تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     05-02-2017

ISPR کی بریفنگ‘ پرانے دریچے سے نئی ہوا

پاک فوج کی قیادت میں تبدیلی کے ساتھ‘ اس کے داخلی نظام میں تبدیلیاں بھی فطری تھیں۔ نئے کور کمانڈرز آ گئے۔ آئی ایس آئی کی سربراہی جنرل رضوان اختر سے جنرل نوید مختار کو منتقل ہو گئی۔ شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ ڈی جی آرمز ہو گئے۔آئی ایس پی آر کی سربراہی سے پہلے وہ جنوبی وزیرستان میں میجر جنرل کے منصب پر خدمات انجام دے چکے تھے‘ وہاں سے آئی ایس پی آر میں آئے‘ لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر پروموٹ ہونے کے بعد بھی اسی منصب پر رہے۔ 
پاکستان بنا تو کرنل شہباز خاں آئی ایس پی آر کے سربراہ بنے۔ انگریز کے دور میں‘ بعض سویلین اہلِ قلم بھی‘ فوج کے اعزازی رینک کے ساتھ آئی ایس پی آر میں خدمات انجام دیتے رہے‘ مثلاً جنابِ فیض احمد فیض اعزازی کرنل تھے۔ آئی ایس پی آر میں توسیع کے ساتھ اس کے سربراہ کا منصب بھی کرنل سے بریگیڈیر ہو گیا۔''میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘(Witness to Surrender)اور ''ہمہ یاراں دوزخ‘‘ جیسی معرکہ آراکتابوں کے مصنف بریگیڈیئر صدیق سالک آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے جب وہ جنرل ضیاء الحق(اور پاک فوج کے کچھ اور اعلیٰ افسران) کے ہمراہC-130میں سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔ ان کی جگہ بریگیڈیئر ریاض اللہ خاں نے لی۔ انہی کے دور میں یہ منصب پروموٹ ہو کر میجر جنرل تک پہنچا۔ جنرل اسلم بیگ کی شہرۂ آفاق جنگی مشقوں (ضربِ مومن) کے دوران ریاض اللہ خاں ہی آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے۔(تصنیف و تالیف کے میدان میں اپنا سکہ جمانے والے صولت رضا اور اشفاق حسین نے کمشنڈ افسر کے طور پر اپنے فوجی کیریئر کا آغاز کیا تھا اور پھر ساری عمر آئی ایس پی آر میں گزار دی۔ صولت بریگیڈئیر کے طور پر‘ اور اشفاق کرنل کے طور پر ریٹائر ہوئے)
لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی رخصتی کے ساتھ یہ منصب دوبارہ میجر جنرل کے پاس آ گیا‘ اب میجر جنرل آصف غفور ان کے جانشین ہیں۔31جنوری کو ان کی پہلی میڈیا بریفنگ تھی(اسے ان کی پہلی رونمائی کہہ لیجیے) نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے یہ پہلے دو ماہ بھی ان کی مصروفیات کے لحاظ سے بہت اہم اور بھر پور تھے اور میجر جنرل آصف غفور اپنی رونمائی کے بغیر‘ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی ادا کرتے رہے۔ ہم نے ان کی میڈیا بریفنگ ٹی وی پر دیکھی۔ ان کی شخصیت میں رعب و دبدبے اور کروفر کے بجائے انکساری اور خود اعتمادی نمایاں تھی۔ ایک روز قبل حافظ سعید(اور ان کے پانچ رفقا) کی نظر بندی عمل میں آ چکی تھی۔ میڈیا اور پالٹیکس میں نواز شریف کے خون کے پیاسوں کے ہاتھ‘ پاناما کے ساتھ‘ ایک اور موضوع بھی آ گیا تھا‘ ایک حساس موضوع۔''کشمیر کاز اور پاکستان کے قومی مفاد سے انحراف‘‘ کے عنوان سے''مودی کے یار‘‘ پر یلغار کا یہ اچھا موقع تھا لیکن آئی ایس پی آر کے نئے سربراہ جنرل آصف غفور اس حساس معاملے کو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ٹال جانے‘ یا اسے ''حکومت‘‘ کا فیصلہ قرار دینے کی بجائے ''ریاست کا فیصلہ‘‘ قرار دے رہے تھے جس میں کوئی بیرونی دبائو نہیں بلکہ قومی مفاد بروئے کار آیا ۔حکومت کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈے کا طوفان اٹھنے سے پہلے ہی بیٹھ گیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے نئے سربراہ کی گفتگو کچھ اور حوالوں سے بھی پرانے دریچوں سے نئی ہوا محسوس ہوئی‘ مثلاً انہوں نے قومی سلامتی کے لیے افواج کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ‘ قومی یکجہتی اور آئینی و جمہوری نظام کے تسلسل کو بھی ضروری قرار دیا۔ وہ اس یقین کا اظہار کر رہے تھے کہ پاکستان کا ہرشہری اپنے اپنے مورچے کا سپاہی ہے اور اس کے ساتھ اس امر پر افسوس کا اظہاربھی کہ چند عناصر بے یقینی اور عدم استحکام کا تاثر دے کر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بقول‘ حساس معاملات پر قیاس آرائیاں ریاستی اداروں کے درمیان فاصلے پیداکر سکتی ہیں۔ انہوں نے اس بنیادی حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھا کہ ''ہمارا دفاع‘ سلامتی اور ترقی و خوش حالی ہمارے باہمی اتفاق اور تمام ریاستی اداروں کی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں(اور ظاہر ہے ان میں سیاسی و جمہوری ادارے بھی شامل ہیں)
18ویں ترمیم کے بعد‘ مسلح افواج کے سربراہوں کے تقرر کا(صوابدیدی) اختیار پھر وزیر اعظم کے پاس ہے۔ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کی طرف سے‘ اپنے جانشین کے طور پر تین چار نام تجویز کئے جاتے ہیں اور وزیر اعظم ان میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ‘ اپنے جانشین کے طور پر جنرل راحیل شریف کی ترجیحِ اول‘ ایک اور جنرل تھے لیکن وزیر اعظم نے جنرل باجوہ کا انتخاب کیا۔ جنرل راحیل شریف کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا۔ جنرل کیانی کی چوائس کوئی اور تھے لیکن وزیر اعظم کے خیال میں جنرل راحیل شریف بہتر انتخاب تھے۔ درونِ خانہ کی خبر رکھنے والوں کے مطابق اس میں وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ کی رائے کا بھی دخل تھا۔ راحیل شریف ان کے جونیئر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے اور یوں جنرل(ر) بلوچ کے دیکھے بھالے تھے۔
جنرل راحیل شریف ایک پروفیشنل سولجر کی شہرت رکھتے تھے۔ اگست 2013کی دھرنا بغاوت ان کی پہلی آزمائش تھی جس کے پیچھے اکتوبر میں ریٹائر ہونے والے پانچ چھ جرنیلوں اور اس دور کے آئی ایس آئی چیف کا نام بھی سننے میں آتا تھا۔ تب سکرپٹ رائٹر کی باتیں بھی عام ہوئیں۔ دھرنا بغاوت کے پُرجوش حامی‘ بعض ریٹائرڈ عسکری دانشور بھی غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے کھلم کھلا یہی باتیں کہتے۔ خود دھرنا بغاوت والے بھی یہی تاثر دے رہے تھے(ایمپائر کی انگلی کی بات)۔ تب آئینی و جمہوری نظام کی بقا کے لیے جنرل راحیل شریف کے کردار کی اپنی اہمیت تھی۔ کہا جاتا ہے عمران خان اور طاہر القادری سے(الگ الگ) ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے انہیں پیشکش کی تھی کہ وہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمشن کے قیام سمیت کچھ اور معاملات پر وزیر اعظم سے بات کر سکتے ہیں لیکن استعفے کی حمایت نہیں کریں گے۔ 
جنرل راحیل شریف کا دور اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ وزیر اعظم نے ان کی رخصتی کا شایانِ شان اہتمام کیا۔ آخری ملاقات میں‘ وہ منتخب وزیر اعظم کو سلیوٹ مار کررخصت ہو گئے۔ ان کے حوالے سے منفی تاثرپیدا کرنے میں خود ان کے ادارے کے ریٹائرڈ لوگوں کا حصہ بھی کم نہ تھا اور ان اہلِ سیاست و صحافت کا بھی‘ جو نواز شریف دشمنی میں ''صبح گیا کہ شام گیا‘‘ کا تاثر پیدا کرتے رہے جس کے لیے ان کی دلیل ہوتی کہ ''فوج خوش نہیں‘‘ ضربِ عضب سمیت ہر اچھے کام کو وہ فوج کا فیصلہ قرار دیتے‘ اور یوں یہ نادان دوست فوجی قیادت کی من مانی اور منتخب حکومت کے محض ''انگوٹھا چھاپ‘‘ ہونے کا تاثر دیتے۔ بدقسمتی سے عسکری ترجمان کے ٹویٹ بھی اسی تاثر کو گہرا کرتے۔ یوں لگتا تھا‘ ایک باقاعدہ حکمتِ عملی کے تحت''مسیحا‘‘ کا امیج ابھارا جا رہا ہے‘ جس کے سامنے منتخب وزیر اعظم بونا نظر آئے۔بعض نازک مراحل پر سیاسی مخالفین سے زیادہ یہ ''ٹویٹ‘‘ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئے۔
جنرل جاوید قمر باجوہ آرمی چیف بنے‘ تو سالہا سال سے انہیں قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا تھا‘ خالصتاً پروفیشنل جنرل اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود کا پابند رہنا چاہیے کسی ایک کی دوسرے کے معاملات میں مداخلت خرابیٔ احوال کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس کے لیے ماضی کی مداخلتوں کی مثال لاتے۔ آئی ایس پی آر کے نئے سربراہ کی پہلی بریفنگ نئی فوجی قیادت کی اسی سوچ کا اظہار تھی۔ ع 
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved