تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-02-2017

ہلاکت

اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: 
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا 
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں 
سلیم شہزاد اب کراچی میں کیا ڈھونڈنے آئے ہیں ؟ کوئی واضح جواب نہیں ملتا ۔پاک سرزمین پارٹی کے لیے وہ قابلِ قبول نہیں ۔ فاروق ستار کی ایم کیو ایم میں وہ کیسے شامل ہو سکتے ہیں؟ چار سال قبل پارٹی سے انہیں نکال دیا گیا تھا اور لندن سے فاروق ستار کارابطہ ابھی تک قائم ہے ۔ کم از کم اس سے تصادم وہ نہیں چاہتے ۔ کیا وہ خوش فہمی کا شکار ہو گئے ؟ کیا انہیں عشرت العباد نے بھیجا ہے ، جو اب بھی ایک کردار کی تلاش میں ہیں ۔ جن کا دعویٰ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے مراسم ابھی تک برقرار ہیں ۔ کراچی میں مختلف لوگوں سے رابطہ کر کے وہ یہ پوچھتے رہے کہ کیا سلیم شہزاد نے ان کے بارے میں کوئی بات کی ہے ؟
پرویز مشرف دور میں سندھ کے گورنر بنائے گئے اور الطاف حسین کے ایما پر ۔ رفتہ رفتہ سبھی سے انہوں نے مراسم استوار کر لیے ۔ پیپلزپارٹی اور پھر نون لیگ سے بھی ۔ نواز شریف کے تحت بھی تین سال گورنری کے مزے لوٹتے رہے ۔ پھر الطاف حسین نے بے وفا قرار دے کر ، لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔ استعفیٰ سے کئی ماہ قبل ، دراصل جو برطرفی تھی ، موصوف کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ منت سماجت سے مگر وہ برقرار رہے ۔ یہ کہ انہیں اپنی صاحبزادی کی شادی کرنا ہے ۔گورنر ہائوس ہی میں دونوں صاحبزادیوں کی سگائی ہوئی ۔ ایک کی توسیع کے بعد ۔ بعد ازاں صاحبزادے کی دبئی کے مہنگے ترین ہوٹلوںمیں سے ایک ہوٹل میں ۔سیاستدانوں سمیت پاکستان کے کئی ارب پتی اس میں شریک تھے۔ لوٹ مار کا بہت چرچا ہونے کے باوجود عشرت العباد کو کچھ وقت اور مل جاتا مگر مصطفی کمال سے تصادم ہو گیا۔ پاک سرزمین پارٹی تشکیل پا رہی تھی تو آنجناب نے اس کاسرپرست بننے کی کوشش کی ۔ وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو شمولیت کے آرزومندوں کو انہوں نے روکنا شروع کیا۔ فاروق ستار گروپ سے زیادہ جا چمٹے ۔ 
اب وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں ۔کہا جاتاہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ رکھنے کے لیے زرداری صاحب کو ان کی ضرورت ہے ۔جسٹس سعید الزماں صدیقی کے انتقال پر زرداری صاحب نے وزیرِ اعظم کو ان کا نام تجویز کیا مگر وہ طرح دے گئے۔مفتاح اسمٰعیل ان کی ترجیح تھے یا اس سے قبل مشاہد اللہ ۔ صاحبزادی نے مگر زبیر عمر پہ اصرار کیا۔
زرداری صاحب کو ایسے لوگوں کی ضرورت رہتی ہے۔ معاملے کی وضاحت ایک واقعے سے ہوتی ہے ۔ 2008ء میں حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد زرداری صاحب نے ڈاکٹر شعیب سڈل کو سندھ کا آئی جی مقرر کر دیا ۔ تصادم نہیں ، جنابِ صدر ایم کیو ایم سے گٹھ جوڑ کے آرزومند تھے ۔ جیساکہ اب میاں محمد نواز شریف فاروق ستار گروپ سے ۔ آداب اورضابطے کے مطابق،1995ء میں دہشت گردوں کے خلاف دادِ شجاعت دینے والے پولیس افسر نے گورنر سے ملاقات کی ۔ رسمی سرکاری گفتگو تمام ہو چکی تو اکل کھرے آدمی نے کہا : میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایم کیو ایم کے خلاف 
کارروائی کا حکم دیا گیا تو دو گنا طاقت سے میں یہ فرض انجام دوں گا۔گورنر نے سر جھکا لیا اور کہا : کسی کو اس میں کوئی شک نہیں ۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر صاحب خوش فہمی کا شکار تھے ۔ ایم کیو ایم تو کجا ، زرداری مذہبی فرقہ پرستوں کے خلاف بھی کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہ تھے ، جن پر فوراً ہی آئی جی نے ہاتھ ڈال دیا تھا۔ جلد ہی واپس بلا کر ایک دوسرا منصب انہیں سونپ دیا گیا۔ سودے بازی کے لیے گویا وہ ترپ کا پتہ تھے۔
عشرت العباد خود بھی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی میں وہ شامل ہو سکتے ہیں ؛بشرطیکہ کوئی اہم عہدہ حکومتِ سندھ میں انہیں دیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ گورنر تو اب وہ بن نہیں سکتے ۔ ایک چھوٹی سی وزارت؟ مگر اس کافائدہ پیپلزپارٹی کو کیا ہوگا ؟ کچھ واقفانِ حا ل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک سیاسی کردار کی تلاش اورزرداری صاحب سے دبئی میں ان کی حالیہ ملاقات ان کی مجبوری ہے۔ان پر سنگین الزامات ہیں۔مثلاً کراچی انٹرمیڈیٹ اور سکینڈری ایجوکیشن بورڈ کے معاملات اور ڈائو میڈیکل کالج میں وائس چانسلر کی تقرری ۔ سرکاری تحفظ کے لیے زرداری صاحب سے رہ ورسم وہ چاہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ موصوف کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ ملک کے سب سے نا مقبول لیڈر کو سرے سے کرپشن پر ہی اعتراض نہیں ہوتا ۔یوں باقی لیڈروں کو بھی کیا اعتراض ہے ؟ کیا تقریباً سب کے سب جرائم پیشہ لوگوں کو گوارا نہیں کرتے؟ پاکستان کا حکمران طبقہ پاگل ہو رہا ہے ۔ بگٹٹ وہ انجانی منزل کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔ہر ایک کو اپنا بویا ہوا کاٹنا ہے ۔ 
عشرت العباد کیا انتخابی میدان میں اتر سکتے ہیں ؟ ایک بار وہ منتخب ضرور ہوئے تھے مگر اب ان کا کوئی حلقہ ء انتخاب ہی نہیں ۔ لیاری کے سوا پیپلزپارٹی کا امیدوار کہیں جیت نہیں سکتا ...اور لیاری میں اردو بولنے والے امیدوار نہیں ہوتے ۔ 
1988ء اور پھر 1990ء میں سلیم شہزاد دو بار قومی اسمبلی کے ممبر رہے ۔ الطاف حسین کے اولین ساتھیوں میں سے ایک ہیں ۔ شہرت ان کی اچھی نہیں ۔ بعض الزامات ایسے ہیں کہ ذکر سے گھن آتی ہے ۔ کہا جاتاہے کہ انور بھائی اور طارق جاوید کی طرح ، مالی معاملات میں الطاف حسین سلیم شہزاد پہ انحصار کیا کرتے ۔ لندن میں مبینہ طور پر ان کے نام سے کچھ جائیدادیں بھی خریدی گئیں ۔ آخر کار مگر خرابی ہوئی اور پارٹی سے الگ کر دئیے گئے ۔ اب وہ یہ کہتے ہیں کہ 22اگست کو انہوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ کہاں پر ؟ ٹوئٹر پر ؟ پارٹی میں تو وہ تھے نہیں ۔ کون موصوف کا بوجھ اٹھائے گا ؟ ایس ایس پی رائو انوار سے ابھی ابھی میری بات ہوئی ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ 23عدد مقدمات ہیں ، جلائو گھیرائو، وغیرہ وغیرہ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کیس میں بچ بھی نکلے تو مشکل میں گرفتار رہیں گے ۔ 1987ء میں فاروق ستار کراچی کے مئیر منتخب ہوئے تو چونگی کا نظام کارفرما تھا ۔ اس کی زمام سلیم شہزاد کو سونپی گئی ۔ جلد ہی شکایات ملنے لگیں ۔ پھر عامر خان کو نگران بنا یا گیا۔ تب سے ان میں کشاکش چلی آتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ آفاق احمد سے مل کر عامر خان نے ایم کیو ایم حقیقی بنانے کا فیصلہ کیا تو ایک سبب سلیم شہزاد سے ان کی عداوت بھی تھی ۔ عامر خان کی موجودگی میں ایم کیو ایم میں سلیم شہزاد کی قبولیت اوربھی مشکل ہے ۔ 
کیا وہ محض ایک پیادہ ہے ، سابق گورنر عشرت العباد نے جسے برتنے کی کوشش کی کہ زرداری صاحب سے معاملہ طے کریں یا ذاتی طور پر وہ خوش فہمی کا شکار ہوا؟جنابِ عشرت العباد سے محض مشورہ کیا؟ کوئی دن میں بات واضح ہو جائے گی۔ اس کہانی کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ وہ کینسر کا مریض ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ قابلِ علاج اور بعض کے مطابق آخر ی مرحلے میں ۔ ایک صاحب نے کہا: مجھے شبہ ہے کہ وہ ڈرامہ رچا رہا ہے....نفرتوں کا المناک کھیل ۔ مہاجروں اور کراچی کے دوسرے مکینوں کو اس سے کیا ملا ؟ بالآخر پامالی ، بالآخر رسوائی ۔ رہی دولت تو آخر کس کام آتی ہے ؟
حبّ ِ جاہ میں ، ایک جنون اور وحشت میں بگٹٹ آدمی بھاگا چلاجاتاہے ، آخر کار کھیت رہتاہے ۔ بانو آپا کا ناول راجہ گدھ پڑھیے کہ ناپاک رزق کا زہر کس عبرتناک انجام سے دوچار کرتاہے ۔ 
اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: 
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا 
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved