تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-02-2017

’’کہاں گئے وہ لوگ‘‘

بانو آپا سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی، یاد نہیں۔ دو عشرے سے دو چار سال زیادہ ہو گئے ہوںگے۔ اشفاق صاحب کی محبت نے حوصلہ دیا اور ایک روز121سی ماڈل ٹائون المعروف ''داستان سرائے‘‘ کی بیل دی اور اندر بلا لیا گیا۔ بانو آپا کو پہلی بار تب دیکھا۔ آخری ملاقات یاد ہے۔ ان کی رخصت سے صرف دو ماہ دس دن پہلے فیصل آباد لٹریری فیسٹیول پر انہیں دیکھا اور سنا۔ وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی بانو آپا اتنی ہی گریس فل تھیں جتنی کہ پچیس چھبیس سال پہلے۔
فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا پہلا دن اور پہلا سیشن۔۔۔ موضوع تھا ''ادب اور فنون لطیفہ ،کل اور آج‘‘۔ اس موضوع پر خطاب تھا پرویز ہود بھائی کا اور شمیم ہاشمی کا، صدارت بانو آپا کر رہی تھیں۔ وہ سٹیج پر بھی وہیل چیئر پر آئیں اور اسی پر تشریف فرما رہیں۔ نقاہت چہرے سے عیاں تھی مگر طبیعت کی تمکنت اسی طرح تھی۔ سلیمہ ہاشمی نے آرٹ کے حوالے سے اپنا پیپر پڑھا اور یک طرفہ تصویر کشی کی۔ رہ گیا پرویز ہود بھائی‘ تو اس کا سارا ملبہ حسب معمول ایک ہی طبقے پر تھا۔ نام لیے بغیر جناب اقبال کا مصرع ''آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد‘‘ کو مشق ستم بنایا اور علامہ اقبال پر اپنے دل کے پھپھولے جی بھر کر جلائے۔ مجھے ذاتی طور پر رتی برابر حیرت نہ ہوئی کہ اس قبیل کے لوگوں سے ایسا ہی متوقع تھا۔ منتظمین نے ادب اور فنون لطیفہ پر گفتگو کے لیے اس شخص کو دعوت دی جس کا دونوں اصناف سے رتی برابر تعلق نہیں تھا اور اس کی ساری تقریر بالکل اسی رٹے باز نالائق طالب علم جیسی تھی جسے استاد نے بتایا تھا کہ کئی مضامین کو محض تھوڑی سی قطع برید کے ساتھ دوسرے مضمون میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً پوسٹ مین کو سکول کے چپڑاسی میں کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے اور مائی بیسٹ فرینڈ کو مائی فیورٹ ٹیچر میں کن تبدیلیوں کے ذریعے بدلا جا سکتا ہے۔ امتحان میں مائی 
فادر آ گیا تو اس نے بیسٹ فرینڈ کو مائی فادر میں تبدیل کرتے ہوئے اسی فارمولے پر عمل کیا اور مضمون کا آغاز ہی اس جملے سے کیا کہ ''میرے ویسے تو کئی باپ ہیں لیکن جوگندر سنگھ میرا بہترین باپ ہے‘‘ باقی مضمون کا آپ خود اندازہ لگا لیں۔
بانو آپا نے آخر میں اختتامی خطاب کیا اور پرویز ہود بھائی کی پون گھنٹے پر مشتمل طویل اور بے ربط تقریر کا محض دو منٹ میں دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا۔ بانو آپا کو دل ہی دل میں سلیوٹ مارا۔ جب وہ سٹیج سے وہیل چیئر پر رخصت ہوئیں، انہیں پاس جا کر سلام کیا۔ انہوں نے محبت سے جواب دیا اور پھر دو دن پہلے خبر ملی کہ بانو آپا اس جہان فانی سے کوچ کر گئی ہیں۔
اپنی کتاب میں ایک جگہ مختار مسعود نے بیروت کے آبی محلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ سنا ہے بیروت کی خانہ جنگی میں ہونے والے دھماکوں میں یہ زیر زمین آبی محلات زمین بوس ہو گئے ہیں، لیکن مسافر کو ملال نہیں۔ مسافر یادوں کا دریجہ کھولتا ہے اور ان محلات میں سفر کر لیتا ہے۔ یہی حال اس فقیرکا ہے۔ جب تک اردو زبان میں افسانہ لکھا جاتا رہے گا۔ جب تک اردو ڈرامہ زندہ ہے اور جب تک اردو ناول کا قاری موجود ہے بانو آپا کو بھلانا میرے تو کیا‘ کسی کے بھی بس میں نہیں۔
میرا ایک روز آدھی رات کو اپنی اہلیہ سے جھگڑا ہو گیا۔ جھگڑا کس بات پر ہوا؟ میں بستر میں گھسا مستنصر حسین تارڑ کا ناول ''راکھ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ میری اہلیہ بستر کے ایک طرف جلنے والی لائٹ سے اٹھ بیٹھی اور پوچھنے لگی، میں کیا پڑھ رہا ہوں؟ میں نے کہا مستنصر کا ناول راکھ۔ پوچھنے لگی کیسا ہے؟ میں نے کہا اگر مزہ نہ دے رہا ہوتا تو رات گئے اسے پڑھنے کے بجائے اب تک سو چکا ہوتا۔ کہنے لگی اس روشنی میں نیند نہیں آ رہی۔ مجھے بھی کوئی کتاب دیں۔ میں نے سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی سنگ میل پبلیکیشنز سے لائی ہوئی کتابوں کی تازہ کھیپ سے بانو آپا کی ایک کتاب اٹھائی اور اس کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ کہنے لگی اور کون کون سی کتابیں ہیں؟ میں نے کہا، بس بانو آپا کی کتابیں ہیں اور ایک اشفاق صاحب کی کتاب تمہاری مرضی کی ہے، باقی کتابیں تمہاری پسند کی نہیں۔ ہیرالڈ لیم کی کتاب ہے اور دو کتابیں فن تعمیر پر ہیں۔ بانو آپا کی کتاب ہاتھ میں پکڑ کر پوچھنے لگی، آپ کا کیا خیال ہے بانو آپا بڑی افسانہ نگار ہیں یا اشفاق صاحب؟ میں نے کہا اس میں میری رائے نہ پوچھو تو بہتر ہے، مجھے پتا تھا کہ اس کا جواب کیا ہو گا؛ تاہم میں نے مزہ لینے کے لیے اسے جواب نہ دیا۔ دوبارہ کہنے لگی، آپ اپنی رائے بتائیں، اس میں بھلا کیا مشکل بات ہے؟ میں نے کہا، بانو آپا۔ اور اشفاق صاحب؟ اس نے پوچھا۔ میں نے کہا تم نے میری رائے پوچھی تھی وہ میں نے دے دی ہے، اب اس میں سوال در سوال کا کیا جواز ہے؟ کہنے لگی آپ کی رائے سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، یہ کوئی حرف آخر تو نہیں کہ اس پر بات بھی نہ ہو سکے؟ میں نے اسے چڑانے کے لیے کہا، تم نے راجہ گدھ پڑھی ہے؟ اس سے اچھا ناول اشفاق صاحب نے لکھا ہو تو نام بتائو۔ امر بیل‘ خاکستری بوڑھا‘ پیانام کا دیا اور تدبیر لطیف جیسے افسانوں اور موم کی گلیاں جیسا ناولٹ تم نے پڑھا ہو تو بات کرو۔ کہنے لگی، اشفاق صاحب نے گویا کچھ نہیں لکھا؟ میں نے کہا، نعوذ باللہ میں نے ایسا کب کہا ہے، صرف ''گڈریا‘‘ اشفاق صاحب کو تا قیامت زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ کہنے لگی آپ کا مطلب ہے اشفاق صاحب نے گڈریا کے علاوہ اور کچھ نیں لکھا؟ اللہ جانے میرے جی میں کیا آئی، میں نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے کہا، لکھا ہو گا مگر مجھے اس وقت یاد نہیں۔ اس نے غصے میں اٹھ کر کتاب سائڈ ٹیبل پر پٹخی اور لائٹ بند کر دی۔ صبح ناشتہ بھی اس نے خراب موڈ میں دیا۔
میں سہ پہر کو گھر واپس آیا تو اس کا موڈ نہایت خوشگوار تھا۔ میں نے ہنس کر کہا، مہربان تم بانو آپا کی طرح ہو اور لڑتی اشفاق صاحب کے لیے ہو۔ ہنس کر کہنے لگی، بندہ آدھی رات کو نیند خراب ہونے پر اٹھے تو گرمی تو کھائے گا۔ یہ تب کی بات ہے جب نظر ساتھ دیتی تھی اور رات گئے تک پڑھنا معمول تھا۔ اب یہ حال ہے کہ کالم لکھنا کار محال ہے اور کتاب پر نظر ٹھہرنا مشکل۔ دھند لاپن ایسا کہ ارتکاز ممکن نہیں رہا۔ کتابیں خریدنے کی وہی پرانی ہڑک۔ چند مہینے ہوتے ہیں، سنگ میل پر گیا اور افضال سے مل کر دل شاد کیا۔ واپسی پر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر چند کتابیں اٹھالیں۔ بانو آپا کی کتاب ''شہر لازوال‘ آباد ویرانے‘‘ ان کتابوں میں سہرفہرست تھی۔ دماغ نے پوچھا، پڑھو گے کیسے؟ دل نے جواب دیا دیکھا جائے گا۔ سٹڈی ٹیبل پر کتابوں کا ایک ڈھیر اکٹھا ہو چکا ہے جو اس انتظار میں ہے کہ میں فلا ڈیلفیا کے نزدیکی قصے بینسیلم جا کر امتیاز چوہدری سے آنکھوں کا آپریشن کروائوں اور کتاب سے ٹوٹا رشتہ 
پھر سے جوڑوں۔ ڈاکٹر عمر فاروق سے کہا ہے کہ وہ آپریشن کا وقت لے کر دے کہ اس کے بعد راجہ گدھ کو ایک بار پھر پڑھ سکوں۔
راجہ گدھ میں نے کتنی بار پڑھی ہے، ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ پانچ بار‘ چھ بار یا شاید سات بار۔ ہر دفعہ اس کی نئی جہتیں اور پرتیں کھلیں اور اطمینان ہوا کہ ابھی دماغی حالت اور استعداد ایسی ہے کہ جو بات کل سمجھ نہیں آ رہی تھی آج آ رہی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ابھی باتوں کو سمجھنے کی صلاحیت کا سفر تمام نہیں ہوا۔ یہ ایک نیا تصور تھا کہ کس طرح مال حرام انسان کے جین پر اثر انداز ہوتا ہے اور پاگل پن کا باعث بنتا ہے۔ اردو ادب میں ایسا انوکھا تصور اور اتنی خوبصورتی سے مردار خورگدھ کا انسانی زندگی پر حرام خوری کے اثرات سے موازنہ کیا گیا ہے۔ موم کی گلیاں ایسا ناولٹ لکھنا بھلا بانو آپا کے علاوہ اور کس کے بس کی بات ہو گی کہ شہد کی مکھیوں پر ایسا لکھنا شاید علم حیوانات کے کسی ماہر کے لیے بھی ممکن نہ ہو گا۔ اس کو انسان پر منطبق کرنا بھلا عام آدمی کے بس کی بات ہی کب ہے؟ وہ اب ہم میں نہیں رہیں لیکن وہ گئی بھی کہاں ہیں؟
میری لائبریری میں جب تک راجہ گدھ‘ حاصل گھاٹ‘ ہجرتوں کے درمیان‘ دست بستہ‘ توجہ کی طالب‘ سامان وجود‘ ناقابل ذکر‘ دوسرا دروازہ‘ پروا‘ شہر بے مثال‘ باز گشت‘ ایک دن‘ امر بیل‘ کچھ اور نہیں‘ آتش زیرپا اور موم کی گلیاں موجود ہیں بانو آپا کو دل سے کون بیدخل کر سکتا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اب ایسا افسانہ کون لکھے گا؟ ایسی کہانی کون بیان کرے گا؟ اور سنگ میل سے بانو آپا کی نئی کتاب کا برادرم افضال سے کون پوچھے گا؟
جو شمع بزم جہاں تھے/کہاں گئے وہ لوگ
جو راحت دل و جاں تھے/ کہاں گئے وہ لوگ
روحِ عمر رواں تھے/ کہاں گئے وہ لوگ
ابھی ابھی تو یہاں تھے/ کہاں گئے وہ لوگ
(مجید امجد) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved