تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-02-2017

’’تیسرا قدم‘‘… ناصرہ زبیری کی شاعری (1)

یہ تری جُدائی کی یادگار ہے، ورنہ
ایک زخم بھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
یہ ہیں ناصرہ زبیری اور جس کتاب کا مسودہ زیرِ نظر ہے، یہ غالباً ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے جس میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ غزلیں تو میں سب کی سب پڑھ گیا ہوں، نظمیں بھی جستہ جستہ دیکھی ہیں۔ میں نے محبّی ابرار احمد کے بارے میں ایک بار لکھا تھا اور جس کا انہوں نے بُرا بھی منایا تھا کہ اگر وہ اتنی عمدہ نظم لکھ سکتے ہیں تو اُنہیں غزل لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی بات میں ناصرہ زبیری سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ ایسی شاندار غزل لکھ سکتی ہیں تو انہیں نظم لکھنے کی غالباً ضرورت نہیں ہے۔
غزل کے عادی ہمارے قاری کے لیے نظم بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھنے کا رجحان ابھی کچھ زیادہ رائج نہیں ہوا ہے بلکہ کچھ ستم ظریف تو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ نظم صرف نظم گو ہی پڑھتے ہیں، تاہم نظم رفتہ رفتہ اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ غزل کا ایک بڑا وصف اس کا اختصار ہے یعنی دو سطروں میں بات ختم ہو جاتی ہے اور قاری غزل میں سے اپنی پسند اور نا پسند کے اشعار سے آسانی کے ساتھ گزر جاتا ہے، اور سبھی اشعار اس کے معیار کے مطابق نہ ہوں تو بھی اس کی جان جلدی ہی چھوٹ جاتی ہے جبکہ نظم کے بیس پچیس مصرعے پڑھنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ یہ کیسی تھی اور اگر اسے پسند نہ آئے تو وہ ایک طرح کی جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں مختصر نظم کے حق میں ہوں جس سے قاری اگر لطف اندوز نہ بھی ہو تو اُسے چنداں اُکتاہٹ یا بدمزگی محسوس نہیں ہوتی، مثال کے طور پر فرخ یار کی یہ نظم:
میں نے اُسے اتنا دیکھا ہے
جتنا دو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
لیکن آخر دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے
اسی طرح ''بند دروازہ‘‘ کے عنوان سے غالباً ثروت حسین کی یہ نظم:
مجھے نہ کھولو
مرے اندھیرے میں ایک لڑکی
لباس تبدیل کر رہی ہے
ان نظموں کو اگر دو دو مصرعوں تک محدود کر دیا جائے تو غزل ہی کا شعر دستیاب ہو گا۔ چنانچہ میں نظم گوشعراء سے یہی گزارش کروں گا کہ اگر وہ نظم کو صنف کے طور پر مقبول بنانا چاہتے ہیں تو اسے زیادہ سے زیادہ مختصر کرنے کی کوشش کریں جبکہ غزل کی ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اس کا ہر شعر دو مصرعوں کی نظم ہی ہوتا ہے۔ میں اس سلسلے میں منیر نیازی کی بھی مثال دیا کرتا ہوں جس کی ایک نظم کا عنوان ہے ''وقت سے آگے نکل جانے کی سزا‘‘ اور نظم یہ ہے:
آدمی تنہا رہ جاتا ہے
ناصرہ زبیری کی غزل کئی خصوصیات کی حامل ہے جن کی بنیاد پر اسے اعلیٰ غزل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُسے مدرّسانہ انداز میں بیان کیا جائے تو صفحے کے صفحے کالے کیے جا سکتے ہیں، لیکن اب اس کا کچھ ایسا رواج بھی نہیں رہا ہے۔ نہ ہی اس کی غزل کا کسی اور کی غزل سے تقابل کیا جا سکتا ہے اور جو کرنا بھی نہیں چاہیے۔ اس کی غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ روایتی زبان استعمال کرتے ہوئے غیر روایتی اشعار نکالے گئے ہیں۔ اس نے کسی مخصوص لب و لہجے کا بھی تکلف روا نہیں رکھا۔ سیدھے سادے شعر ہیں اور دل کو ٹھاہ کر کے جا لگتے ہیں۔ یہ سادی باتیں ہزار ہا دفعہ بیان کی بلکہ دُہرائی جا چکی ہیں۔ لیکن جینوئن شاعر کا کمال یہی ہے کہ وہ پُرانے کو نیا کر کے پیش کر دیتا ہے اور ساتھ ساتھ ایک لُطف اور مزے کا اہتمام بھی روا رکھتا ہے۔ 
یہ کم و بیش ساری کی ساری محبت کی شاعری ہے۔ ویسے تو غزل بنیادی طور پر محبت ہی کی شاعری ہے اور یہی اس کا جواز بھی ہے۔ محبت کے علاوہ کچھ اور مضمون بھی اس میں ڈال سکتے ہیں لیکن اس میں بھی لُطفِ سخن کا ہونا لازمی ہے ورنہ مضمون خواہ کتنا بھی بڑا اور نیا کیوں نہ ہو، شعر‘ شعر نہیں بنتا اور اصل کام شعر کوشعر بنانا ہی ہے ورنہ قافیہ بندی تو ہر کوئی کر سکتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات مضمون کچھ بھی نہیں ہوتا اور شعر بن جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے ہاں غمِ جاناں ہی نہیں، کہیں کہیں غمِ دوراں بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے، مثلاً:
کوئی رواں ہے موج میں تختے پہ بیٹھ کر
کشتی میں کوئی تخت نشیں ڈوبنے کو ہے
خوف کے قہر کا اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا
کیا مرے شہر کا اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا
بس یہ سیلاب ہے اب سر سے گزرنے والا
ڈوبتے شہر کا اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا
اُٹھا کے لائے ہیں کشتی جو چل سکے اس پر
ہم ایک ریت کا دریا خرید بیٹھے ہیں
بے سمتی تقدیر پر نہیں ہے ان بھٹکائے انسانوں کی
رستہ ڈھونڈا جا سکتا ہے، رہبر بدلے جا سکتے ہیں
یہ ہمیشہ سے نہیں تھی یہاں بارُود کی بُو
گُل ہوا کرتے تھے، گلدان ہُوا کرتے تھے
یوں نہ ہو کہتی پھرے کوئی خلائی مخلوق
اس زمیں پر کبھی انسان ہُوا کرتے تھے
خواب نگر کا نقشہ لے کر آنکھوں میں
بسے بسائے لوگوں نے گھر چھوڑ دئیے
جو یکجا ہو نہیں پایا ابھی تک
وہ شیرازہ بکھیرا جا رہا ہے
اور اب کچھ دوسری طرح کے اشعار جو آپ کو پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں اور آگے نہیں جانے دیتے:
رہا ہے دیوتا صدیوں کسی کا
یہ جس کا بُت گرایا جا رہا ہے
بکھر جانے کو ہیں کردار سارے
یہ افسانہ سمیٹا جا رہا ہے
پرندوں کے لیے مانگوں دُعائیں
اُڑیں میری دعاؤں میں پرندے
آنکھ کے سوکھے شجر پر لگ گیا آنسو کا پھل
ہجر کے موسم کی پہلی رس بھری تیار ہے
آج کا مطلع
ہماری نیند کا دھارا ہی اور ہونا تھا
یہ خواب سارے کا سارا ہی اور ہونا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved