تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     05-02-2017

باتیں کچھ کھیلوں کی

آج میں نے کچھ وکھرے موضوع کا انتخاب کیا ہے کیونکہ میری رائے میں یہ بیحد اہم سوال ہے کہ ہماری سپورٹس مسلسل روبزوال کیوں ہیں؟ ہم بار سلونا اولمپکس کے بعد کوئی اولمپک میڈل کیوں نہیں حاصل کر پائے؟ 2016ء کے ریوڈی جنیرو اولمپکس میں ہم صرف سات کھلاڑیوں بھیج سکے جبکہ 1956ء کے ملبورن اولمپکس میں حصہ لینے والے پاکستانی کھلاڑیوں کی تعداد 62 تھی۔ اس کی ایک ہی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ ہمارے بہت سے کھلاڑی اولمپکس کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کر پائے اور کوالیفائی نہ کرنے والوں میں ہماری ہاکی ٹیم بھی شامل تھی۔
چند روز پہلے اخبار سے پتا چلا کہ اسلام آباد میں ٹینس کے ڈیوس کپ کے میچ پاکستان اور ایران کے مابین ہونے والے ہیں، میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ایک عرصے بعد ڈیوس کپ کے مقابلے پاکستان واپس آ رہے تھے۔ بارہ سال تک انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کا یہ سٹینڈ رہا کہ پاکستان عالمی ٹیموں کے کھیلنے کے لیے محفوظ جگہ نہیں، پھر لاہور سے خواجہ سہیل افتخار کا فون آیا کہ میچوں کے دوران سکیورٹی بہت ٹائٹ ہو گی، لہٰذا آپ اپنا شناختی کارڈ نمبر پہلے سے بھجوا دیں تاکہ انٹری میں کوئی پرابلم نہ ہو۔ خواجہ صاحب میری ایتھنز کی سفارت کے ایام میں وہاں پی آئی اے کے کنٹری منیجر تھے اور ہم وہاں اکثر ٹینس کھیلا کرتے تھے۔ موصوف کا تعلق ٹینس کے معروف گھرانے سے ہے، ان کے والد مرحوم خواجہ افتخار آزادی سے قبل ایک سال آل انڈیا چمپئن رہے۔ پاکستان بنا تو پندرہ سال تک انہیں کوئی بھی ٹینس کورٹ پر شکست نہ دے سکا۔ پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑی ایصام الحق قریشی خواجہ سہیل افتخار کے بھانجے ہیں۔ میرا بچپن اور لڑکپن گوجرہ کے قصبے میں گزرا جہاں کھیلوں کا شوق خاص و عام کو تھا۔ کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال تینوں کھیل کھیلے جاتے تھے۔ ان تینوں گیمز کے کھلاڑی قد اور پھرتی میں مجھ سے کہیں آگے تھے۔ میں نے ہاکی اور کرکٹ میں قسمت آزمائی کی لیکن جلد ہی سرنڈر کر دیا۔ اب سوچا کہ کوئی ایسا کھیل کھیلا جائے جہاں چوٹ لگنے کا کم از کم اندیشہ ہو۔ چنانچہ بیڈ منٹن کا انتخاب ہوا۔ یہ نسبتاً شریفانہ کھیل تھا لیکن فٹ بال اور ہاکی کھیلنے والے دوست اکثر جملے چُست کرتے کہ یہ کیا لڑکیوں کا کھیل کھیلتے ہو۔ میٹرک کا امتحان دیا تو رزلٹ تک وافر وقت تھا۔ گوجرہ میں تب ٹینس کلب بن چکا تھا اور ایک عدد کوچ جسے ٹینس کی زبان میں مارکر کہتے ہیں، لاہور سے آ گیا تھا۔ والد صاحب نے حکم دیا کہ مارکر سے ٹینس سیکھو، وہ خود بھی گوجرہ کے اس اکلوتے ٹینس کلب میں کھیلا کرتے تھے۔
1961ء میں گورنمنٹ کالج لاہور گیا تو ایک عدد ٹینس ریکٹ میرے ہمراہ تھا۔ ایک روز ریکٹ لے کر ٹینس کورٹس گیا تو پتا چلا کہ یہاں ذوالفقار رحیم اور عظیم عنایت جیسے جغادری کھیلتے ہیں، لہٰذا مجھ جیسے دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے کھلاڑی کو اکثر آخری کورٹ پر کھیلنے کو کہا جاتا، جہاں سب کھلاڑی نوآموز ہوتے تھے۔ اب اناڑی تو اناڑی کو سکھانے سے رہا۔ اس مشکل کا حل یہ نکا لا گیا کہ مارکر غلام حسین جب بھی فارغ ہوتا تو اس سے درخواست کی جاتی کہ تھوڑی دیر پریکٹس کرا دے۔ غلام حسین بہت اچھا کھلاڑی بھی تھا اور شاندار کوچ بھی، جب ذوالفقار رحیم کو پریکٹس کراتا تو دونوں کے شاٹ دیکھنے والے ہوتے تھے۔ میں نے کوچنگ کی درخواست کی تو غلام حسین نے کہا کہ کھیلنے کے بعد مجھے ہاف سیٹ چائے اور ایک کیک پیس درکار ہوگا۔ ہم نے فوراً ہاں کر دی۔ کواڈرینگل ہوسٹل کی کینٹین بالکل ساتھ تھی، یہ دونوں لوازمات بارہ آنے میں ملتے تھے۔ غلام حسین کے ساتھ آدھا گھنٹہ کھیلنے کا یہ بہت ہی معقول معاوضہ تھا۔ وہ میرا بھگا بھگا کر برا حال کر دیتا لیکن اس رات نیند خوب گہری آتی۔
اور اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں پچھلی تین دہائیوں سے کھیل روبزوال کیوں ہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومتی سرپرستی کم ہے۔ ڈیوس کپ میچ کے دوران خواجہ سہیل افتخار بتا رہے تھے کہ انڈیا کا سپورٹس کا سالانہ بجٹ چار سو کروڑ روپے ہے۔ پی ٹی وی لوکل اور ریجنل مقابلوں کی کوریج بہت کم کرتا ہے۔ کھیلوں میں بھی سفارش اور سیاست آ گئی ہے۔ سکولوں اور کالجوں سے کھیل غائب ہو رہے ہیں، اب نوجوان فٹ بال اور ہاکی کھیلنے کی بجائے سنوکر اور وڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ بے تحاشہ ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں لیکن نقشے میں کھیلوں کے میدان نہیں ہوتے۔ پرائیویٹ سکول والے ایک گھر کے لان میں چار جھولے لگا کر باہر بورڈ لگا دیتے ہیں۔ اب ایسے سکول تو کوئی ڈھنگ کے پلیئر دینے سے رہے۔
ایتھلیٹکس تمام کھیلوں کی ماں ہے اور ہمارے ہاں سے اچھے ایتھلیٹ ایسے غائب ہوئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اور اب ذکر ہوجائے اس مایہ ناز پاکستانی ایتھلیٹ کا جسے پنڈت جواہر لعل نہرو نے Flying Bird of Asia کا خطاب دیا تھا، اور وہ تھا برق رفتار عبدالخالق جس نے ملکھا سنگھ سے کہیں زیادہ میڈل حاصل کیے۔ لیکن آج عام پاکستانی کو عبدالخالق کا علم ہی نہیں جبکہ انڈیا والوں نے ایک فلم بنا کر ملکھا سنگھ کو امر کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکھا سنگھ آئوٹ سٹینڈنگ ایتھلیٹ تھا اور یہ بھی حقیقت ہے1960ء میں ملکھا سنگھ نے لاہور میں عبدالخالق کو مات دی لیکن اس سے موخر الذکر کی عظمت کم نہیں ہوتی۔
کھیلوں کے بے شمار فائدے ہیں۔ میں نے کسی اچھے کھلاڑی کو بلڈ پریشر کی گولیاں کھاتے نہیں دیکھا۔ کھیل ہمیں ڈسپلن سکھاتے ہیں، امپائر کا فیصلہ خوش دلی سے قبول کرنے کا درس دیتے ہیں، شکست کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا اچھے پلیئر کا خاصہ ہے۔ آپ تمام نوجوانوں کو کھیلوں میں مصروف کر دیجیے، ملک میں انتہا پسندی خاصی کم ہو جائے گی۔ ہمارے جو نوجوان گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر چست اور توانا نہیں ہو سکتے۔ امریکی بجا طور پر ٹی وی کو Idiot Box کہتے ہیں یعنی وہ ڈبہ جس کے سامنے آپ گھنٹوں احمقوں کی طرح بیٹھے رہتے ہیں، اس کی بجائے اگر آپ روزانہ کوئی کھیل کھیلیں تو آپ صحت مند بھی رہیں گے اور خوش و خرم بھی۔ کھیلوں کا ایک بہت ہی مثبت پہلو صحت مند مقابلے کی عادت ہے۔ کھیل اچھے دوست بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ میری اور خواجہ سہیل افتخار کی دوستی جو آج سے پندرہ سولہ سال پہلے یونان کے ٹینس کورٹس سے شروع ہوئی تھی وہ آج تک قائم ہے۔
1992ء کے ورلڈ کپ کی جیت سے عمران خان کی پاپولیرٹی کا گراف آسمان کو چھونے لگا تھا۔ حنیف محمد، جاوید میاں داد، وسیم اکرم، سمیع اللہ، جہانگیر خان اور جان شیر خان نے پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ کیا۔ آج آپ فٹ بال اور باکسنگ کی اعلیٰ پائے کی کوچنگ لیاری میں شروع کروا دیں تو لیاری والے عزیز بلوچ اور بابا لاڈلا بننے کی بجائے انٹرنیشنل لیول کے کھلاڑی بنیں گے۔ 
میں سفارتکاری کے ناتے سے جہاں جہاں پہنچا ٹینس کا ریکٹ میرے ساتھ گیا۔ دوشنبے، ایتھینز اور مسقط میں خوب ٹینس کھیلی، کئی دوست بنائے، مسقط کے انٹر کانٹیننٹل ہوٹل میں ہونے والی رمضان ٹینس ٹورنامٹ میں شہر کے چیدہ چیدہ لوگ اور سفراء آتے تھے۔ کھیل تراویخ کی نماز کے بعد شروع ہوتا اور آدھی رات تک جاری رہتا۔ اس ٹورنامنٹ میں ایک سال میں اور میرا پارٹنر ساجد کریم سیمی فائنل تک پہنچے۔ گو ہم ہار گئے لیکن کپ ضرور ملا جو آج بھی میرے پاس ہے۔
ہم پاکستان کے عقیل خان اور ایران کے شاہین خالدان کا میچ دیکھ رہے تھے۔ مقابلہ کانٹے کا تھا۔ عقیل خان تجربہ کار کھلاڑی ہے، اس نے میچ جیت لیا۔ چائے کا وقفہ ہوا تو پاکستان ٹینس فیڈریشن کے صدر سلیم سیف اللہ خان سے ملاقات ہوئی، فرما رہے تھے کہ بارہ سال بعد ڈیوس کپ کے میچ پاکستان واپس آئے ہیں، اب دوسری ٹیمیں بھی ہمارے ہاں آئیں گی۔ بہت خوش نظر آ رہے تھے، حکومت کی دل کھول کر تعریف کر رہے تھے۔ دوسرا میچ اعصام الحق قریشی نے بڑی آسانی سے جیت لیا۔ خواجہ سہیل افتخار بے حد خوش تھے۔ میں نے ایصام کے والدین اور خواجہ صاحب کو مبارک دی۔ ٹینس میچوں کے مشاہدے میں گزارے ہوئے یہ لمحات یاد رہیں گے۔۔۔۔ کھلی فضا، اچھے ناظرین، ہر شاندار شاٹ پر تالیاں! عرصہ دراز کے بعد ایسا ماحول دیکھنے کو ملا۔ اللہ کرے کہ ہمارے کھیلوں کے میدان ایسے ہی آباد رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved