تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     07-02-2017

راہِ حق کے دو مسافر

آنحضورؐ کی ہجرت تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ قدم قدم پر معجزات اور اللہ کی نصرت نظر آتی ہے۔ ہمارا ہجری کیلنڈر اسی سفر سے وابستہ ہے۔ ہجرت کے ایمان افروز واقعات بندۂ مومن کے دل پر ایک عجیب کیفیت طاری کردیتے ہیں۔ آنحضورؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ان کے گھر سے باہر نکلے تو غارِ ثور تک پیدل جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ آپؐ کے ساتھ چل پڑے، لیکن کبھی آپؐ کے آگے ہوجاتے اور کبھی پیچھے آجاتے۔ نبی اکرم ؐ نے اس کی وجہ پوچھی تو عرض کیا: یا رسول اللہؐ کیا بتاؤں ، دل کی عجیب کیفیت ہے ، خیال آتا ہے کہ اگر پیچھے سے کوئی خطرہ درپیش ہو تو میں آپؐ کی ڈھال بنوں ،پھر سوچتا ہوں کہ سامنے سے کوئی دشمن آجائے تو میں سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کروں اور آپؐ کی حفاظت کروں۔ آنحضورؐ نے اپنے جاں نثار، یارِ غار اور افضل البشر بعد الانبیاء صدیقِ اکبر کے اس جذبے کی تعریف فرمائی اور ساتھ ہی تسلی دی کہ ابوبکر کوئی فکر نہ کرو اللہ ہمارا نگہبان ہے۔ 
اس موقع پر نبی اکرم ؐ مکہ سے باہر نکلے تو آپؐ کے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ صحاحِ ستہ میں بیان کردہ روایات کے مطابق اس بلد حرام کی شان میں کئی بار آپ نے اپنے قلبی جذبات کا اظہار فرمایا:
''عبداللہ بن عدیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو دیکھا کہ آپ مکہ میں حزورہ (ایک ٹیلے) پر کھڑے تھے اور مکہ سے مخاطب ہو کر فرما رہے تھے: خدا کی قسم! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے، اور اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے، اور اگر مجھے یہاںسے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا، تو میں ہر گز تجھے چھوڑ کے نہ جاتا۔(جامع ترمذی) 
''حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تو کس قدر پاکیزہ اور دل پسند شہر ہے، اور تو مجھے کتنا محبوب ہے، اور اگر میری قوم نے مجھے نکالا نہ ہوتا تومیں تجھے چھوڑ کے کسی اور جگہ نہ بستا...(جامع ترمذی)
سیرۃ الحلبیہ نے ہجرت کا باب رقم کرتے ہوئے مستدرک للحاکم سے آنحضور ؐ کی ایک حدیث نقل کی ہے۔ وہ بھی آنحضورؐ کی مکہ معظمہ سے محبت کی شاہد ہے۔ حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے: ''اے اللہ بلاشبہ تو جانتا ہے کہ دشمنوں نے مجھے اس شہر سے نکال دیا ہے جو تمام بلادِ عالم سے مجھے محبوب تر ہے، پس اے میرے مالک تو مجھے اس شہر میں لے چل جو تجھے تمام شہروں سے محبوب تر ہو۔‘‘(السیرۃ الحلبیۃ، ج2، ص40، مستدرک للحاکم)
بعض علما و فقہا اور محدثین و مؤرخین نے ان احادیث کی روشنی میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ۔ ہمارے نزدیک اس بحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں ہی افضل، طیب اور پاکیزہ ہیں۔ مکہ کو حضرت ابراہیمؑ نے حرم قرار دیا تھا اور مدینہ کو حضور نبی اکرم ؐ نے حرم ہونے کا شرف بخشا۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورؐ نے فرمایا حضرت ابراہیمؑ نے مکہ معظمہ کو حرم کا درجہ دیا۔ میں مدینہ منورہ کے حرم ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں جانب کے دروں کے درمیان سارا رقبہ حرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں خونریزی نہ کی جائے، کسی کے خلاف ہتھیار نہ اٹھایا جائے۔ درختوں کے پتے بھی جانوروں کے چارے کے سوا بلاوجہ نہ جھاڑے جائیں (روایت صحیح مسلم)۔ البتہ حضور ؐ کی واضح حدیث کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مکہ میں اللہ کا گھر ہونے اور مرکز حج ہونے کی وجہ سے یہ تمام بلاد سے افضل و اعلیٰ ہے۔ مسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب آنحضورؐ کی حدیث مبارکہ کے مطابق ایک لاکھ نمازوں کے برابر یا اس سے افضل ہے۔ آنحضورؐ کی مسجدمیں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر یا اس سے افضل ہے۔ (مسند احمد، بروایت عبداللہ بن زبیرؓ)۔
اوپر جو حدیث مستدرک کے حوالے سے لکھی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ مکہ تو سیدنا ابراہیمؑ کے وقت سے محرم و محبوب ہے ہی ، اب جس شہر کو تو میرا مسکن بنائے ، اے میرے رب اسے بھی اپنا محبوب بنا لے۔ چنانچہ مدینہ اہلِ ایمان کے دلوں کی تسکین کا ذریعہ ہے، جہاں اللہ کے نبی نے اپنا دائمی ٹھکانہ بنایا۔ آپؐ نے اپنے انصار صحابہؓ کے ایک سوال کے جواب میں کہ اگر آپ مکہ فتح کرلیں گے تو ہمیں چھوڑ کر اپنے آبائی شہر تو نہیں چلے جائیں گے؟ فرمایا: ''اے انصار تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، میرا جینا اور مرنا تمھارے ساتھ ہے۔‘‘ آنحضورؐ نے اپنے اس قول کے مطابق مدینہ ہی کو مستقل مسکن بنالیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج2،ص41-40)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں نقل ہوئی ہے، جس کے مطابق آنحضورؐ نے فرمایا کہ مسجد نبوی میں میرے حجرے اور میرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے، وہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے ۔ اور میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔ اس جگہ کو ریاض الجنۃ کہا جاتا ہے اور یہ بہت معروف ہے۔ مسجد نبوی اور روضہ رسولؐ کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے آنے والے اہلِ ایمان کوشش کرتے ہیں کہ اس مبارک قطعہ ٔ زمین پر انھیں چند لمحات اللہ کی عبادت کے لیے مل جائیں۔ بلاشبہ یہاں دل پر ایک عجیب سکینت نازل ہوتی ہے۔ البتہ آج کل لوگ وہاں جم کر بیٹھ جاتے ہیں اور دیگر لوگوں کو جگہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں، یہ طرزِ عمل تعلیماتِ نبوی اور اسلامی روح کے منافی ہے۔ آنحضورؐ نے یہ بھی فرمایا: '' جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی‘‘۔ (دار قطنی والبہیقی،عن عبداللہ بن عمرؓ)
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ روضہ اقدس نبویؐ کے ہر صاحب ایمان زائر کو ان شاء اللہ ضرور شفاعت نبویؐ نصیب ہوگی... ہاں اگر بدنصیبی سے کوئی''زائر‘‘ ایسا ہے جس کے قلب کو ان کیفیات و جذبات اور ان واردات میں سے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا تو سمجھنا چاہیے کہ اس کا قلب دولت ایمانی سے خالی ہے۔ پھر اس کی زیارت حقیقی زیارت نہیں صرف صورت زیارت ہے، اور اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ہاں کسی عمل کی بھی صرف صورت معتبر نہیں۔‘‘(معارف الحدیث ، چہارم، ص485)
ہر مسجد میں آنے کے آداب یہ ہیں کہ وہاں ہر گز کوئی شور ہنگامہ نہ کیا جائے، کوئی جھگڑا اور جدال مسجد کی حدود میں نہ کیا جائے کہ یہ ممنوع بلکہ حرام ہے۔ مسجد کے اندر کسی کو ایذا پہنچانے کو اللہ کی رحمت سے دوری اور فرشتوں کی دعا سے محرومی کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ مسجد کے اندر اللہ کا ذکر کرنے کا حکم ہے۔ جب ہر مسجد کے آداب میں یہ احتیاطیں ملحوظ رکھنا ضروری ہیں تو اندازہ کیجیے کہ مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں ان کا اہتمام کتنا لازم ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ کچھ نوجوانوں کو دیکھا کہ وہ مسجد نبوی میں روضۂ رسولؐ کے پاس کھڑے آپس میں بلند آواز میں بحث کر رہے تھے۔ آپ ان کی جانب بڑھے اور پوچھا کہ تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ انھوں نے عرض کیا کہ عراق سے۔ آپؓ نے فرمایا تمھیں اجنبی اور مسافر ہونے کی وجہ سے میں معاف کرتا ہوں، ورنہ اس مقام کے اوپر شور ہنگامہ کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر 
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved