تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     07-02-2017

مانند حرمِ پاک ہے تو میری نظر میں

یہ الفاظ اقبال کے ہیں جو ہسپانیہ کو مخاطب کر کے لکھے گئے۔ بال جبریل کی نظم نمبر107 کے پہلے شعر کا دُوسرا مصرع آج کے کالم کا عنوان ہے۔ غور فرمائیے کہ اقبال کی نظر میں ہسپانیہ کا درجہ حرم پاک کا تھا۔ وجہ؟ اقبال نے وجوہ بھی بتائیں۔ وہ سرزمین خونِ مسلمان کی امین ہے، اُس کی خاک میں سجدوں کے نشان اور بادِ سحر میں خاموش اذانیں پوشیدہ ہیں۔ اقبال نے سوچا کہ ہسپانیہ کی سرزمین سے مخاطب ہونا اپنی جگہ کتنا اچھا فیصلہ سہی، مگر وہاں کی حسینائوں اور اُن کی زیبائش کی ایک بنیادی ضرورت ''حِنا‘‘ کا کیا بنے گا؟ اقبال نے بے دھڑک اپنے خون جگر کی پیشکش کر دی۔ خبر، نظر اور جگر۔۔۔۔ان تین الفاظ کا استعمال اقبال کی اگلی نظم نمبر (108) میں اس طرح کیا گیا کہ لگتا ہے اقبال نے طارق کی زبان سے دُعا مانگتے ہوئے یہ تین الفاظ اس طرح موتیوں کی طرح پرو دیے کہ اندلس کا میدانِ جنگ ان الفاظ کی آب و تاب سے جگمگا اُٹھا ہوگا۔
میں نے گزشتہ کالم میں کرسمس کے موقع پر تمام چیزوں (کتابوں سمیت) کی سستی فروخت کا ذکر کیا تھا۔ جب کم قیمت پر زیادہ کتابیں خریدنے کا شوق غالب آجاتا ہے تو میں کتابوں کی دُکان کا رُخ کرتا ہوں۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ اپنے وقت کے بڑے صحافی جناب حمید جہلمی (مرحوم ) کے برادرِ نسبتی پروفیسر خضر اعظم نے روزنامہ پاکستان ٹائمز کے عروج کے زمانہ میں میرے ساتھ ایک چھت تلے دو سال کام کیا۔ سال نَو کے پہلے دن اُن پر اور اُن کی خدمت گزار بیوی (زہرہ آپا) پر قیامت ٹوٹی۔ ان کا جوان سال بیٹا (عمار) کینسر سے اپنی پرانی جنگ ہار گیا۔ اس ماتم کی وجہ سے میں کتابوں کی دُکانوں پر زیادہ دھاوا نہ بول سکا۔ ایک دن پہلے جو کتابیں میری توجہ کا مرکز بنیں اُن میں سے ایک کا ذکر پچھلے کالم میں کیا گیا تھا۔ باقی تین کا آج کروں گا۔
ان تینوں کتابوں کا موضوع سپین اور اُس کی جدید تاریخ ہے، خصوصاً خانہ جنگی جو انیس سو چھتیس سے انیس سو انتالیس تک چار سال جاری رہی۔ اسی سال گزر گئے ہیں مگر مورخ ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ہسپانوی خانہ جنگی کو کس طرح یاد کیا جائے؟ اُسے تاریخ میں کیا مقام دیا جائے؟ ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے ادیب کیمس کا قول پڑھ لیں: 
:It was there that my generation learned that one can be right and yet be beaten; that force can vanquish spirit.
پہلی کتاب کا عنوان ہے: Spain in our Hearts (ہسپانیہ جو ہمارے دلوں میں آباد ہے۔) تینوں کتابیں بڑی اعلیٰ درجہ کی ہیں۔ سپین کی خانہ جنگی میں دُنیا بھر کے رضاکاروں نے حصہ لیا۔ امریکی رضا کاروں کی تعداد 2800 تھی جن میں جان کی قربانی دینے والوں کی تعداد 750 تھی۔ گروپ کا نام تھا ابراہم لنکن بریگیڈ۔ سارے رضا کار نظریاتی اعتبار سے کمیونسٹ تھے۔مصنف کی رائے میں ایک جنگی ہیرو، Merrimon نے اتنے زبردست کارنامے سرانجام دیئے کہ نوبل انعام یافتہ ادیب ارنسٹ ہیمنگو وے نے اپنے ناولFor whom the bell Tolls کے ہیرو Jordan کا کردار اس کے جنگی کارناموں کے خطوط پر تخلیق کیا۔
ان دنوں کیا ہو رہاہے؟ مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک (عراق اور شام) کئی سالوں سے انتہائی خونریز خانہ جنگی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں، مگر 40 کے قریب اسلامی ممالک نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لی ہیں۔ برما کے لاکھوں بے یار و مددگار مسلمانوں کے لئے زمین سخت ہے اور آسمان دُور۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں؟ اُن کا پڑوسی بنگلہ دیش ایک بھی مصیبت زدہ مسلمان گھرانے کو پناہ دینے پر تیار نہیں۔ یورپ کی اخلاقی ذمہ داریوں کی فہرست اتنی لمبی ہرگز نہیں کہ وہ بحیرہ روم سے شروع ہو اور خلیج بنگال تک جا پہنچے۔
اسلامی ملکوں کی بے حسی کے حوالے سے جو حال ان دنوں ہے، 80 سال پہلے یورپ کے لبرل اور جمہوری ممالک کا یہی تھا۔ سپین کی عوام دوست حکومت کی کسی یورپی ملک یا امریکہ نے کسی قسم کی مدد نہ کی۔ اس کے برعکس اٹلی اور جرمنی کی فسطائی حکومتوں نے عوام دُشمن طاقتوںکے لیڈر جنرل فرانکو کو بھر پور امداد دی۔ یاد رہے کہ سپین کی قانونی اور آئینی حکومت جمہوری تھی۔ وہ قانونی طریقے سے الیکشن جیت کر برسر اقتدار آئی تو قدامت پسند اور عوام دُشمنوں نے سپین کی فوج کے ایک بڑے حصے کے ساتھ مل کر بغاوت کر دی اور بد قسمتی سے یہ عناصر نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ 1975ء تک برسر اقتدار رہے۔ پڑوسی ملک پرتگال کا بھی یہی حال ہوا جہاں فسطائی آمرانہ حکومت Salazar کی سربراہی میںتقریباً 60 سال اقتدار پر قابض رہی۔ خدا کا شکر ہے کہ ان دونوں ممالک کی فسطائیت جیسی عظیم لعنت سے جان چھوٹ گئی اور اب وہ دوڑ کر ترقی کا وہ سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔
مذکورہ کتابوں کی بنیاد گپ شپ پر نہیں۔ اُن کی بنیاد ٹھوس تحقیق پر رکھی گئی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہیںکہ اٹلی اور جرمنی کی فسطائی حکومت نے اپنے بھائی بند (جنرل فرانکو) کو نہ صرف بڑی تعداد میں جدید اسلحہ دیا بلکہ 60 ہزار افراد پر مشتمل فوج بھی۔ انسانی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نیکی کی طرح بدی بھی ناقابل تقسیم ہے۔ اگر سپین میں جنرل فرانکو کو شکست ہو جاتی تو شاید یورپ میں دُوسری جنگ عظیم نہ ہوتی جس میں اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ سپین کی خانہ جنگی میں بھی دس لاکھ افراد مارے گئے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت فسادات سے دوگنا اور مشرقی پاکستان میں ہونے والی خانہ جنگی سے چار گنا زیادہ۔ ساری دُنیا سے جو رضا کار سپین کی جمہوری حکومت کے طرفدار بن کر لڑنے آئے، اُن میں سے دس ہزار جان سے گئے۔ انہوں نے ایک اعلیٰ مقصد اور ایک آدرش اور انسان دوستی کی خاطر اپنے بال بچوں، کاروبار، اچھی ملازمتوں اور اپنے گھر کے سکون کو خیر باد کہا اور بغیر کوئی معاوضہ لیے بطور ایک رضا کار سالہا سال میدان جنگ میں اپنی جان کی قربانی دے کر آخری وقت تک لڑتے رہے۔ آج ہم اُن افراد کے ناموں سے بھی واقف نہیں، صرف یہ جانتے ہیں کہ اُنہوں نے اجتماعی طور پر آئندہ نسلوں کے لئے وُہ پیغام چھوڑا جو مسلمانوں کو کربلا نے دیا تھا۔ بہتر ہو گا کہ میں اپنی ایک تصحیح خود ہی کر لوں۔ میں یہاں تک لکھ چکا تھا کہ میری نظر سپین کی خانہ جنگی پر لکھی ہوئی ایک اور چھوٹی سی گم نام کتاب پر پڑی جس میں یہ ضروری اطلاع درج تھی کہ صرف سوویت یونین نے (اشتراکی اور نظریاتی بنیاد پر ہم آہنگی کی وجہ سے) سپین کی نوزائیدہ جمہوری حکومت (جس نے ملک کی ساری زمین کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا) کی مالی اور عسکری مدد کی۔ دُوسری جنگ عظیم سے سوویت یونین نے اس طرح کی امداد ویت نام سے لے کر لاطینی امریکہ میں ہونے والی ہر مسلح عوامی جدوجہد کو دی اور خوب ثواب کمایا۔ لیکن جب اسی سوویت یونین نے افغانستان میں ایک غیر جمہوری حکومت کی سہارا دینے کے لئے فوجی مداخلت کی تو شکست کھا گیا۔ کالم ختم ہونے کو تھا کہ میں نے ایک بار پھر اقبال کی مذکورہ نظم پڑھی جس کے ایک مصرع سے یہ کالم شروع ہوا تھا۔ اب آپ میرے ساتھ اُس کا چھٹا شعر پڑھیں ؎ 
غرناطہ بھی دیکھا میری آنکھوں نے ولیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں
جب نظر اور خبر بھی اقبال کے تازہ ولولوں سے بھر پور دل بے تاب کی تسلی نہ کر سکے تو سفر اور حضر کس طرح کرتے؟ یاد رکھیے، اقبال کو سزا کے لئے بھی (حالانکہ اُنہیں سزا کیوں ملتی؟) وہ آگ بھی قبول نہ تھی جس کے شعلے سرکش و بے باک نہ ہوں۔ اقبال ہرگز مردِ تن آسان نہ تھے؟ وہ ہمارے جیسے کاہلوں، افیمیوں، جاہلوں، عقل و اجتہاد کے دُشمنوں کے مرُدہ دلوں اور راکھ کے ڈھیر جیسے بے جان لوگوں کے کام آتے تو کیونکر؟ اُنہوں نے شاعرانہ ترنگ میں یہ بھی کہہ دیا کہ وہ تن آسانوں کے کام آئے۔ کس طرح آسکتے تھے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved