تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     05-02-2017

’’شہباز سپیڈ‘‘

سیاست کے تقاضے جو کچھ بھی ہوں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق۔ ان کی ترجیحات پر انگلی اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ ان کی کسی بات پر آمناً و صدقاً کہے یا نہ کہے۔ ان کے ماضی کا اعتراف کرے یا نہ کرے۔ ان کے مستقبل پر یقین رکھے یا نہ رکھے۔ اس بات کا بڑے سے بڑا مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ برق رفتار ہیں۔ تیزی سے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جھپٹ سکتے ہیں اور پلٹ بھی، بلکہ پلٹ کر جھپٹ سکتے ہیں کہ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ وہ کم کھاتے، کم سوتے اور ایک زمانے میں تو بولتے بھی قدرے کم تھے، کبھی کبھی گرجتے تھے۔ اب ہر تقریر میں گرج پڑتے ہیں، اور اپنے مخالفوں کے خوب لتّے لیتے ہیں۔ بعض کے خلاف تو عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا چکے ہیں۔ مدعا علیہان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دے دیا ہے، یعنی وزیر اعلیٰ کو نوٹس بھجوا کر اسی پر اکتفا نہیں کیا، باقاعدہ مقدمہ بھی دائر کر دیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس مقدمہ بازی سے کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے یا نہیں، پنجاب میں تیز رفتاری کا ریکارڈ قائم ہو چکا ہے۔ بہت سے منصوبے اس طرح مکمل کئے گئے ہیں (اور کیے جا رہے ہیں) کہ دیکھنے والوں کو یقین آتا ہے‘ نہ سننے والوں کو۔ وہ آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں تو آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے لاہور شہر میں میٹرو بس کا جس طرح آغاز کیا گیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ تجاوزات ہٹائی گئیں، متاثرین کو تسلی بخش معاوضے ادا کیے گئے، پُل بنے، فلائی اوور بنے اور گجومتّہ سے شاہدرہ تک کئی کلومیٹر کا راستہ صاف ہوتا گیا۔ میٹرو بس کے مخالفین ''پہلے سکول‘‘ ''پہلے ہسپتال‘‘ کے نعرے لگاتے رہے اور میٹرو بس لاکھوں افراد کو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پہنچانے میں لگ پڑی۔ ایک بین الاقوامی بزنس کمپنی کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جاوید غنی نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ تم ووٹ کس کو دو گے؟ اُس نے کہا، مسلم لیگ(ن) کو... پھر پوچھا کہ اُس کا سبب کیا ہے، تو وہ فوراً بولا، میٹرو بس۔ کہا گیا ہسپتالوں کے حالات تو ناگفتہ بہ ہیں۔ ترت جواب ملا، حضور ہسپتال میں تو زندگی میں ایک، دو بار ہی جانا ہو گا، لیکن گھر سے دفتر تو روز آنا اور جانا ہوتا ہے۔ پہلے ڈھیروں پیسے برباد کر کے دھکے کھاتا، پسینے میں ڈوبتا، دفتر پہنچتا تھا، اب کہیں کم وقت میں ''صاحب لوگوں‘‘ کی طرح صاف ستھرا ایئرکنڈیشنڈ بس میں سے برآمد ہوتا ہوں اور سیٹی بجاتے ہوئے ڈیوٹی پر آ جاتا ہوں۔ سننے والے یہ سن کر بھونچکے رہ گئے اور کہنے لگے ''ایئر کنڈیشنڈ‘‘ کمروں میں بیٹھ کر تجزیے کرنے والے عوام سے براہِ راست رابطہ کریں تو ان کے خیالات کی ریڑھی الٹ جائے گی، یعنی اس کی ریڑھ لگ جائے گی۔
انتخابات سے پہلے تو صرف لاہور میں میٹرو چلی تھی، اب یہ راولپنڈی سے اسلام آباد اور وہاں سے ملتان پہنچ چکی ہے، اور ویگنوں اور بسوں پر دھکے کھانے والوں سے داد اور دُعائیں وصول کر رہی ہے۔ لاہور کی اورنج لائن ٹرین البتہ کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا منتظر ہے۔ لاہور کے شہری گرد کی لپیٹ میں ہیں، ادھڑی ہوئی سڑکیں آسمان کی طرف مُنہ کرکے سفر کرنے والوں کی خیر مانگ رہی ہیں۔ جانے کب معاملہ نبٹے گا اور کب لاہور کو گرد آلود ہوائوں اور ان کی لائی ہوئی بیماریوں سے نجات ملے گی... شہباز شریف اپنی ادائوں پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی سپیڈ جوں کی توں ہے۔ تعلیم کے شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کئی سکولوں کی حالت بدلی گئی ہے۔ استادوں کی سینکڑوں ہزاروں بھرتیاں میرٹ پر ہوئی ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں زیرِ تعلیم لاکھوں بچوں کی فیس (راجہ قمرالاسلام جیسے ہونہار اور دیانت دار رکن اسمبلی کے زیر قیادت) پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے ذریعے ادا کی جا رہی ہے (جنوبی پنجاب میں ان کی تعداد چودہ لاکھ سے اوپر ہے) اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف کی بہتات ہے۔ کم 
وسیلہ نوجوانوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھانے کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب کے زیرِ اہتمام اربوں کا پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ قائم ہے۔ اس سب کے باوجود حالات مثالی نہیں ہیں، معیاری تعلیم ہر بچے کو نہیں مل پا رہی۔ بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن قدم بہرحال تیزی سے اُٹھ رہے ہیں۔ ہسپتالوں کی طرف توجہ دینے کے اعلانات بھی کئے جا رہے ہیں۔ زبانوں پر اب صحت کا تذکرہ ہونے لگا ہے، لیکن فوری اور نتیجہ خیز اقدامات کی کمی یہاں بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض حسین بار بار یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ اُنہیں لاہور کا کوئی بڑا ہسپتال دے دیا جائے، وہ ایک مثالی علاج گاہ بنا کر واپس کر دیں گے، لیکن اسے ابھی تک قبول نہیں کیا گیا۔ اگر تعلیم کے میدان میں نجی شعبے کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے تو صحت کے معاملے میں اس طرف ہاتھ کیوں نہیں بڑھایا جا رہا؟ اس سوال کا جواب وزیر اعلیٰ (یا خادم اعلیٰ) کو بہرحال دینا ہو گا۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ چند روز پہلے ساہیوال کے قریب لگنے والے کول پاور پروجیکٹ پر جانے کا اتفاق ہوا، تو حیرت کدہ کھل گیا۔ 22 ماہ ہوئے یہاں اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ یہ آئندہ تین سال میں مکمل ہو جائے گا۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کو ماحول خراب کرنے کا سبب بھی بتایا جا رہا تھا۔ ٹرانسمیشن لائن موجود نہ تھی‘ یہاں تک کوئلہ لانے والی ریلوے لائن پر سوالات پہ سوالات اُٹھ رہے تھے کہ ساڑھے بارہ ہزار ٹن کوئلہ کراچی کی بندرگاہ سے روزانہ یہاں تک کیسے لایا جا سکے گا۔ ریلوے کی اہلیت و صلاحیت پر ہزاروں نکتے موجود تھے۔ نامی گرامی صنعت کار ان سے گھبرا کر قدم واپس لے جا چکے تھے لیکن 22 ماہ کی مدت میں وہ سب کچھ کر لیا گیا، جو کئی سال میں بھی ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ ریلوے لائن بچھائی جا چکی، بوگیاں بنائی جا چکیں، انجنوں کا انتظام کیا جا چکا۔ دسمبر 2017ء کے بجائے یہ پلانٹ جون تک مکمل کرنے کا پختہ اعلان کیا جا چکا۔ یہاں سے 8 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے 1320 میگاواٹ بجلی ملنا شروع ہو جائے گی۔ خواجہ سعد رفیق کی چھاتی بھی پھیل چکی تھی اور شہباز شریف کے لفظوں میں بھی ایک نئی گہرائی پیدا ہو چکی تھی۔ یہ منصوبہ چینی بھائیوں کا ہے، ان کی سرمایہ کاری ہے۔ وہ بجلی پیدا کرکے نیشنل گرڈ کو فراہم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا اتنا بڑا منصوبہ پوری دُنیا (بشمول چین) میں اتنی کم مدت میں مکمل نہیں کیا جا سکا۔ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے استفسار پر بتایا گیا کہ 8 فلٹر لگائے گئے ہیں، ان کی بدولت یہاں کی چمنیوں سے اُٹھنے والا دھواں دودھیا ہو گا۔ جی ٹی روڈ پر چلنے والی ٹریفک سے کہیں کم آلودگی پیدا کرے گا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی نے یہ جن بوتل میں بند کر دیا ہے۔ لاہور میں چین کے قونصل جنرل ہمارے ہمراہ تھے، چین کے انجینئر اور کارکن اپنے پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ دن رات ایک کئے ہوئے تھے اور یہ بات ان سب کی زبان پر تھی کہ چین میں پنجاب حکومت کی رفتار کو ''شہباز سپیڈ‘‘ قرار دیا جاتا اور اس پر رشک کیا جاتا ہے ؎
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا مَیں
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved