تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     03-02-2017

دہشت گردی کیخلاف جنگ اور پاکستان

حافظ محمد سعید اور اُن کے ساتھیوں کی نظربندی نیا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار اس آزمائش سے گزر چکے اور ہر بار عدم ثبوت کی بنا پر عدالتوں کے ذریعے باعزت بری ہو چکے ہیں۔ اب بھی بعض حلقوں کی طرف سے اُن کی نظربندی کو بلاجواز قرار دے کر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر اُن کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے اور اُس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے۔ ابھی یہ بحث شروع ہی ہوئی تھی کہ 31 جنوری کو آئی ایس پی آر کے نئے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس میں اس موضوع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ حافظ سعید کی نظربندی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے جسے ملک کے تمام اداروں کی تائید حاصل ہے‘ کیونکہ یہ فیصلہ قومی مفاد میں لیا گیا ہے۔ اس بیان کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ فیصلہ عجلت میں نہیں بلکہ ریاست کے مختلف اداروں کے مابین صلاح مشورے کے ایسے عمل کے بعد کیا گیا ہے‘ جس میں کئی دن صرف ہوئے ہوں گے۔ جماعت الدعوۃ اور اس نوع کی دوسری تنظیموں کے خلاف اقدامات کا مطالبہ اوباما حکومت کی طرف سے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران میں امریکی محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) اور وائٹ ہائوس کے ترجمانوں کی بریفنگ کا جائزہ لے لیجئے۔ ہر بریفنگ میں پاکستان پر نہ صرف اپنے ہاں تمام دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کے لیے زور دیا گیا‘ بلکہ یہ بھی پُرزور مطالبہ کیا جاتا رہا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے روکے۔ خود پاکستان کے اندر سے ایسی آوازیں اور آرا واضح طور پر اُبھر کر سامنے آ رہی تھیں جن میں عوام اور حکومت دونوں کو خبردار کیا جا رہا تھا کہ بعض تنظیموں کا ایجنڈے قومی مفاد اور سلامتی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس ایجنڈے پر عملدرآمد سے مُلک اور قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا‘ اُلٹا امیج خراب اور قومی مفاد مجروح ہو گا۔
مُلک میں ایک نمائندہ جمہوری اور منتخب حکومت کے قیام کے بعد اُن کی کارروائیوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا کیونکہ خارجہ تعلقات کے شعبہ میں پالیسی اور اقدامات کا اختیار صرف ریاست اور حکومت کو حاصل ہے۔ کسی اور شخص یا تنظیم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے قومی سلامتی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ملک کے تعلقات خطرے میں پڑیں۔ حافظ سعید صاحب کی نظربندی اور اُس پر آئی ایس پی آر کے تبصرے سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ نیشنل سکیورٹی خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں حکومت اور اُس کے اداروں کی سوچ اور حکمت عملی پر حقیقت پسندی کا رنگ غالب آتا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان شعبوں میں موجودہ پالیسی سابق پالیسیوں کا تسلسل ہے‘ لیکن درست سمت کی طرف پیش قدمی خوش آئند اقدام ہے‘ جس کے قومی مفاد پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے ایک عرصہ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں دشمن کو شکست دینے کے لیے مربوط‘ جامع اور طویل المیعاد بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے‘ جس میں ریاست کے تمام اداروں کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں کراچی اور بلوچستان کی صورتِ حال پر ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری عسکری قیادت اس رائے سے اتفاق کرتی ہے۔ مثلاً بلوچستان‘ جہاں اگرچہ حالات پوری طرح نارمل نہیں بلکہ بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے؛ تاہم چند برس بیشتر کے مقابلے میں صورتِ حال کافی بہتر ہیں‘ میں حالیہ کامیابیوں میں ایف سی‘ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے علاوہ سول سوسائٹی‘ صوبائی 
حکومت اور میڈیا کے کردار کو بھی اہم قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی میں امن و امان کی بحالی اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی میں رینجرز کو پولیس اور صوبائی حکومت کی طرف سے جو مدد اور تعاون حاصل ہوتا رہا ہے‘ اُس کی تعریف کی گئی ہے‘ بلکہ اس جنگ میں جو ابھی ختم نہیں ہوئی‘ مزید کامیابیوں کے حصول کے لیے تمام اداروں کے مابین تعاون اور ربط پر زور دیا گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں بعض ایسے ایشوز پر تبصرہ کرنے سے احتزاز‘ جو خالصتاً دوسرے اداروں مثلاً وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں‘ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ملک کے مقتدر حلقوں میں اب یہ سوچ راسخ ہوتی جا رہی ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو نہ صرف آئین اور جمہوری نظام کے تحت دیے گئے اختیارات کے دائرے کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے‘ بلکہ اُن کے درمیان تعاون ربط اور باہمی احترام دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح افغانستان کے بارے میں جو ریمارکس پیش کئے گئے اُن کے بھی بغور مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی پالیسی ایک درست ٹریک پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مثلاً افغان حکومت اور اُن عناصر کو‘ جو کسی کی شہ پر پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتے ہیں‘ ایک دوسرے سے الگ پیش کرتے ہوئے‘ اوّل الذکر کے ساتھ تعاون کی پیشکش کی گئی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطے کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کی طرف سے اس سمت میں مزید اقدامات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے‘ جن میں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست رابطے بھی شامل ہیں تاکہ دونوں ملک نہ صرف اپنی سرحدوں پر بلکہ پورے خطے میں امن اور سلامتی کی خاطر آپس میں تعاون کر سکیں۔ 
پاکستان کے اندر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک فعال اور موثر پالیسی کی ضرورت تو صاف عیاں ہے۔ ملک کے اردگرد خطوں میں جو نئے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور خصوصاً عالمی سیاسی اُفق پر جو نئے خطرات منڈلا رہے ہیں اُن کے پیش نظر ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اس ضمن میں اپنی پالیسی کا جائزہ لے اور بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق اُس میں تبدیلیاں کریِ۔ یہ اس لیے بھی لازمی ہے کہ پاکستان ایشیا کے تین بڑے خطوں یعنی جنوبی‘ وسطی اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اور جہاں ان خطوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہمارے اندرونی سیاسی معاملات متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے‘ وہاں ہماری اندرونی صورتِ حال سے باہر کی دُنیا بے اعتنا نہیں رہ سکتی۔ آج کل کی دنیا میں‘ جو گلوبلائزیشن کے زیر اثر ایک گائوں میں سمٹ چکی ہے‘ کسی بھی ملک کی اندرونی صورتِ حال اُس ملک کا خالصتاً اندرونی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایسی صورتِ حال میں جہاں سرحدوں کے پار نان سٹیٹ ایکٹرز کو اپنی مرضی کے ایجنڈے پر عملدرآمد کی سہولیات میسر ہوں عالمی برادری خاموش اور الگ تھلگ نہیں رہ سکتی۔ اس لیے کہ موجودہ عالمی نظام‘ جس میں قوموں اور ملکوں کے ایک دوسرے پر انحصار میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کے امن اور استحکام کی
ذمہ داری سب ملکوں پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ احساس تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ ایک ذمہ دار اور مثبت سوچ کے حامل ملک کی حیثیت سے ہم نہ صرف عالمی برادری میں بلکہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر زیادہ مفید اور بارآور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال چین اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعاون اور سرمایہ کاری پر مبنی اکنامک کوریڈور کی تعمیر کا منصوبہ ہے‘ جو اگرچہ بنیادی طور پر دو ملکوں یعنی پاکستان اور چین کے درمیان معاہدے کی پیداوار ہے؛ تاہم اس کے ممکنہ ثمرات کو دیکھتے ہوئے جس تیزی کے ساتھ اردگرد کے خطوں سے تعلق رکھنے والے ممالک اس سے منسلک ہونے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں‘ اُس سے نہ صرف اس منصوبے کی افادیت اور اہمیت واضح ہو رہی ہے بلکہ اس کی کامیابی میں پاکستان کا اہم کردار بھی کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کی واحد ضمانت علاقائی امن اور استحکام ہے جس کا حصول پاکستان کی پالیسی اور علاقائی سٹریٹیجی کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اُس نے عالمی سیاست اور معیشت میں موجودہ استحکام ایک پُرامن اور باہمی تعاون پر مبنی علاقائی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو کر حاصل کیا ہے۔ ایک مخلص اور آزمائے ہوئے دوست ملک کی حیثیت سے چین نے پاکستان کو بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ ایسے عناصر‘ جن کی سرگرمیوں سے علاقائی امن خطرے میں پڑے‘ کو اُن کے عزائم سے روکنا بہت ضروری ہے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی یہ پہلی پریس کانفرنس تھی۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُنہوں نے بڑے جچے تُلے‘ احتیاط سے چنے ہوئے‘ مختصر لیکن بامعنی الفاظ میں پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اداروں کے مابین تعاون اور سول ملٹری تعلقات کے بارے میں فوج کے موقف کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اب ان مسائل کے بارے میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں رہی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved