تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-02-2017

ناصرہ زبیری کی شاعری(2)

جلا ہے تیز ہوا سے گریز کرتے ہوئے
دیے نے کُھل کے ابھی اختلاف کرنا ہے
نئے بیان سے بھی انحراف کرنا ہے
ابھی گواہ نے کچھ انکشاف کرنا ہے
پھر اس کے بعد تو رستہ نکل ہی آئے گا
فصیلِ ذات میں پہلا شگاف کرنا ہے
مدارِ عشق سے اب وقت ہے نکلنے کا
مگر یہ دل کہ اسے پھر طواف کرنا ہے
.........
روکا کسی کی یاد نے ہم کو سڑک کے بیچ
چلنے لگے جو پھر تو اشارہ بدل گیا
ہم سوچتے ہی رہ گئے بدلیں گے ایک دن
وہ دیکھتے ہی دیکھتے سارا بدل گیا
.........
روک لیتی تھی نظر تیری قدم اُٹھے ہوئے
ہم ترے آخری مہمان ہُوا کرتے تھے
.........
کوئی پھوار سا برسے‘ ہوا سا چُھو جائے
بدن کی شاخ پہ کِھلتی ہیں خواہشیں کیا کیا
ایک نظر کے بدلے منظر چھوڑ دیے
بُوند ملی تو سات سمندر چھوڑ دیے
جاتے جاتے اُس نے دل کی ندی سے
پانی ساتھ لیا اور پتھر چھوڑ دیے
قید کیا اُس نے اک پل‘ آزاد کیا
ہاتھ مرے ہاتھوں میں لے کر چھوڑ دیے
.........
ساحل پر اک خوف کی بیڑی پڑی رہی تھی پائوں میں
آگے پانی کا ڈر‘ پیچھے کھائی کا اندیشہ تھا
.........
چلتی ہیں آسمان پہ بادل کی کشتیاں
نیچے سمندروں میں زمیں ڈوبنے کو ہے
.........
اُس کے دریا نے بدل ڈالا ہے رستہ اپنا
سُوکھتی نہر کا اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا
.........
ہم ایک موج کو آدھا خرید بیٹھے ہیں
ہم اک بٹا ہُوا دریا خرید بیٹھے ہیں
نجانے دوسری جانب پہ کون قابض ہے
ہم اک طرف کا کنارہ خرید بیٹھے ہیں
وہ ایک درد کا گاہک ہمیں سمجھتا تھا
ہم اُس کا سارا ذخیرہ خرید بیٹھے ہیں
جسے کہیں بھی اجازت نہیں دکھانے کی
ہم اس طرح کا تماشا خرید بیٹھے ہیں
جسے پہن کے اجازت نہیں بدلنے کی
ہم ایسے رنگ کا چولا خرید بیٹھے ہیں
.........
بدلی مرے نصیب کے تاروں کی چال جب
کرنے لگا وہ چاند بھی گردش مرے خلاف
منزل سے دلفریب ہے رستہ تلاش کا
جاری رہے گا خواہشِ ناکام کا سفر
.........
وہ تنہائی جُدا تھی تجھ سے پہلے
جو تیرے بعد جھیلی‘ مختلف تھی
رستہ یاد نہیں رہتا
گرچہ روز گزرتی ہوں
شیشہ بن کے پتھر پر
گرتی اور بکھرتی ہوں
آوازوں کے گھائو کو
خاموشی سے بھرتی ہوں
.........
رات تو آخر آنی تھی
یہ تو اک دن ہونا تھا
کبھی کبھی مرجاتی ہے
خواہش جان بچانے کی
ناصرہؔ تُو بہت منافق ہے
کوئی تیرے اگر خلاف نہیں
.........
خاموشی سے بھر جائو گے
چیخو ورنہ مر جائو گے
.........
سر کے پیچھے بھی آنکھ اُگ آئی
تجھ سے منہ موڑ کے بھی دیکھ لیا
.........
ڈوب جاتے ہیں یہیں آئو کہ گہرے دریا
چل کے آگے کہیں پایاب بھی ہو سکتے ہیں
نئی تعبیر کی خواہش ہے‘ لیکن
پُرانا خواب دیکھا جا رہا ہے 
.........
منزل تمام عمر مرے سامنے رہی
اک راستے نے مجھ کو گزرنے نہیں دیا
.........
دل مُنکر تھا تیرا شہر بدلنے سے
چھوڑ کے دل کو آگے ہجرت کی میں نے
ایک عبوری مُدت کے سمجھوتے میں
دل پہ تھوڑی دیر حکومت کی میں نے
.........
تمہاری ایک نظر تھی گُزر گئی دل سے
فقیرِ عشق بنائے‘ غُلام کرتے ہوئے
شفق کے ساتھ ترے لوٹنے کے وعدے پر
گزر گئی ہے مری عُمر شام کرتے ہوئے
تراشتے ہوئے دیکھا ہے سب نے ہیرے کو
کسی نے دیکھا نہیں دل کو خام کرتے ہوئے
.........
رات بھر ٹوٹے ہوئے خواب کے آزار کے ساتھ
کون روتا ہے مری آنکھ کی دیوار کے ساتھ
(جاری) 
آج کا مطلع
مہربانی نہ عنایت کے لیے دیکھتا ہوں
دیکھ سکنے کی اجازت کے لیے دیکھتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved