تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     05-02-2017

مگر کیا کیجیے!

مگر کیا کروں، عدل کی ایک جھلک نظر آئی ہے تو پختونخوا میں ۔ سیمنٹ اور سریے کے پہاڑ تعمیر کرنے والے شہباز شریف بھی کچھ کر دکھائیں۔ کوڑے کے ڈھیروں پر خورسند مراد علی شاہ بھی کچھ کر دکھائیں۔ 
انصاف کے متبادل نظام کا ایک قانون قومی اسمبلی نے منظور کیا ہے۔ انگریزی اخبار نے اسے جرگہ اور پنچایت سسٹم کی توثیق سے تعبیر کیا ہے۔ جی نہیں ، یہ ایک مختلف نظام ہے۔ حکومت خود کمیٹیاں تشکیل دے گی۔ پنچایتوں اور جرگوں کی سرپرستی نہیں فرمائے گی۔ افتادگانِ خاک کو انصاف فراہم کرنے کی لگن اتنی ہے کہ قانون منظور ہو رہا تھا تو 243 کے ایوان میں صرف 23 ارکان موجود تھے۔ عملدرآمد کا انحصار عدلیہ اور صوبائی حکومتوں پر بھی ہے کہ وہ قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ اپوزیشن ارکان نے مخالفت تو نہ کی مگر ان کے تحفظات تھے۔ پی ٹی آئی کے شفقت محمود نے سوال اٹھایا کہ پنچایتوں کے ارکان کا انتخاب کس طرح ہو گا۔ پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ نے کہا کہ خواتین کا کیا ہوگا؟ نمائندگی انہیں حاصل ہوگی یا نہیں ۔ 
معزز ارکان کو اس اقدام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وگرنہ انہیں معلوم ہوتا کہ پختونخوا میں ایسا ایک نظام پہلے سے کارفرما ہے۔ اس کے تحت فیصلے صادر ہوتے اور قبول کیے جاتے ہیں۔ 2015ء میں ان کمیٹیوں کے خلاف وکلا نے عدالت سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا تھا کہ ان کے بغیر انصاف کیا معنی؟ سات آٹھ ماہ تک کام رکا رہا۔ اس کے باوجود اب تک آٹھ سے نو ہزار مقدمات فیصل ہو چکے۔ اپوزیشن بھی ستائش کرتی ہے۔ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے نون لیگ کے ایک رکنِ اسمبلی کو پارٹی انتباہ کر چکی کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہ کرے۔ بنی گالا کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کرنے والے اکرم درانی، مولانا فضل الرحمٰن کے برادرِ خورد مولانا لطف الرحمٰن اور الیاس بلور بھی اس عمل کی تائید کر چکے۔ پختونخوا پولیس ہی کی۔ 
سب اچھا نہیں۔ نا تجربہ کار اور ناموزوں لوگ اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔ ظاہر ہے کہ وزرا کا انتخاب انہی میں سے ہوا۔ ترقیاتی منصوبوں کی رفتار سست رہی۔ پارٹی کارکنوں کی تربیت پہ ہرگز کوئی توجہ نہ دی گئی۔ باہم وہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ افسر شاہی اور ڈاکٹروں سے حکومت الجھتی رہی۔ وہ بھی قصوروار ہوں گے مگر نالائق لیڈر بھی۔ 
پولیس کی تشکیلِ نو ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ناقابلِ یقین نظر آتا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ایم پی اے، ایم این اے، وزرا اور پارٹی لیڈروں کی مداخلت روک دی گئی ہے۔ پنجاب میں ایک تھانیدار بھی وزیرِ اعلیٰ، ان کے فرزندِ ارجمند حمزہ شہباز یا قریبی ساتھیوں کی منشا کے بغیر لگ نہیں سکتا۔ پہلے بھی پختونخوا میں سیاسی مداخلت نہیں تھی۔ 25 جنوری کو منظور کیے جانے والے ایکٹ 2017ء کے تحت اب آئی جی کا اختیار 2002ء کے پولیس آرڈر سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر ہر سال دو بار ضلعی اسمبلی کو رپورٹ دے گا، جس پر بحث کی جائے گی۔ رشوت ستانی کے علاوہ بالعموم دو بڑی شکایات ہوتی ہیں، حبسِ بیجا اور خریداری میں خورد برد۔ 13ممبروں پر مشتمل ڈسٹرکٹ سیفٹی کمیشن نگران ہوگا۔ ضلعی اسمبلی سے، کمیشن کے چار ارکان میں سے دو کا تعلق اپوزیشن اور دو کا حکومتی بنچوں سے ہوگا۔ چار سبکدوش سرکاری ملازم اور پانچ سول سوسائٹی سے، حکومت جن کا تقرر کرے گی۔ حبسِ بیجا کی شکایت پر کمیشن کا ممبر تھانے پہ چھاپا مار سکتا اور تحریری رپورٹ لکھ سکتا ہے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ کی خریداری کمیشن کی نگرانی میں ہوگی۔ ڈویژن میں تین ممبروں پر مشتمل ''علاقائی شکایت مقتدرہ‘‘ (Regional Complaint Authority) ہوگی۔ ایک سبکدوش جج، سبکدوش فوجی یا سول افسر اور ایم بی اے کی ڈگری کا حامل پندرہ بیس سال کاانتظامی تجربہ رکھنے والا شہری۔ صوبائی سطح کا کمیشن اور بھی طاقتور ہے۔ تیرہ ارکان صوبائی اسمبلی سے دو سرکاری اور دو اپوزیشن ممبر۔ ہائیکورٹ کا ایک سبکدوش جج، ایک ریٹائرڈ جنرل، ایک سبکدوش سیکرٹری یا چیف سیکرٹری، ایک ریٹائرڈ آئی جی، چار شہری بر بنائے عہدہ، ایڈووکیٹ جنرل بھی۔ 
اندازہ ہے کہ ان کمیٹیوں اور کمیشنوں کے ارکان کا انتخاب تین ماہ میں ہو گا۔ مئی یا جون تک یہ ایک مثالی پولیس بن سکتی ہے۔ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان سے جس کا آج بھی کوئی موازنہ نہیں۔ 
اپنے ڈرائیور سے میں نے پوچھا، اس کا جواب یہ تھا: میں ٹیکسی چلایا کرتا۔ پختونخوا میں اپنے گائوں تک مجھے چار پانچ سو روپے وردی پوشوں کو دینا پڑتے۔ اب ایک روپیہ بھی نہیں دیتا۔ 
اسلام آباد اور باقی تین صوبوں میں ضلعی کمیٹیوں کا نظام بالآخر کیسا ہوگا؟ اس کا انتظار کرنا ہوگا۔ پختونخوا میں یہ 21 ارکان پر مشتمل ہیں۔ ہر روز تین ارکان دستیاب۔ عدلیہ نہیں، حیرت انگیز طور پر اس کا انتخاب خود پولیس نے کیا ہے مگر شاذ ہی کوئی شکایت سامنے آئی۔ اس لیے کہ یہ ایک نظام کے تحت ہے۔ نام ضلعی پولیس افسر تجویز کرتا ہے اور توثیق ڈی آئی جی۔ ان میں ہائی کورٹس کے جج شامل ہیں، ایک تو سابق چیف جسٹس بھی، جنابِ ابنِ علی۔ اساتذہ، ڈاکٹر، سبکدوش فوجی اور سول افسر۔ تجربہ اس لیے کامیاب رہا کہ سپیشل برانچ مجوّزہ ارکان کی چھان بین کرتی ہے۔ ناصردرّانی پنجاب میں تھے تو آخری برسوں میں ان کا تعلق اسی شعبے سے تھا۔ 
پختونخوا میں متبادل نظامِ انصاف کا آغاز ہوا تو طالبان کا خونیں سایہ سر پہ تھا۔ خود تحریکِ انصاف کے تین ارکانِ اسمبلی قتل کر ڈالے گئے تھے۔ خیبر ایجنسی میں جسے باڑہ کہا جاتا ہے‘ لشکرِ اسلام کے نیم خواندہ امیر منگل باغ نے عدالت قائم کر رکھی تھی۔ فیس ادا کر کے کوئی ایک فریق ان سے رجوع کرتا اور وہ فیصلہ صادر کرتے۔ اب فیس ہے نہ وکیل۔ جائیدادوں کے ہزاروں تنازعے نمٹا دئیے گئے۔ کتنی ہی پرانی دشمنیاں سلجھائی جا چکیں۔ قتل و غارت گری کے کتنے ہی تنازعے صلح پذیر ہوکر تحلیل ہو گئے۔
مکّہ مکرمہ میں ''حلف الفضول‘‘ کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم تھی جو بے نوا مسافروں اور مظلوموں کو انصاف دلایا کرتی۔ ایک سے زیادہ بار ابو جہل کو اس کے سامنے جھکنا پڑا۔ نبوت سے قبل سرکارؐ اس کا حصہ تھے۔ بعثت کے بعد فرمایا کرتے: میں اس پر بہت خوش تھا۔ اتنا خوش کہ کوئی مجھے سرخ بالوں والے سو اونٹ بھی دیتا تو میں اسے نہ چھوڑتا۔ اس مشہور سفر کی ریاضت میں، جس کے بعد سیدہ خدیجتہ الکبریٰ ؓ آپؐ کی رفیقِ حیات ہوئیں، ایک اونٹ آپ ؐکو معاوضے میں ملا تھا۔ 
قاضی شریح بن حارث کندی ؒ پھر یاد آئے۔ ایک بدّو سے سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے گھوڑا خریدا، لنگڑا نکلا۔ اس نے کہا: پہلے جانچا ہوتا۔ قاضی نے آپؓ کا موقف مسترد کر دیا۔ امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی زرہ ایک یہودی نے چرالی تھی۔ امام حسین ؓ اور آپ ؓ کے ایک ملازم گواہ تھے۔ ظاہر ہے کہ علی ؓ ہی سچے تھے۔ قاضی شریحؒ نے ان کا موقف مسترد کر دیا کہ فرزند اور غلام کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔ 
ہم ایسے تھے، اتنے بلند اور سرفراز۔ اب ایسے ہو گئے، اس قد رپست و پامال۔ اس لیے کہ علم کھو دیا، عدل کو کھو دیا۔ عمران خان کی ستائش کرتے ہوئے میں ناخوش ہوں۔ اس قدر وہ ناتراشیدہ اور بے قابو ہوگیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ مگر کیا کروں، عدل کی ایک جھلک وہیں نظر آئی ہے۔ سیمنٹ اور سریے کے پہاڑ تعمیر کرنے والے شہباز شریف بھی کچھ کر دکھائیں۔کوڑے کے ڈھیروں پر خورسند مراد علی شاہ بھی کچھ کر دکھائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved