جب پچھلے سال امریکہ گیا تھا تو وہاں ٹرمپ کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا ‘سب کہتے تھے ریٹنگ تو لے رہا ہے لیکن جیت نہیں پائے گا۔ شغل میلہ ہے چند دنوں بعد ختم ہوجائے گا ۔ کھیل ختم پیسہ ہضم ۔اگرچہ میرے دوست ڈاکٹر احتشام قریشی کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر خدانخواستہ یورپ یا کسی اور ملک میں کوئی ہلکا سا بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو ٹرمپ کو وائٹ ہاوس جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔ ایک امکان ضرور تھا لیکن کوئی یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ وہ صدر بن جائے گا ۔ میں نے اس وقت بھی امریکہ سے ایک کالم لکھا تھا کہ مسلمانوں سے امریکہ میںبیزاری بڑھتی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے آپ کو امریکی معاشرے میں ایڈجسٹ کرنے کی کوششیں کرنی ہوں گی ۔ ایک عام امریکی کو میں نے بہت کیرنگ اور اچھا پایا تھا لیکن لگ رہا تھا کہ اب فاصلے بہت بڑھ رہے تھے۔ ڈلیور ریاست کے شہر لیوس میں ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھر کے باہر واک کرتے ہوئے امریکی بچے مجھے دیکھتے تو مسکراہٹ دیتے اور اگر دور ہوتے تو مجھے ہاتھ ہلا کر ہیلو کرتے۔ ہمارے مسلمانوں نے اپنے بچوں کو یہ بات کم ہی سکھائی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ہیلو ہائے کرنا ہمارا کلچر نہیں ۔ ہم نے ہر جگہ اپنے آپ کو مقامی معاشروں سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ نکل رہا ہے۔ نقاب اور حجاب کے استعمال کے بڑھنے سے مسائل بڑھے ۔ یورپ کے کچھ ممالک میں وہ پارٹیاں جیت رہی ہیں جو مسلمانوں کی امیگریشن کے خلاف ہیں۔
شاید ہم میں سے بہت ساروں کو یہ بات اچھی نہ لگے لیکن یہ بات ماننا پڑے گی ہم میں سے کچھ لوگوں نے امریکی، برطانوی یا یورپی معاشروں کی دی گئی انسانی آزادی کے غلط فائدے اٹھائے ہیں۔ ہمارے لوگوں نے وہاں جا کر شادیاں رچائیں اور کچھ عرصے بعد جونہی شہریت ملی تو طلاق دے کر فارغ۔ کئی تو بچوں کو لے کر پاکستان آگئے اور پیچھے پیچھے وہ بے چاریاں پاکستان میں رلتی رہیں اور عدالتوں کے دھکے کھاتی رہیں۔بچے بڑے ہوئے تو ان کی پاکستان میں زبردستی شادیاں کردیں اور پورے یورپ میں بڑی خبریں چھپیں۔ یورپی معاشروں نے یہ تمیز کم ہی کی کہ یہ مسلمان ہیں، ایشیائی ہیں یا پس ماندہ ۔ انہوں نے ہمارے بچوں کو اپنے بچوں کے ساتھ سکول پڑھنے کی اجازت دی۔ انہیں اس ملک کا برابر کا شہری سمجھا۔ سماجی سطح پر وہ تمام سہولتیں اور فائدے دیے جو ہمیں کوئی عرب ملک دینے کوبھی تیار نہیں ۔
مجھے یاد ہے لندن میں ایک دفعہ مجھے ایک دفعہ پاکستانی نوجوان ملا۔ اس نے پیشکش کی اگر میں کچھ مفت پونڈز کمانا چاہوں تو اس کے پاس ایک فارمولا ہے۔ فارمولا یہ تھا کہ میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گاڑی میں جارہا ہوں گا ۔ کوئی اور گاڑی ہلکی سی ٹکرائے گی وہ جانیں اور انشورنس جانے۔ میںحیرت سے اسے دیکھتا رہا جس کا باپ کبھی مظفرگڑھ کالج میں پرنسپل کا بیٹا تھا ۔ وہ نوجوان اور اس کی بیگم لندن لوٹنے سے قبل پورے لندن کے بنکوں کو لوٹ کر لوٹے کریڈٹ کارڈ پر ہرقسم کا فراڈ کیا ۔ اب وہ دونوں میاں بیوی لندن سے لوٹنے کے بعد ایک اور ملک میں جابسے ہیں اوروہاں بھی یہی کام فرما رہے ہوں گے۔ ایک اور جاننے والے نے پیشکش کی کہ اگر لندن میں، میرا مستقل رہنے کا ارادہ ہو اور فلیٹ خریدنے کے لیے بنک سے قرضہ لینا ہو تو بھی اس کے پاس فارمولا ہے۔ فارمولا یہ تھا میرے پاسپورٹ میں وہ کچھ تبدیلیاں کردیںگے۔ میں حیرانی سے دیکھتا رہا کہ کیسے کیسے کام ہم ان معاشروں میں کرتے ہیں جہاں دوسرے پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ایک دفعہ الفریڈ ایکسچنج کی ایک دوکان میں میری بیوی کو ایک انگوٹھی اچھی لگی‘ خرید لی۔ سیلز ویمن بولی اگر بیس پونڈز دے دیں تو وہ انشورنس کردیں گی۔ پوچھا اس سے کیا ہوگا؟ بولیں اگر انگوٹھی گم ہوگئی تو آپ کو نئی مل جائے گی یا قیمت واپس۔ میں نے کہا اس کے لیے کیا ثبوت درکار ہوگا کہ انگوٹھی چوری ہوگئی‘ وہ بولی کوئی زیادہ نہیں‘ یہ رسید اپنے پاس رکھیں۔ آپ ہمیں کہہ دیں گے کہ چوری ہوگئی تو ہم نئی دے دیں گے۔ اس کے نزدیک ہم جھوٹ نہیں بولیں گے۔ پہلے میرا جی چاہا کہ انشورنس لے لوں۔ پھر کچھ سوچ کر بغیر انشورنس انگوٹھی لے کر ہم دونوں دکان سے باہر نکل آئے۔
کتنے مہنگے ٹیلی فونز لندن میں اس طرح کلیم کیے گئے پاکستان آکر انہیں بیچ دیا‘ واپسی پر انشورنس پر نیا کلیم کر لیا۔ ہم نے ان معاشروں کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ ہم سے تنگ ہیں۔ پھر ہمارے اوپر ایک اور بھوت سوار ہوجاتا ہے کہ اب یہ معاشرے ہمارے مرضی کی زندگی گزاریں۔ جن حالات میں ہم وہاں پہنچتے ہیں وہ سب کو علم ہے۔ جونہی ہمارے قدم جم جاتے ہیں اور کچھ پونڈز یا ڈالرز ہماری جیب میں آجاتے ہیں تو ہماری اگلی منزل یہ ہوتی ہے کہ اب ان معاشروں کو اپنی مرضی اور اپنے مذہب پر ڈھالا جائے۔ اس کے بعد مسائل شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بچے کچھ بڑے ہوجائیں تو ہمیں پورا مغربی معاشرہ ہی برا لگنے لگتا ہے اور غیرت جاگ جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے 2010ء میں، میں، ارشد شریف اور مرزا ناروے گئے۔ وہاں ہمیں ایک محکمے نے بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا سب سے زیادہ پرابلم پاکستانی تارکین وطن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ پہلے تو ان کی نسلوں کو ناروے کے کلچر میں ڈھالنے کے لیے برسوں محنت کرتے ہیں‘ جب ان کے بچوں کی شادیوں کا وقت آتا ہے تو یہ پاکستان جا کر اپنے گائوں میں اپنی کزنوں سے شادیاں کریں گے۔ اپنی برادری کی لائیں گے۔پھر گائوں کے لڑکے اور لڑکیاں یہاں آکر ایڈجسٹمنٹ کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں‘ کزنز میرج کی وجہ سے مسائل اور بڑھ گئے تھے۔ وہ نارویجن حیران تھے کہ یہ پاکستانی یہاں ایک دوسرے سے شادیاں کیوں نہیں کرتے۔ یہ ہزاروں میل دور سے دلہن یا دولہا کیوں لاتے ہیں؟ شاید یہی وجہ تھی کہ 2007ء میں لندن کے اخبار میں ایک سروے پڑھا جس کے مطابق 63 فیصد یورپین نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو یورپ میں امیگریشن کی اجازت نہ دو کیونکہ یہ ہمارے لیے خطرہ ہیں ہماری روز مرہ زندگی کے لیے خطرات ہیں۔
یقینا سب مسلمان اور پاکستانی ایسے نہیں ہیں۔ بہت ساروں نے ہمارے نام بھی اونچے کیے ہیں۔ لیکن کیا کریں، یہ انسانی فطرت ہے کہ نیگٹو چیز کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔امریکہ میں یہ بات میں نے واضح دیکھی کہ وہاں مسلمان مقامی معاشرے سے ہٹ کر رہتے ہیں، کم میل جول رکھتے ہیں۔ اپنی شناخت کے چکر میں وہ اس معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں جس کو کبھی جنت سمجھتے تھے۔ ہرجگہ بنک فراڈ اور کریڈٹ کارڈز میں ہمارے لوگ سرفہرست پائے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ کیا وجوہ ہیں جس کی بنیاد پر اتنی بڑی تعداد میں ٹرمپ جیسے بندے نے ووٹ لیے اور صدر بن گیا۔ اس کی مسلمانوںسے نفرت الیکشن سے پہلے واضح تھی۔ پھر بھی اسے ووٹ ملے۔
پھر بھی داد دینی چاہیے ان امریکیوں کو جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں باہر نکلے اور مظاہرے کیے اور ابھی بھی مسلمانوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میںرہنے والے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو ان عام یورپین اور امریکیوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اب مجھے بتانے کی ضروت نہیں کہ ہم پاکستانی یا مسلمان ان عام یورپین اور امریکیوں کے ہاتھ کیسے مضبوط کرسکتے ہیں!باقی آپ سب نے کرنی تو اپنی مرضی ہے... جیسے اب ٹرمپ کررہا ہے!