تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     03-02-2017

پتھر بندھے ہوئے

شیخ سعدی ؒ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ایک بستی سے گزرے جہاں پر کچھ کتے ان کی طرف لپکے۔ شیخ سعدیؒ نے اس اجنبی بستی میں پتھر اُٹھا کر کتوں پر پھینکنے کی کوشش کی ۔ تو پتھر نے زمین کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ شیخ سعدی اس موقع پر متعجب ہو کر کہنے لگے عجیب بستی ہے کہ کتے کھلے ہوئے اورپتھر بندھے ہوئے ہیں۔ 
سرزمین پاکستان بھی آج کل شیخ سعدی ؒ کے اس واقعہ کا منظر پیش کر تی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اسلام اور پاکستا ن سے محبت کرنے والے افراد کی پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کا عمل جاری ہے۔ جب کہ اس کے مدمقابل اسلام ،پاکستان،اللہ اور اس کے رسولﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ اس طرز عمل کی وجہ سے پورے ملک میں بے چینی اور تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے۔ 30 جنوری کو جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کو بغیر کسی ایف آئی آر کے گرفتار کر لیا گیا۔ حافظ محمد سعید کے جرائم کیا ہیں اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1 : زلزلوں کے دوران پاکستانی عوام کی خدمت اورا ن کی بحالی کی جدوجہد کرنا بلکہ سرکاری اداروں سے قبل اپنے کارکنان کو زلزلہ زدہ علاقوں میں پہنچانااور حکومتی اداروں سے بڑھ کر عوام کے دکھ میں شریک ہونا۔
2 : سیلاب کے دوران حافظ سعید صاحب کے کارکنان کا اپنی جانوں پہ کھیل کر عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بچانا اور اس دوران بہتے ہوئے پانی کے ریلوں میں تھپیڑے کھاتے ہوئے لوگوں کو سیلاب کے دھاروں سے نکال کر خیمہ بستیاں بساکر ان کے خورونوش کا بندوبست کرنا۔
3 :دو قومی نظریے کے خلاف ہونے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔
4 : پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف فرزندان توحید اور پاکستانی قوم کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرنا۔
5 : مظلوم کشمیری، فلسطینی ،برمی اور شامی مسلمانوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ رہنا، ان کی حمایت میں آواز کو بلند کرنااور ان کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنا۔
6 : دفاع پاکستان کونسل تشکیل دے کر مختلف اور مخالف نظریات کی حامل جماعتوں کو پاکستان کے دفاع کے لئے ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرنا۔
7: تحریک آزادی جموں وکشمیر بنا کر کشمیریوں کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنا۔
8: رسول اللہ ﷺکی ناموس پر حملہ کرنے والوں ، آپ ﷺکے خاکے بنانے والے گستاخوں کے خلاف ''تحریک حرمت رسول ﷺ‘‘ کو منظم کرنا۔
9: بلوچستان میں پاکستان کے مخالف کھڑے ہونے والوں کو حب الوطنی کا سبق دینے کے لئے بلوچستان جا کھڑے ہونا اور شاہ زین بگٹی اور دیگر بلوچ رہنماؤں کو اپنے ساتھ سٹیجوں پہ کھڑاکر کے ان کوپاکستان کی محبت کا سبق دینا اور پنجابی اوربلوچوں کی باہم محبت کے مناظر دکھا کے پنجابی بلوچی جھگڑے مٹانے کی کوشش کرنا۔
10: تھرپارکر اور بلوچستان کے پسماندہ لوگوں کی بحالی کے لیے کوشش کرنا۔ تھر اور بلوچی مسلمانوں اور ہندوئوں کے لیے کنوئیں کھدوانا اور ان کے درمیان سامان خورونوش کو تقسیم کرنا۔
11: ملک بھر میں مدارس اور مساجد کے ایک بڑے نیٹ ورک کو قائم کرنا۔ 
12: معیاری اسلامی کتب اور لٹریچر کی نشرواشاعت کے لیے ''دارالاندلس‘‘ کو قائم کرنا۔ 
13: ملک کے غریب عوام جو ملک میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں اورجن کی صحت تعلیم اور معاش کے مسائل کو ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ان کی بحالی اور معاونت کے لیے ملک بھر میں ہسپتال ،فری ڈسپنسریاں اور ایمبولینسز کانظام قائم کرنا ۔اسی طرح غریب عوام کے لیے سستی تعلیم کو فراہم کرنے کے لیے مدارس ، سکولوں اور کالجوں کو قائم کرنا۔ اسی طرح یتامیٰ، بیواؤں اور غربا کے لیے ماہانہ وظائف کا نظام قائم کرنا۔ 
حافظ محمد سعید کے ان کارہائے نمایاں پر ان کو تمغہ ٔ امتیاز یا تمغہ حسن کارکردگی ملنا چاہیے۔ لیکن ان کو ان کے گھر میں نظر بند کرکے عین ان ایام میں ان کے عوام سے رابطے کو کاٹ دیا گیا جب وہ کشمیری عوام کی بحالی اور آزادی کے لیے تحریک چلا رہے تھے اور 2017ء کو کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے طور پر بسر کرنے کے لیے آمادہ وتیار ہو چکے تھے۔ 
اس کے بالمقابل چند ہفتے قبل بعض ایسے شر پسند عناصر کو گرفتار کیا گیا جو آئین ، قانون، اخلاقیات، اسلام اور رواداری کی تمام سرحدوں کو پھلانگ چکے تھے۔ آزادی ٔ اظہار اور حریت فکر کی آڑ لے کر محسن انسانیت نبیء کریم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے میں مصروف تھے اور ستم بالا ئے ستم یہ کہ خالق ومالک کائنات کے خلاف بھی فیس بک اوردیگر سوشل بلاگز پر توہین آمیز مواد لکھنے میں مصروف تھے۔ ان شر پسند اور نفرتوں کے اسیر عناصر کو سنگین نوعیت کے جرائم کے ارتکاب کے باوجود بعض لا دین عناصر کے احتجاج پر رہا کر دیا گیا اور مذہبی طبقات کے صدائے احتجاج بلند کرنے کے باوجود نہ تو ان پر کسی مقدمے کو درج کیا گیا اور نہ ہی ان کے خلاف آئین اور قانون کے تقاضوں کو پورا کیا گیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق نفرت اور بداخلاقی کے ان پیکروں میں سے بعض لوگوں کو ملک سے فرار ہونے کا موقع بھی مل چکا ہے۔ 
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے جہاں پر ہر شخص کو اپنی مرضی کی مذہبی اورسیاسی فکر رکھنے کی مکمل آزادی ہے لیکن اس کے
ساتھ ساتھ پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام مہذب معاشروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اپنے مذہبی نقطہ ٔ نظر کی آڑ لے کر کسی دوسرے مذہب کی توہین کرنا یا کسی مقدس شخصیت کی اہانت کرنا کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہے۔ حریت فکر اور آزادی ٔ اظہار کے لیے ہر صورت ایک ضابطۂ اخلاق ہونا چاہیے۔ اگر ضابطۂ اخلاق موجود نہ ہو تو قومی ادارے، اعلیٰ عدالتوں اور معزز انسانوں کی عزت و ناموس پر آنچ آ سکتی ہے اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ قومی ادارے، اعلیٰ عدالتوں اور اہم شخصیات کا احترام اور وقار جمع ہو کر بھی حضرت رسولﷺ کی عزت اور ناموس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے جو شخص بھی آپﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرے ایسے شخص کے خلاف آئین پاکستان کے مطابق 295C کے تحت توہین رسالت کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ لیکن یہ دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کی بعض اہم شخصیات اور عہدیداروں نے ماضی میں بھی حضرت رسولﷺ کی شان اقدس کے تحفظ کے لیے بنائے جانے والے قوانین کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دئیے ۔ جس کے نتیجے میں ماضی میں ایک دو بڑے حادثات رونما ہوئے اور ریاست اور مذہبی طبقات کے درمیان ایک خلیج کی کیفیت پیدا ہوئی۔ ماضی میں امریکہ اور اہل مغرب
نے ریمنڈ ڈیوس کے غیر قانونی اقدامات اور پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود اس کو پاکستان سے فرار ہونے کا موقع دیا اور حکومت پاکستان اس معاملے میں بالکل بے بس اور بے حس نظر آئی۔ لیکن اس مرتبہ اس سے کہیں بڑھ کر مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا اظہار کیا گیا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے والوں کو ملک سے فرار ہونے کی مکمل سہولت فراہم کی گئی۔ 
ریاست نے اگر اپنے کردار کو نہ بدلا اور اس قسم کے لوگوں سے قانون کے مطابق سلوک نہ کیا تو ریاست میں امن و امان کو قائم رکھنا اور بقائے باہمی کے تحت مختلف نقطہ نظر کے حامل افراد کے درمیان ہم آہنگی کا برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ ریاست اور حکومت کو اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ اسلام اور پاکستان کے خدمت گار لوگ جیلوں اور اداروں کی تحویل میں جب کہ پاکستان اور اسلام کے دشمن سرعام دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر ملک میں کوئی کشیدگی، افراتفری، نفرت یا فساد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری صرف اورصرف مذہبی عناصر پر عائد نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ریاست کے اہم ذمہ داران، حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کو بھی جوابدہ ہونا پڑے گا۔ 
نوٹ: یہ تحریر ملک میں ہونے والی ایک پیش رفت پر کالم نگار کی ذاتی رائے ہے۔ کوئی صاحب اگر اس کا جواب دینا اور اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیں تو ہمارے صفحات حاضر ہیں۔ (ادارہ) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved