تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-02-2017

مرے تیس کے، دفنائے گئے ساٹھ کے!

بڑھاپا عمر اور حالات سے کہیں بڑھ کر سوچ کا نام ہے۔ انسان باہر سے بھی اُتنے ہی برس کا ہوتا ہے جتنے برس کا ذہنی طور پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی طے کرلے کہ بھری جوانی میں بڑھاپے کا مزا لوٹنا ہے تو اُسے کوئی بھی ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا۔ دوسری طرف اگر کوئی چاہے کہ بھرے بڑھاپے میں کھلنڈرے پن کے ساتھ جینا ہے، زندہ دل اور خوش رہنا ہے تو اُسے بھی ایسا کرنے سے روکنے والا کوئی نہیں۔ 
روس کی 89 سالہ ایلا ایلینیشنا ایک مثال بن کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ماسکو کے ریازان سٹی ہاسپٹل میں سرجن ہیں۔ ایلا روزانہ چار آپریشن کرتی ہیں۔ اب تک 10 ہزار سے زائد آپریشن کرچکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنا اُن کے لیے محض پیشہ یا کیریئر نہیں بلکہ طرزِ زندگی بھی ہے۔ 
ایلا مستقبل قریب میں ریٹائرمنٹ کا ارادہ نہیں رکھتیں! وہ کہتی ہیں کہ اگر یہ آپریشن وہ نہیں کریں گی تو کون کرے گا۔ وہ 67 سال سے طب کے شعبے میں ہیں۔ معذور بھتیجے اور 8 بلیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ طویل عمر کا ایک اہم راز یہ بیان کرتی ہیں کہ کھانے میں ان کا کوئی پرہیز نہیں۔ اور یہ کہ وہ ہر وقت خوش رہتی ہیں اور دوسروں کو بھی خوشی دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ 
طویل عمر کا ایک اور راز بھی ایلا نے بتایا ... یہ کہ وہ خوب روتی بھی ہیں! رونے والی بات ہمیں بہت عجیب لگی اور آپ کو بھی عجیب ہی محسوس ہو رہی ہوگی۔ عجیب اس لیے ہمارے معاشرے میں بھی ہر شخص رو ہی رہا ہے مگر مسرّت سے کسی طور ہم کنار نہیں! خدا جانے ایلا کون سے رونے کی بات کر رہی ہیں۔ ثابت ہوا کہ کامیاب اور مطمئن انسانوں کا رونا بھی الگ ہی نوعیت کا ہوا کرتا ہے۔ 
پاکستانی معاشرہ اب تک دیگر پس ماندہ اور بند گلی جیسے معاشروں جیسا ہے۔ لوگ کام کرنے، آگے بڑھنے، کچھ کر دکھانے کی خواہش اور لگن سے محروم ہوچکے ہیں۔ کچھ کرنے کی سکت رہی ہے نہ ولولہ۔ دن کا بڑا حصہ سوچنے، کڑھنے اور شکوہ سنج رہنے میں صرف ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ اپنے کام ڈھنگ سے کرنے کے بجائے صرف روتے رہتے ہیں، پریشانی سے دوچار رہتے ہیں۔ احمد فرازؔ کے مشورے پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ ؎ 
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا 
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے 
جب کبھی ہم کام میں ڈوب جانے والوں کے بارے میں کوئی خبر پڑھتے ہیں تو شرم کے تالاب میں ڈوبنے لگتے ہیں، اپنے آپ سے نظر چُرانے لگتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ بقول جونؔ ایلیا ؎ 
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں 
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں! 
ایک زمانہ ہے کہ محنت و جاں فشانی سے عبارت ہے۔ دنیا کام کر رہی ہے اور کرتی ہی چلی جارہی ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ لوگ کچھ کیے بغیر ہی تھکن سے چُور ہیں! 
زندگی بسر کرنے کے سو رنگ اور سو ڈھنگ ہوسکتے ہیں مگر ہر رنگ اور ڈھنگ میں کام کرنے کی لگن اور مہارت کے حصول کی تمنا نمایاں ہو تو بات بنتی ہے ورنہ پرنالے وہیں بہتے رہتے ہیں۔ ایلا کو آپ نے دیکھا۔ اُن کی زندگی میں کام ہی کام ہے۔ جب ایسا ہو تو زندگی بسر کرنے میں لطف آتا رہتا ہے ورنہ جاتا رہتا ہے۔ دل و دماغ پر تھکن اُسی وقت سوار ہوتی ہے جب ہم زندگی کو ڈھنگ سے برتنا چھوڑتے ہیں۔ ایلا کی طرح بہت ہی کم لوگ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ بھرپور اور قوٰی کو مضمحل کردینے والی تھکن سے چُور ہونے کا سب سے موثر طریقہ ایک ہی ہے ... یہ کہ کام کیا ہی نہ جائے! 
برسوں پہلے انگریزی کا ایک مقولہ پڑھا تھا جو تب سے اب تک ذہن کی دیوار پر چسپاں ہے۔ 
DIED AT 30, BURIED AT 60! 
کیا سمجھے آپ؟ یہ مقولہ جتنا دلچسپ ہے اُتنا ہی سادہ ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو اُسے دفنا دیا جاتا ہے یا پھر جلا دیا جاتا ہے۔ یا جسدِ خاکی کو اُس کے خالق کے حوالے کرنے کا کوئی اور طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔ بہر حال، مرے ہوئے جسم کو سنبھال کر نہیں رکھا جاتا۔ مگر کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگ بھری جوانی میں مر جاتے ہیں اور اُنہیں دفنایا جاتا ہے خاصی ڈھلی ہوئی عمر یا پھر بھرے بڑھاپے میں! 
ایلا جیسے لوگ ٹھیٹھ بڑھاپے میں جوانی سے ہم آہنگ و ہم کنار ہیں۔ اور دوسری طرف ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جن کی اُٹھتی ہوئی جوانی کی ٹانگیں بڑھاپے کی زلفِ دراز میں الجھی ہوئی ہیں! ہم اُن لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں جو زندگی کا حق ادا کرتے اور مقصدِ تخلیق کا حصول یقینی بناتے ہوئے زندہ رہنے کی اُمنگ سے محروم ہوچکے ہیں اور محض زندہ رہنے کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ؎ 
کوئی اُمید، نہ حسرت، نہ آرزو، نہ طلب 
کہاں کی زیست؟ دنوں کا شمار باقی ہے! 
حقیقی طمانیتِ قلب پانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی لگن کا ہونا لازم ہے۔ سانسوں کی آمد و رفت اور دِنوں کے گزرتے رہنے کو زندگی سمجھ کر مطمئن ہو رہنا دل و نظر کی موت ہے، اور کچھ نہیں۔ 
کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
زندگی زندہ دلی کا ہے نام 
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں 
اگر زندگی کا حق ادا کرنا ہے اور اِس دنیا کو کچھ دے کر جانا ہے تو آپ کو طے کرنا پڑے گا کہ کیا اور کیسے کرنا ہے۔ زندہ دلی کا مفہوم صرف ہنسنے ہنسانے تک محدود نہیں۔ زندہ دلی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اپنے وجود اور ماحول میں بھرپور دلچسپی لیتے ہوئے اِس طور زندگی بسر کیجیے کہ آپ کی صلاحیت اور سکت سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں اور اُن کی زندگی میں بھی کچھ معنویت پیدا ہو۔ 
عمر خواہ کچھ ہو، دل جوان ہونا چاہیے۔ ہماری تخلیق کی غایت یہی تو ہے کہ خود بھی ڈھنگ سے جئیں اور دوسروں کو بھی بامقصد زندگی بسر کرنے کی تحریک دیں۔ اور یہ غایت اُسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب دل جوان ہو۔ علامہ نے خوب کہا ہے ؎ 
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ 
کہ یہی ہے اُمّتوں کے مرضِ کہن کا چارہ 
ایک بار پھر سوچیے کہ ایلا نے 89 سال کی عمر میں بھی ہار نہیں مانی ہے اور یہاں لوگ 60 سال کے ہوتے ہی 90 سال کے دکھائی دینے لگتے ہیں! ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب کچھ بننے کی اُمنگ اور کچھ کرنے کی لگن دم توڑ چکی ہو۔ ؎ 
اِسے حیات جو کہیے تو آپ کی مرضی 
نہ کوئی خواب نہ کوئی خیال ہے صاحب 
آج کے پاکستان کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو 89 سال کی عمر میں بھی ایلا کی طرح پُرجوش اور پُرعزم ہوں۔ جینا ہی ٹھہرا تو پھر یوں جیا جائے کہ جینے کا حق ادا ہو۔ ادھورے من سے اور کم کم جینا کس کام کا؟ ایک بار پھر سوچیے ... 89 سال کی عمر میں روزانہ 4 آپریشن! ایلا بھی اِسی دنیا کی ہیں اور ہم بھی اِسی دنیا کے ہیں مگر وہ کسی اور دنیا کی لگتی ہیں۔ اپنے حصے کا کام کرنے ہی سے انسان حقیقی کامیابی کا مزا چکھتا ہے۔ ایلا اور اُن کی قبیل کے دوسرے بہت سے لوگ یہی تو کر رہے ہیں۔ اِس زندہ دلی کا معجزہ نہ کہیے تو اور کیا کہیے؟ اچھا ہے کہ ہم بھی زندہ دلی کو اپنائیِں اور اپنے حصے کاکام کرجائیں۔ ایسا کرنا کہیں بہتر ہے اِس بات سے کہ کوئی مرے تیس سال کی عمر میں اور دفنایا جائے ساٹھ سال کی عمر میں۔ مرے ہوئے باطن کے ساتھ زندگی بسر کرنا کسی اور دنیا کے لیے ہو تو ہو، اِس دنیا کے لیے تو یقیناً کوئی دانش مندی کی بات نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved