحبِ موصوف اس بڑے پن کا مظاہرہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''انسان کے اعضاء اس کے اعمالوں کا حساب دیں گے‘‘ اور ٹھیک ٹھاک حساب دیں گے یعنی منی ٹریل کو پویشدہ نہیں رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''غلطی کو نہ ماننا اور اس پر اڑے رہنا جہالت ہے‘‘ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کے علم و فضل کی کوئی اور مثال نہیں دی جا سکتی۔ آپ اگلے روز پاکستان ماڈل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن فائونڈیشن کے زیر اہتمام بورڈ کے زیر انتظام چار سکولوں کے بچوں کے درمیان کوئز مقابلے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
پروفیسر مظفر بخاری
بخاری صاحب کا 20 ستمبر 2016ء کا لکھا ہوا گرامی نامہ میں نے ایک طرف ڈال رکھا تھا اور کالم میں اس لیے شامل نہیں کیا تھا کہ اس میں میری تعریف کا پہلو نکلتا تھا۔ لیکن اس کے ہمراہ ان کی ایک تازہ غزل بھی تھی جس کی شان نزول اس خط سے ہی معلوم کی جا سکتی تھی۔ چنانچہ دونوں پیش خدمت ہیں: مکرمی جناب ظفر اقبال صاحب‘ تسلیمات! میری طرف سے گزشتہ عید کی مباکباد قبول فرمائیے۔ کافی عرصے سے آپ سے رابطہ منقطع ہے۔ میں نے ایک مدت سے شاعری ترک کررکھی تھی۔ ایک ناخوشگوار واقعے سے مشتعل ہو کر آپ کے کلام کی طرف توجہ کی تاکہ میں آپ کے کلام کا تمسخر اُڑا کر اپنا غصّہ ٹھنڈا کرسکوں، لیکن میرے ساتھ وہی ہوا کہ نمازیں بخشوانے گئے تھے روزے بھی گلے پڑ گئے۔ ہولے ہولے میں آپ کے کلام کے سحر میں گرفتار ہوتا گیا۔ میں آپ سے اس قدر انسپائر ہوا کہ میرے اندر کا شاعر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا؛ چنانچہ میں نے بہت سے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ اشعار کہہ ڈالے۔ پچھلے ماہ میں نے آپ کے سٹائل میں آپ سے انسپائر ہو کر ایک غزل لکھی جو اس صفحے کی پشت پر درج ہے۔ اس غزل کا مطلع مجھ سے نہیں بن سکا۔ اس کی خوبیوں یا خامیوں کا مجھے کچھ پتا نہیں، آپ بہتر بتا سکتے ہیں۔ نیاز مند‘ مظفر بخاری
کچھ نیا ڈالا ہے میں نے
کچھ پرانا چل رہا ہے
کام دھیلے کا نہیں‘ پر
کارخانہ چل رہا ہے
نفرتیں دل میں ہیں لیکن
آنا جانا چل رہا ہے
فی سبیل اللہ بشر کا
خون بہانا چل رہا ہے
دل نہیں سینے میں پھر بھی
دل لگانا چل رہا ہے
شاہی مسجد کے برابر
ناچ گانا چل رہا ہے
حکمراں اور قومی خدمت
کیا بہانہ چل رہا ہے
ہر طرف اندھیر نگری
کیا زمانہ چل رہا ہے
عشق پہلے سا نہیں ہے
درمیانہ چل رہا ہے
در گروہِ سوگواراں
خوب کھانا چل رہا ہے
عہدِ شُوماں میں بھی اپنا
آب و دانہ چل رہا ہے
مدتیں گزریں ابھی تک
آزمانا چل رہا ہے
آج کا مقطع
عمر بھر دیکھا کئے اندر کے ہنگامے‘ ظفر
آج کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کوئی باہر بھی تھا