تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     04-02-2017

نیو یارک کی گلیوں میں پھیری لگانے والی کا بیٹا

ولیم پیٹر بلیٹی (William Peter Blatty) 89 سال کی عمر پا کر چل بسے ہیں۔ اْن سے زیادہ ان کی تخلیق مشہور تھی۔ وہ 1973ء کی فلم ایگزارسسٹ (Exorcist) کے خالق تھے‘ جو انہوں نے طالب علمی کے زمانے میں لکھی تھی۔ وہ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نیو یارک شہر سے واشنگٹن منتقل ہوئے تھے‘ اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلہ لیا‘ جہاں ایک استاد نے انہیں ناول کا خیال دیا تھا۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری لے کر باہر نکلے تو مصنف اور ہدایت کار کی حیثیت سے ہالی ووڈ کے ایک کمرے پر قابض تھے۔ انہوں نے متعدد ناول لکھے‘ مگر ایگزارسسٹ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ شیخ حامد محمود واشنگٹن آئے تو یہ فلم ان کے ذہن پر سوار تھی‘ حالانکہ وہ فلمیں دیکھنے سے پرہیز کرتے تھے۔ ایک شام انہیں بلیکیز میں بیف سٹیک کی دعوت دی تو بولے: تم مجھے ایگزارسسٹ دکھا لاؤ‘ جو بلیکیز کے بازو میں لگی ہوئی ہے‘ یوں بھی مجھے ریڈ میٹ پسند نہیں‘ دل کی تکلیف ہے ناں اس لیے۔ اتنے میں مواحد حسین شاہ اور مشاہد حسین سید آ پہنچے۔ دونوں بھائی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں قانون کا مطالعہ کر رہے تھے۔ دونوں بھائی پاکستان واپس گئے تو بالترتیب پنجاب اور مرکز میں وزارتیں پائیں۔ وہ یہ جان کر خوش ہوئے کہ بلیٹی کچھ عرصہ پہلے تک انہی کے کالج میں پڑھتے تھے۔ بلاشبہ وہ فلم کی مقبولیت کے بارے میں جانتے تھے۔ دریں اثنا پرو فیسر رفیق محمود بھی آ گئے‘ جو سفارت خانے میں ایجوکیشن کونسلر اور لاہور کے دو بھائیوں کے مستقل میزبان تھے۔ پچھلے دنوں پاکستان میں انتقال کر گئے۔ میری رہائش آرلنگٹن میں تھی‘ جو پوٹامک کے پار ایک چھوٹی سی کاؤنٹی ہے۔ یوں یہ قافلہ فلم دیکھنے کے لئے واشنگٹن روانہ ہوا‘ جس کا سینما گھر دو ڈھائی میل دور تھا۔
بلیٹی کے والد‘ بیوی اور پانچ بچوں کو چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے۔ ماں نے کیتھولک عقیدے کے مطابق بلیٹی کی‘ جنہیں وہ پیار سے بل کہتی تھیں‘ پرورش کی اور انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالحکومت بھیجا۔ بلیٹی نے سکول سے کالج تک تعلیمی وظیفہ پایا۔ کچھ عرصہ پہلے وہ ہالی ووڈ سے قومی دارالحکومت واپس آ گئے تھے‘ جہاں بالآخر خون کے سرطان میں مبتلا رہنے کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ ان کی تحریروں میں عقیدے کا انعکاس ملتا ہے‘ مگر عصبیت کا تاثر نہیں بنتا۔ ان کو ایگزارسسٹ کا سکرین پلے لکھنے پر اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ بہترین فلم کا ایوارڈ گولڈن گلوب نے دیا‘ اور دوسرے اعزازات کے ساتھ نوازے گئے۔ بلیٹی کی اپنی کہانی دلچسپ ہے۔ وہ لبنان سے ہجرت کرنے والے ایک غریب کنبے میں شامل تھے۔ باپ اپنے بال بچوں کو چھوڑ گیا‘ تو ماں اس کے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے گھر میں بنی چٹنی (جیلی) بیچتی تھی اور اس مقصد کے لئے مین ہیٹن کے گلی کوچوں میں پھیری لگاتی تھی۔ ایک بار انہوں اس جیلی کی ایک بوتل صدر فر ینکلن روز ویلٹ کو پیش کی‘ جب وہ کوئنز اور مین ہیٹن کے مابین ایک سرنگ کا افتتاح کر رہے تھے۔
فلم میں بڑا کردار (ریگن) لنڈا بلیئر نے ادا کیا‘ جو اس زمانے میں 15 سال کی تھیں‘ اور جن کے سر پر کسی بھوت پریت کا سایہ تھا (فلم میں)۔ یہ کہانی تقریباً ہر مذہب کے رکھوالے سناتے ہیں۔ بلیٹی کو یہ افسانہ اس کے استاد نے سنایا تھا‘ جو ادب پڑھانے کے ساتھ مسیحیت کے ایک فرقے کے نمائندگی بھی کرتا تھا۔ یہ باوقار تعلیمی ادارہ اسی فرقے نے قائم کیا تھا۔ امریکہ میں اس فرقے کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بکثرت ہیں۔ فلم میں جب جن لڑکی کو چمٹتا (چمبڑتا) تو اس کی آواز میں مردانہ (بھاری) پن آ جاتا ہے۔ غشی کی حالت میں اس کی آنکھیں باہر آ جاتی ہیں اور اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں دو تین پادری بے بسی سے جوان سال خاتون کو تکتے ہیں‘ اور اسے اس عذاب سے نجات دلانے کے جتن کرنے لگتے ہیں۔
میں نے یہ کہانی بچپن میں سنی تھی۔ میری کہانی کی ہیروئن ایک مسلمان لڑکی تھی‘ جسے والدین نے علاج کے لئے سرشام بالمیکیوں کے ایک گھرانے کے سپرد کر دیا تھا‘ جو اپنے کرخت سازوں کا شور برپا کرکے تمام رات اسے زچ کرتے رہے۔ انہوں نے گھروں کی صفائی کے ساتھ یہ دھندا اختیار کر رکھا تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ظہور کے بعد آئے دن ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملے۔ کہانیاں الگ الگ تھیں مگر مرکز میں ایک جواں سال عورت ہوتی تھی‘ جس کو جن چمٹ گیا تھا یا جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ دوسرا بڑا کردار ایک جعلی پیر ہوتا تھا جو بالعموم اس عورت کو بھگا کر لے جاتا تھا‘ یا اس کے زیورات پر قبضہ کرکے اپنا گھر بدل لیتا تھا۔ یہ عورت اکثر غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی‘ جو جدید تعلیم سے آراستہ نہ ہوتا تھا۔
ڈیمن‘ شیطان‘ جن‘ بھوت‘ دیو اور ڈیول‘ راکھشس وغیرہ کا تصور ملتا جلتا ہے اور مذہب میں ملتا ہے۔ بعض اچھے جن بھی ہوتے ہیں‘ جو سیپارہ پڑھنے کے لئے مولوی صاحب کے ہاں جاتے ہیں اور گھر والوں کو ''بے بہاری‘‘ سبزیاں اور پھل پیش کرتے ہیں۔ میں اپنا گاؤں دیکھنے کے لئے مشرقی پنجاب گیا تو وہاں دیکھنے کو تو کچھ رہا نہ تھا‘ مگر ایسے سکھ بابے ملے جو مسلمانوں کی قبروں پر سبز چادریں ڈالے میرے منتظر تھے۔ ان کے نزدیک میں اس گھر کا فرد تھا‘ جہاں مستان علی شاہ علم حاصل کرنے آیا کرتا تھا۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ جہاں سے گزرتا ہے بگولے (وا ورولے) کی خاک ساتھ جاتی ہے۔
میں اور شیخ حامد محمود فلم دیکھ کر گھر لوٹے تو تھوڑی دیر کے بعد لاہور سے فون آ گیا۔ بیگم حامد محمود بول رہی تھیں ''اچھا کیا جو آپ شیخ صاحب کو گھر لے آئے۔ دل کے مریض ہیں‘ ہوٹل میں دورہ پڑ جاتا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی‘‘۔ اگلی صبح مجھے کام پر جانا تھا اور شیخ صاحب کو ا صرار تھا کہ میں انہیں کامرس ڈپارٹمنٹ میں اتارتا جاؤں‘ جہاں وہ اپنے نیوز پرنٹ کے مجوزہ کارخانے کے بارے مشورہ لینا چاہتے تھے۔ شیخ صاحب کا منصوبہ میرے پیشے کی ترقی کے لئے تھا‘ اس لئے ہامی بھر لی اور شیخ صاحب کو ساتھ لئے کامرس کی جانب روانہ ہوا۔ باتوں سے پتہ چلا کہ شیخ صاحب نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں‘ جو پی پی ایل اور پاکستان کے متعدد اخباروں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ''تمہیں پتہ ہے کہ اب میں این پی ٹی کا سربراہ نہیں رہا‘ میں مستعفی ہو کر امریکہ آیا ہوں اور اسی لئے نیوز پرنٹ کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہوں‘‘۔
'' شیخ صاحب‘ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ میں نے اور میری بیوی نے آپ کی خدمت اس لئے نہیں کی کہ آپ این پی ٹی کے چیئرمین ہیں بلکہ اس لئے کی ہے کہ آپ ہمارے شہر کی اردو صحافت کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں‘‘۔ میرا یہ بیان سن کر شیخ حامد محمود خوش ہوئے‘ اور میرے دل میں بھی ٹھنڈک پڑ گئی۔ میرے خیال میں وہ صحافت کے ''جن‘‘ تھے ''اچھے جن‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved