پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کو برصغیر کے مسلمان رہنماؤں نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر قائم کیا تھا۔ اس ریاست میں بسنے والے تمام افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان میں نظریاتی بنیادوں پر بہت سی تحریکیں چلائی گئیں جنہیں مذہبی رہنماؤں نے عوام کے تعاون سے کامیاب بنایا۔ مذہبی رہنماؤں اور علماء نے ختم نبوت کا انکار کرنے والے گروہوںکو غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے تحریک چلائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی اور اسمبلی کے فلور پر منکرین ختم نبوت اور مسلمانوں کے مابین دلائل کے تبادلے کے بعد ختم نبوت کا انکار کرنے والے گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ان گروہوں کے شعائر اسلام کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تاکہ سادہ لوح مسلمان لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ دینی طبقات نے ملک میں ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کے لیے انتھک جدوجہدکی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ادب اور اخلاق سے گرا ہوا کوئی شخص حضرت رسول اکرمﷺ کی گستاخی اور اہانت کا ارتکاب نہ کر سکے۔ اس وقت ملک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے دفاع کے لیے 295-C کا قانون موجود ہے، جو شخص نبی کریم ﷺ کی اہانت کا ارتکاب کرتا ہے اس پر اس قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے اور جرم کے ثابت ہونے پر مجرم کو سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین کی طرح یہ قانون بھی نفسیاتی اور آئینی تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے، لیکن بعض این جی اوز اور مغرب زدہ طبقات بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس قانون میں ترمیم کے لئے مہم چلاتے رہتے ہیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے بھی عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش اور ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کو دوبارہ اسلام کے دائرے میں شامل کرنے کی جستجوکی جاتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالا گیا تو اس کے پس منظر میں یہی سوچ کار فرما تھی کہ ختم نبوت کا انکار کرنے والے افراد کو مسلمانوں کے دائرے میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے۔ تاہم دینی جماعتوں اور علماء کی مزاحمت پر یہ خانہ بحال کر دیا گیا۔ ڈنمارک میں نبی کریم ﷺ کی توہین کا دل سوز واقعہ رونما ہوا تو پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی انتہائی مؤثر تحریک چلائی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ناموس رسالتﷺ قانون کے حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا۔ حکومت کے ایک ذمہ دار نے مقدمے کی سماعت کے دوران اس قانون کے حوالے سے منفی تبصرہ کیا جس پر دینی جماعتیں یکجا ہوئیں اور اس قانون کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر آواز بلند کی۔ چنانچہ حکومت نے علماء کے احتجاج پر اس قانون میں ترمیم کا ارادہ واپس لے لیا۔ مسلم لیگ نون کی حکومت سے جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی جیسی روش کی توقع نہ تھی لیکن علماء کے تحفظات کے باوجود پنجاب میں ویمن پروٹیکشن بل پیش کیا گیا اور ممتاز قادری کو ایک متنازع کیس میں سزائے موت سنا دی گئی۔ اس پر دینی جماعتوں میں تشویش کی لہر دوڑگئی اور دینی طبقات اور حکومت کے درمیان بھی خلیج کی کیفیت رونما ہوئی۔
نبی کریم ﷺ کی ناموس اور آپ ﷺ کی ذات اقدس کے تحفظ کو مجروح کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں فیس بک پر گستاخانہ پیجز بنائے گئے۔ یہ پیجزبنانے والوںکو قرار واقعی سزا دینے کی بجائے ملک سے فرار ہونے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔ اسی طرح قائد اعظم یونیورسٹی کے فزکس سنٹر کو ایک متنازع شخصیت سے منسوب کیا گیا۔ ان امورکا جائزہ لینے کے لیے یکم فروری کوعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے اسلام آباد کے ہوٹل میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالتﷺ کانفرنس منعقد کی جس میں ملک کے نمایاں دینی اور سیاسی رہنما شریک ہوئے۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس میں بعض اہم نکات پر اتفاق کیا گیا جنہیں قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں:
وطن عزیز میں علمائے کرام اور مشائخ کا مشترکہ اجتماع اس حقیقت کو دہرا رہا ہے کہ مملکت خداد پاکستان اللہ کی حاکمیت اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کی عملداری کے لیے حاصل کی گئی اور یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی۔ اس واضح حقیقت کے باوجود مغربی دنیا اور این جی اوز سازش کے تحت پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے در پے ہیں۔ لیکن دینی جماعتیں اور علماء اپنے اتحاد سے مغرب زدہ اور لادین عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیںگے۔
وطن عزیز میں تمام ابنیائے کرام بالخصوص حضرت رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے، جس پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ لیکن وقفے وقفے سے اس ایمانی، شرعی اور آئینی قانون میں ترمیم لانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس سے محبان رسول ﷺ اور اسلامیان پاکستان اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتوں کا طرز عمل قطعاً قابل قبول نہیں۔ اجلاس میں صدائے احتجاج بلند کی گئی کہ لا دین/ ملحد افراد اور دین دشمن عناصرکو خوش کرنے کے لیے سندھ اسمبلی میں اسلام قبول کرنے کی عمر 18سال مقرر کرنے کا قانون منظور کیا گیا، پھر علماء اور عوام کے دباؤ پر اسے واپس لے لیا گیا، لیکن سینیٹ میں دوبارہ یہی مذموم کوشش کی گئی، جس پر یہ اجتماع گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اور ایسے ہتھکنڈوںکو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے، ان مذموم سازشوںکا ہر محاذ پر مقابلہ کیا جائے گا۔ علماء نے واضح کیا کہ اسلام میں جبرکی کوئی گنجائش نہیں، زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنایا جا سکتا؛ تاہم اگر کوئی شخص خوش دلی سے اسلام قبول کرنا چاہے تو اس کو عمر کی قید لگا کر مسلمان ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔
اجتماع میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسلام دشمنوں کی سازشوں پر نگا ہ رکھے، ایوان بالا اورایوان زیریں میں توہین رسالت قوانین میںکوئی تبدیلی نہ لانے کا دو ٹوک اعلان کرے۔ اُمت کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ نبی رحمت ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کے اہم تعلیمی اداروں کے کسی بھی شعبے کو ایسی شخصیات کے نام منسوب نہ کیا جائے جنہوں نے اسلام اور پاکستان سے برأت کا اظہار کیا ہو۔ بعض افراد اقلیتوں کو دیے گئے حقوق سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے زیر اثر علاقوں میں متوازی عدالتی نظام قائم کیے ہوئے ہیں جس سے ملک کے اعلیٰ عدالتی نظام سے تصادم کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، لیکن حکمران اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ اجتماع نے مطالبہ کیا کہ بعض چینلز ملک کے دستور اور تقاضوں کے منافی نشریات کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن ان کی روک تھام کے لیے حکومت اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ اجتماع میں حکومت پر واضح کیا گیا کہ ان مطالبات پر پوری طرح توجہ دی جائے۔ اگر حکومت نے ان مطالبات پر غور و فکر نہ کیا تو علماء ملک گیر تحریک چلانے سے بھی گریز نہیں کریں گے اور اس کے انتظامات کے لیے ایک نمائندہ کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کے جذبات اور احساسات کا خیال کرے اور بالخصوص اہل مذہب کی ترجیحات کواہمیت دی جائے تاکہ قائد اعظـم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے جس اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا اسے شرمندۂ تعبیر کیا جا سکے۔