تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-02-2017

کشمیر اور بھارتی فوج

پچھلے کئی سالوں سے یومِ یکجہتی پر وکالت نامے کا عنوان کشمیرکا مقدمہ ہی رہا۔ اس سال دو نئے ٹرینڈز ساتھ جڑے ہیں۔ پہلا، نئے امریکی صدر ڈی جے ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کا؛ حالانکہ نئے امریکی صدر صاحب کو اپنی خوشنودی سب پر بھاری لگتی ہے۔ بہت سے پاکستانی درخواست گزاروں نے ان دی لائن آف خوشنودی نام لکھوائے مگر لگتا ہے امریکہ کا سیاسی کردار تبدیلی کی راہ پر چل نکلا ہے۔ ایسے ماحول میں جہاں لاطینی امریکہ اور آسٹریلیا جیسے گورے ملکوں کے فری اینڈ فیئر الیکشن سے اقتدارمیں آنے وا لے حکمران ڈی جے ٹرمپ سے براہ راست بے عزتی کرا چکے ہیں وہاں ہماری پرچی ڈپلومیسی کیا گل کھلائے گی۔ یہ سوچ کر ہی طائر لاہوتی پر رحم آ جاتا ہے۔ دوسرا ٹرینڈ کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ آج کے اخبارات میں بھی اس کی نئی قسط آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ ایک اور بھارتی فوجی نے آتما ہتیا سے پہلے ہی بھارت کے فوجی مستقبل کی پستی کا نقشہ کھینچ رکھا ہے، خاص طور پر وہ انڈین سولجر جو مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج کا حصہ ہیں۔ بظاہر عام سے نظر آنے والے یہ واقعات اپنے اندر مضمرات کا خزانہ رکھتے ہیں۔ بھارتی فوج کے مسلسل گرتے ہوئے مورال کی وجہ سے مودی سرکار کو کئی نئے محاذ کھولنے پڑ گئے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم محاذ پاکستان کی فوج کو بحیثیت ادارہ نشانے پر رکھنا ہے۔ بھارت کے اندر سے یہ مقصد پورا نہ ہو سکا حالانکہ پاکستان میں نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کے بعد کئی اطراف سے منظم مہم چلی۔ اندرون ِبھارت اس مہم کا سب سے بڑا سلوگن ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ ٹھیرا یا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بروقت سچا سپاہی ہونے کا ثبوت دیا اور ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ کولڈ سٹارٹ کی دھمکی ہو یا سرجیکل حملوں کی بڑھک، پاکستان آرمی نے دونوں سے نمٹنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ یوں جنگی جنون میں مبتلا بھارتی ٹی وی اینکرزکا مورال خاموشی سے ''لینڈ‘‘ کرگیا۔ البتہ بھارت نےAlternate Issue Resolution) ( کی سٹریٹیجی آزمانی شروع کر دی ہے۔ پہلا قدم کلبھوشن یادیو کے لئے پاکستان کے اندر''ذاتی‘‘ دوستوں سے نرمی سے اقدامات اٹھوانے کا تھا۔ یہ پلان انڈیا سے لیک ہو گیا اور یوں فری کلبھوشن موومنٹ کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ اسی سلسلے کے ٹریک II کا نشانہ براہ راست جنرل باجوہ کی ذات کو بنایاگیا۔ یہ دوسرا مس فائر ثابت ہوا۔ پنجاب کے دیہاتی وسیب میں ہم ایک دوسرے کو نسلوں سے نہیں بلکہ جڑوںسے جانتے ہیں۔ ایک سپاہی اور سپاہی گر پر یہ وار بھی کارگر ثابت نہ ہوا اور نہ ہی ذاتیات اور خواہشوں کو معلومات بنا کر پیش کرنے والوں کو شرم آسکی نہ حیا۔ یہ حربہ بھی ان کا کچھ بگاڑنے میں کامیاب نہ ہوا جس کا ثبوت یہ بیان تھا کہ ہماری تشفی ہو گئی ہے۔
سرکار دو عالم کی ذات پاک محسن انسانیت، آخری پیغمبر، رحمۃ للعالمین ﷺ اور دنیا کی تاریخ کے بہترین کمانڈر ہیں۔ جب یثرب میں مدینہ کی ریاست قائم کرنے کا آغاز ہوا تو ارد گرد کے دشمنوں سے ریاست کے تحفظ کے لئے ''کمانڈو‘‘ جیش بنائے گئے۔ یہ کمانڈو سر کشی کرنے والے قبائل اور مدینہ کی ریاست کے خلاف منظم حملہ آوروں سے نمٹنے کی ایسی فورس تھی، جسے آج کی زبان میں''Quick Response Force‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ کمانڈو ایکشن کرنے والے ان ''سرایا‘‘ کی نگرانی براہ راست سرور کائناتﷺ خود فرماتے۔ ایسا ہی ایک سریہ کامیاب مشن کے بعد واپس لوٹا۔ آپﷺ کی خدمت اقدس میں لڑائی کی روداد بیان کی گئی۔ ایک عسکری نے عرض کیا کہ دشمن کے گروہ میں سے حملے کے دوران ایک شخص بھاگنے لگا، میں نے اس کا پیچھا کیا اوراس تک جا پہنچا۔ اس آدمی نے جان بچانے کے لئے کہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، مجھے قتل نہ کرو، لیکن میں نے اس کا بہانہ رد کر دیا اور اسے مار ڈالا۔ محسن انسانیت ﷺ کی جانب سے Code of War یعنی جنگ کے دوران لڑائی کے اصول پہلے سے طے شدہ تھے۔ رسول کریم ﷺ نے مارنے والے سے فرمایا کہ کلمہ شہادت پڑھ لینے کے بعد تم نے اسے کیونکر ہلاک کیا، تو جواب آیا کہ اس نے زبانی اسلام قبول کیا تھا،دل سے نہیں۔ حسن کلام و بیان کے آخری مینار سے روشنی کے یہ الفاظ پھوٹے: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟
اسی تناظر میں دو عدد بھارتی سپانسرڈ ٹریک اور بھی چل رہے ہیں۔ ایک کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کے بدنام ترین بھارتی تشدد سے تو جہ ہٹانا تھا۔ پھول سے بچوں کی لاشیں، اجتماعی عصمت دری کے ہولناک واقعات، پیلٹ گن سے اندھے ہونے والے لاتعداد معصوموںکی آنکھیں، اجڑے ہوئے خاندان، قابض درندوں کے ہاتھوں جلے ہوئے وہ گھر اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرچم بردار ریلیاں۔۔۔۔ سب کچھ منظر سے ہٹ گیا ہے۔ اس وقت قومی منظرنامے پر جو باقی بچا، خود اپنی فوج کا میڈیا ٹرائل ہے۔ آج وہ خبر خوب لگتی ہے جس کے ذریعے ملک کے بنیادی نظریے سے بغاوت، مذہب سے بیزاری کا عنصر یا اپنی فوج کے نام دشنام کا کھلا اشارہ موجود ہو۔ قارئینِ وکالت نامہ معذرت چاہتاہوں، باریک مضمون ہے، بریکنگ نیوز نہیں اس لئے درست تجزیہ تک پہنچنے کے لئے گہری نظر ڈالنی ہوگی، لیکن اتنی بھی گہری نہیں۔ واقعات جوڑکر خود دیکھ لیں، تصویر برسر دیوار ہے۔ سکول، ہسپتال، پبلک ٹرانسپورٹ، پنشنر، خواتین، سوشل ویلفیئر اور ادارہ جاتی استحکام سمیت وہ سب کچھ جن پر پچھلے دو سو سال سے فلاحی ریاستیں کھڑی ہیں، اسے نیست و نابود کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں کشمیر اور اس کے نام پر ڈالی گئی پارلیمانی کمیٹی کی اپنی علیحدہ دنیا ہے۔ قوم کشمیر کے ساتھ کھڑی ہے۔ فوج قوم کی امنگوں کی پشت پر کھڑی ہے جبکہ کمیٹی وزارت خارجہ کے چلمن میں سے باہر آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وزارت خارجہ کے تازہ مالکان مودی کی خوشنودی کی مہم پر ہیں۔ مودی انہیں امریکی صدر ڈی جے ٹرمپ تک پہنچنے کا قطری گھوڑا نظر آرہا ہے۔ آج کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے لئے سرکاری دفتروں سے ان سیاسی ادکاروں کے بیان جاری ہوتے ہیں جنہیں ملک میں بھی کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں پاک فوج کو نشانے پر رکھنے سے زیادہ بھارتی نیتائوںکو کیا ریلیف مل سکتا ہے یا تحفہ؟
مقبوضہ کشمیر کا نوجوان آج خود اپنا قائد ہے۔ اس کی منزل پاکستان ہے۔ نشان منزل کو اس نے اپنا عَلم بنا لیا ہے جو ہے سبز ہلالی پرچم! کشمیر کی آزادی ہر گام پر واضح نظر آ رہی ہے جبکہ بھارتی فوج کو ریلیف دینے کے خواہش مندوں کے ملگجے چہرے وقت کی دھول میں بھی صاف پہچانے جا سکتے ہیں: 
اپنے ہونٹ سیئے ہیں تم نے 
میری زباں کو مت روکو 
تم کو اگر توفیق نہیں ہے
مجھ کو ہی سچ کہنے دو

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved