تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-02-2017

اربوں کے فلیٹ سے عربوں کے فلیٹ تک

گزشتہ کالم پر ویسے تو کئی ای میلز آئیں مگر سب سے مختصر اور اختلافی میل میں لکھا ہوا تھا ''جنابِ عالی! گستاخی معاف‘ جب ملزم اپنے ثبوت یعنی ''رسیدیں‘‘ پیش کر دے تو اس کو غلط ثابت کرنا مدعی کا ہی کام ہوتا ہے... لیکن یہاں تو مدعی کا کام صرف الزام لگانا اور کیچڑ اچھالنا ہی لگتا ہے‘‘۔ میری عزیز قاری نے دراصل قطری خط کو رسید سمجھ رکھا ہے‘ حالانکہ قطری خط دراصل رسیدوں سے جان چھڑوانے کا طریقہ ہے۔ رسیدوں سے مرا د میاں شریف مرحوم کے قطر میں بارہ ملین ریال یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ ریال‘ جو اللہ جانے تب کتنے پاکستانی روپوں کے برابر تھے‘ کے قطر کے کاروبار میں حصہ داری کا ثبوت دراصل رسید ہے ‘جو درکار ہے۔ رقم کی پاکستان سے قطر منتقلی ‘قانونی طریقے سے ہو تو بذریعہ بینک ہوتی ہے۔ اس ساری رقم کی بینک ٹرانسفر کے کاغذات دراصل وہ رسید ہے جو مطلوب ہے۔ پاکستان سے یہ رقم ظاہر ہے بوری میں ڈال کر تو قطر نہیں لے جائی گئی ہو گی۔ اگر بوری میں ڈال کر نہیں گئی تو کسی پاکستانی بینک سے گئی ہو گی۔ اس بینک میں رقم جمع ہونے اور پھر قطر جانے کا دستاویزی ثبوت دراصل وہ رسید ہے جو اس منتقلی کے قانونی اور جائز ہونے کو ثابت کر سکتی ہے۔ یہ وہ رسید ہے پیش ہونی چاہیے۔ میرے قاری کو دراصل رسید اور قطری شہزادے کے خط میں فرق نظر نہیں آ رہا ‘اور اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ کسی بھی متوالے کو ایک خط اور اس کی سچائی ثابت کرنے کے لیے مذکورہ خط ہی کے لکھنے والے کا ایک اور وضاحتی خط اگر رسید لگ رہا ہے تو اس میں اس کا قصور نہیں۔ پاکستان میں کسی سیاسی پارٹی کے حامی کو اپنی پارٹی کے لیڈر میں کبھی کوئی غلطی اور مخالف پارٹی کے لیڈر میں کبھی کوئی خوبی نظر نہیں آتی‘ یہ ایک طے شدہ بات ہے۔
ایک زمانے میں بے نظیر بھٹو کے ہیروں کے نیکلس کا شور اٹھا۔ خود میاں صاحب اور ان کے حواریوں نے اس پر وہ غلغلہ بلند کیا کہ الامان۔ہر طرف ہیروں کے نیکلس کا شور مچا تو بی بی نے بیان دیا کہ ان کے پاس کوئی نیکلس ویکلس نہیں ہے۔ سارے جیالوں نے کورس میں گانا شروع کر دیا کہ بی بی کے پاس کوئی نیکلس نہیں اور یہ صرف مخالفین کا گھٹیا الزام ہے۔ پھر یوں ہوا کہ سوئس عدالت میں اس نیکلس کی ملکیت کا سوال اٹھا تو بی بی نے تسلیم کر لیا کہ یہ نیکلس انہی کا ہے۔ ساتھ ہی ایک بیان دیا کہ وہ تین نسلوں سے وزیراعظم ہیں‘ کیا وہ ایک نیکلس نہیں خرید سکتیں؟ جیالوں نے دوبارہ کورس کی شکل میں گانا شروع کر دیا کہ ہماری لیڈر تین پشتوں سے وزیراعظم چلی آ رہی ہیں۔ ان کے دادا سر شاہنواز بھٹو ریاست جونا گڑھ کے وزیراعظم تھے ‘ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے اور وہ خود بھی پاکستان کی وزیراعظم رہ چکی ہیں ‘کیا وہ ایک نیکلس کی مالک نہیں ہو سکتیں؟ مجھے جیالوں کے اس بیان پر صرف ایک اعتراض ہے کہ کسی ایک نے بھی بی بی سے یہ سوال نہ کیا کہ محترمہ! آپ کو آج پتہ چلا ہے کہ آپ تین نسلوں سے وزیراعظم ہیں جب سوئس کورٹ نے ملکیت کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اگر یہ نیکلس آپ کی ملکیت تھا تو آپ نے اس کی ملکیت کا پہلے اقرار کیوں نہیں کیا تھا؟ ہمیں پہلے کیوں جھوٹ بتایا اور بے وقوف بنایا؟ آپ تب بھی تین نسلوں سے وزیراعظم تھیں اور آج بھی تین نسلوں سے ہی وزیراعظم ہیں لیکن آپ نے پہلے اس نیکلس کی ملکیت سے انکار اور اب اقرار کیوں کیا؟ آپ نے پہلے سچ کیوں نہیں بولا تھا؟ لیکن یہ سوال کسی نے نہیں کیا۔ ہمارے ہاں سیاسی ورکرز سوال کرنے کے لیے نہیں‘ اطاعت کرنے کے لیے ہوتے ہیں‘ نعرے مارنے کے لیے ہوتے ہیں‘ چمچہ گیری کی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں اور اپنے لیڈروں کی غلامی کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ میاں شریف صاحب نے بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے درکار بنیادی سرمایہ قطر‘ دوبئی اور سعودی عرب کیسے پہنچایا؟ جدہ کی سٹیل ملز کا پیسہ سعودیہ کیسے گیا؟ دوبئی میں کاروبار کے لیے رقم کیسے ٹرانسفر ہوئی؟ قطر میں بارہ ملین ریال کس طرح پہنچے؟ اگر بینکوں کے ذریعے گئے تھے تو بینکوں کے کھاتے‘ ٹرانسفر کی تمام ٹرانزیکشنز اور ثبوت ہی دراصل وہ رسیدیں ہیں جو درکار ہیں۔ اگر بینکوں کے ذریعے رقم ٹرانسفر ہوئی ہے تو اس کا ریکارڈ ہوتا ہے اور بوقت ضرورت مل سکتا ہے۔ ویسے بھی میاں شریف صاحب جتنے منظم اور منتظم تھے ان کے پاس ان رسیدوں کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔ طاہر القادری کا ہائیکورٹ والا کیس اس کی روشن مثال ہے جس میں طاہر القادری کو گاڑی لے کر دینے سے حج کروانے تک اور برانڈ رتھ روڈ پر کاروبار کروانے سے لے کر دیگر مالی معاونت تک‘ ہر چیز کی رسیدیں اور چیک کی کاپیاں تک پیش کی گئی تھیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ اتنی بڑی رقم بیرون ِملک ٹرانسفر ہو اور اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہو۔
اگر اس کا دستاویزی ثبوت نہیں تو صاف ظاہر ہے یہ رقم کیش کی صورت میں باہر بھیجی گئی ۔ ہُنڈی یا بریف کیس‘ کسی بھی صورت میں۔ یہی منی لانڈرنگ ہے اور نیک اولاد یہ سارا ملبہ مرحوم والد صاحب پر ڈال رہی ہے۔ اگر لندن میں خریدی گئی جائیداد کی منی ٹریل نہیں ملتی تو ثابت ہو گا کہ رقم غیر قانونی طریقہ سے باہر بھجوائی گئی ۔ اگر بینکوں سے ریکارڈ نہیں ملتا تو مانا جائے گا کہ رقم کیش میں گئی ہے۔ اگر بینکوں میں اس رقم کا اندراج اور کھاتوں میں کوئی ذکر نہیں تو اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا گیا ہو گا۔ اس طرح یہ ساری رقم ٹیکس چوری کے کھاتے میں بھی جاتی ہے۔ اگر باہر کیش بھجوایا گیا ہے اور کسی ٹرانسفر کا قانونی ثبوت یا ریکارڈ موجود نہیں تو منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئے گی۔ یعنی رسیدوں کی غیر موجودگی میں یہ ساری رقم ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کی ہے اور اس کا سارا ملبہ ایک مرحوم پر ڈالا جا رہا ہے کہ قطری خط سارے کا سارا ذاتی پرانے تعلقات اور بارہ ملین ریال کی سرمایہ کاری سے شروع ہوتا ہے اور گھاٹے میں جانے والی سٹیل ملز کے منافع پر ختم ہوتا ہے اور سارا خط میاں شریف مرحوم کے کھاتے میں ڈالا گیا ہے۔
میرے پیارے قاری! رسیدوں سے مراد وہ دستاویزی ثبوت ہیں جو بینکوں سے لین دین‘ رقم کی ٹرانسفر اور کھاتوں میں ہونے والے اندراج پر مبنی ہوں ‘نہ کہ قطری شہزادے کا خط۔ ایسے خط پر یقین کر بھی لیا جائے تو بارہ ملین ریال کی بنیادی رقم کی قطر میں ''سپلائی‘‘ کا ذریعہ بتانا ہو گا ویسے آج کل فیس بک پر کوئی ستم ظریف ان اونٹوں کی تصویریں لگا رہا ہے جو اس رقم کی باربرداری کے لیے استعمال ہوئے تھے اور کوئی ستم ظریف گدھوں کی تصویریں لگا رہا ہے۔ حالانکہ اصل گدھے ہم لوگ یعنی عوام ہیں جنہیں یہ ملک لوٹنے والے گزشتہ ستر سال سے گدھے بنا رہے ہیں اور ہم خوشی سے بن رہے ہیں۔
عمران خان تو صرف یہ کہہ رہا ہے کہ آف شور کمپنیوں اور لندن میں خریدی گئی جائیداد کا حساب دیں اور اس کی منی ٹریل بتائیں۔ سوال ہوتا ہے کہ لندن کے فلیٹ اربوں کے ہیں اس کا ثبوت دیں جواب میں بچے کہتے ہیں کہ فلیٹ اربوں کے نہیں بلکہ عربوں کے ہیں‘ ہم حساب کیوں اور کہاں سے دیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved