تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-02-2017

آزادی

جی ہاں آزادی! ہر انسان کا حق اور سب سے بڑی نعمت۔ اس کا مگر ایک مطالبہ ہے، ڈسپلن اور نظم۔ نظم قبول کرنے سے جو معاشرے انکار کرتے ہیں، انارکی اور طوائف الملوکی کا وہ شکار ہوتے ہیں... غلامی کی تمہید!ع
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے 
اصول ایک ہے، عدل۔ باقی سب فروعات۔ ابدلآباد سے آدم زاد اس بات سے خوب واقف ہے۔ امریکہ سے مراسم ہوں یا حافظ سعید کا مسئلہ۔ پاناما لیکس ہیں یا ڈان لیکس۔ عمران خان اور میاں محمد نواز شریف کا تنازعہ ہو یا کچھ اور۔ دیکھا یہ جائے گا کہ کس کا موقف درست ہے اور کس کا ناقص۔ اختلاف بجا کہ اللہ کے آخری رسولؐ نے اپنی امت کے اختلافِ رائے کو رحمت قرار دیا تھا۔ بالاتری مگر آئین اور دستور کی ہے، کسی شخص اور ادارے کی نہیں۔
کتنے ماہ بیت چکے، وزیرِ داخلہ نے ڈان لیکس پر تین چار دن کے اندر فیصلہ صادر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پھر ایک کمیٹی بنا دی گئی۔ طوعاً کرہاً قبول کر لی گئی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کہاں ہے؟ معاملے کو کیا اس لیے موخر کیا جا رہا ہے کہ اخباری برادری کا دبائو ہے؟ اگر نہیں تو فیصلہ آ کیوں نہیں چکتا؟ ملزم معصوم ہیں تو ان کی بے گناہی کا اعلان کیا جائے۔ شواہد دکھائے اور دلائل سامنے لائے جائیں۔ قانون اور ملک سے بے وفائی کے مرتکب ہیں تو سزا کا اعلان کیا جائے۔ نرمی برتی جا سکتی ہے‘ اگر قصوروار اپنے قصور کا اعتراف کریں۔ قانون کو پسِ پشت کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟ عسکری قیادت سمیت یہ حق کسی کو نہیں کہ ذمہ دار ثابت ہونے پر بھی انہیں معاف کرے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وقت انہیں معاف نہیں کرے گا۔
جرم تب پنپتا ہے، مجرم جب بے خوف ہو جائیں۔ عالی جنابؐ کا یہ قول ہر روز دہرایا جاتا ہے کہ وہ اقوام تباہ ہو گئیں، اپنے طاقتوروں کو جو معاف کرتی اور کمزوروں کو سزا دیا کرتی تھیں۔ فیصلے کا وقت آئے تو ہم منہ پھیر لیتے ہیں۔ یہیں تو امتحان ہوتا ہے۔ 
امریکہ یا بھارت نہیں، اس افراتفری اور بے یقینی کے ہم خود ذمہ دار ہیں، جو اکثر کو خوف اور بعض کو ہیجان میں مبتلا کرتی ہے۔ اپنی بے اصولی کے سبب۔ عدل پر قائم نہ رہنے اور اپنے طاقتوروں کو لگام نہ ڈالنے کے سبب۔ ہوتے ہوتے تھانیدار بھی خدا ہو گئے۔ میڈیا اگر نہ ہو تو پھاڑ ہی کھائیں۔ 
پاناما لیکس پر مباحثہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ فیصلہ عدالت میں ہونا چاہیے یا سڑکوں اور گلیوں پر؟ چیخ و پکار کرنے والوں کو روک کیوں نہیں دیا جاتا؟ شیخ رشید کبھی میاں محمد نواز شریف کے نفسِ ناطقہ تھے۔ ان کے ایما پر پیپلز پارٹی کی خاتون قائد اور سفید بالوں والے نواب زادہ نصراللہ خان سمیت ہر ایک کے خلاف بازاری زبان میں طعنہ زنی کیا کرتے۔ آئے دن عدالتِ عظمیٰ کے سامنے اعلان کرتے ہیں کہ فیصلہ چند روز میں ہو جائے گا۔ انہیں یہ حق کس نے دیا ہے؟ 
وقت کسی کی مٹھی میں نہیں، زمانہ دائم کسی پہ مہربان نہیں رہتا۔ خدا نہیں‘ مگر وہ خدا کی سب سے زیادہ طاقتور تخلیق ہے۔ اپنی سمت حالات کا دھارا خود طے کرتا ہے۔ پہلے چیف جسٹس سبکدوش ہو گئے اور سبکدوشی سے قبل ہی تھکن کا شکار۔ اب جسٹس عظمت سعید کو علالت نے آ لیا۔ فیصلے کے دن کا تعین کوئی نہیں کر سکتا۔ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام 
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے 
ایک ایک پہلو پر ججوں نے غور کیا ہے۔ ایک ایک چیز پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ایسی ریاضت انہوں نے کی ہے کہ ملک کی تاریخ میں کم ہی مثال ہو گی۔ فیصلہ صادر ہونے کے بعد اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اب؟ اب یہ جسارت رانا ثناء اللہ نے کیسے کی کہ جن اداروں نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا تھا، ایک بار پھر وہ گٹھ جوڑ کر چکے۔ ثبوت ان کے پاس کیا ہے؟ خدشات پر حکم نہیں لگایا جاتا۔ اندازوں اور اندیشوں پر موقف اختیار نہیں کیے جاتے۔ کوئی لیڈر ان سے پوچھتا کیوں نہیں؟ نہیں تو ایسی ہی آوازیں جواب میں اٹھیں گی۔ مل جل کر سب لوگ دستور کو اور بھی پامال کر دیں گے، اور بھی خستہ حال، اور بھی کمزور۔ پھر اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کتنی بار ہم سب بھگت چکے۔ کیا ایک بار پھر بھگتنے کی آرزو ہے؟
حکمرانی میاں محمد نواز شریف کی نہیں۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات کوئی ہو نہیں سکتی کہ احتساب کا حق عوام کا ہے۔ عوام کا نہیں، عدالت کا ہے۔ اپنے دائرہ کار میں حکومت آزاد ہے اور آئین اس کا تعین کرتا ہے‘ پالیسیوں کی تشکیل پارلیمان میں ہو گی‘ فیصلے کابینہ کرے، کاروبار حکومت جس کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ قیادت وزیرِ اعظم فرمائیں۔ انتظامی صوابدید ان کی ہے۔ افسر شاہی اور پولیس کو ذاتی ملازم وہ بہرحال نہیں بنا سکتے۔ بنائیں گے تو ردّعمل بھی ہو گا۔ 
اپنی حدود میں فوج بھی آزاد ہے۔ خارجہ پالیسی کا رخ وہ مرتب نہیں کر سکتی۔ اپنا موقف بیان کر سکتی اور اپنا تجزیہ دے سکتی ہے۔ ترجیحات طے کرنا وزارتِ خارجہ کا کام ہے۔ ایک وزیرِ خارجہ اور اس کے ساتھ سرگرمِ عمل، تربیت یافتہ سفارت کاروں کی ٹیم۔ وزارتِ خارجہ وزیرِ اعظم نے اپنی جیب میں کیوں رکھ چھوڑی ہے؟ جہاں دیدہ سرتاج عزیز ہی کو ذمہ دار بنا دیں۔ ایران، افغانستان، عالمِ عرب، یورپی یونین، بھارت اور انکل سام کے ساتھ مراسم کی نوعت کا تعین آخرکار ایوانِ وزیرِ اعظم میں ہو مگر مشاورت کے ساتھ۔ تنہا فیصلے کرنے کا اختیار کسی کو نہیں۔ ساری عنایات وہ قطر کے شاہی خاندان پر کریں۔ سارے ٹھیکے چین اور ترکی کی کمپنیوں کو ملیں۔ بے شک وہ ہمارے دوست ہیں اور بے شک ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ ان کا احترام بھی واجب اور ان کی محبت بھی برحق۔ یہ مگر کاروبار ہے، کاروبار۔ یہ ملکوں اور قوموں کے تعلقات ہیں۔ اسلام آباد پشاور موٹر وے میں ترک کمپنی نے کیا کیا تھا؟ سینڈک میں سونے کے ذخائر پر چین کا طرزِ عمل کیسا تھا؟ صرف ایک چیز ملحوظ رکھی جائے گی۔ ملک کا مفاد، جو موجود رہے گا، لیڈر سب چلے جائیں گے۔ 
وزیرِ اعظم من مانی کریں گے تو فوج بھی کرے گی۔ وہ ان سے کئی گنا زیادہ مقبول اور طاقتور ہے۔ عرض کیا تھا کہ وہ پیچھے ہٹے ہیں تو مہلت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ سول اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ اس کی بجائے خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ شعلے اگلنے لگے۔ خواجہ صاحب نے تو عدالتِ عظمیٰ کو ''انتباہ‘‘ کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ رانا صاحب نے فوج ہی پر چڑھ دوڑنے کی کوشش کی۔ 
کوئی چیز اپنی جگہ پر نہیں۔ میڈیا محتسب ہو گیا ہے۔ اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتا۔ اظہار کی آزادی اخبار نویسوں کا حق ہے مگر کیا بھارت اور امریکہ کی بولی بولنا بھی؟ افواہیں پھیلانا بھی؟ جی ہاں، مقدس گائے کوئی نہیں۔ پہاڑ جیسی غلطیاں عساکر نے کی ہیں۔ نشان دہی کی جائے اور ضرورت ہو تو احتجاج بھی۔ مگر کیا آپ کو ملک کے راز فاش کرنے کا حق بھی ہے؟ ہمیں ہلاک کرنے پر تلے ہوئے دشمن کی ہاں میں ہاں ملانے کا؟ کسی ایک سرزمین، کسی ایک قوم کی مثال دیجیے، دنیا میں اور کہاں یہ ہوتا ہے؟ یہاں دشمن کے ترانے گائے جاتے ہیں۔ الزام تراشے جاتے ہیں۔ پھر اندیشہ جنم لے تو افواج کے حق میں جلوس نکالے جاتے ہیں۔ کس لیے؟ 
سیاچن، وزیرستان، بلوچستان اور کراچی میں اپنے لہو سے ہمیشہ زندہ رہنے والی کہانیاں انہوں نے لکھ دی ہیں۔ ساری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ کم از کم اسّی فیصد لوگ۔ سروے نے بتایا کہ 62 فیصد سندھی سیاستدانوں پر فوج کو ترجیح دیتے ہیں۔ آئینہ تو دیکھو، تمہارا چہرہ کیسا ہے؟ پلٹ کر خلق سے پوچھو کہ تمہارے بارے میں وہ کہتی کیا ہے۔ 
جی ہاں آزادی! ہر انسان کا حق اور سب سے بڑی نعمت۔ اس کا مگر ایک مطالبہ ہے، ڈسپلن اور نظم۔ نظم قبول کرنے سے جو معاشرے انکار کر تے ہیں، انارکی اور طوائف الملوکی کا وہ شکار ہوتے ہیں... غلامی کی تمہید!ع
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved