تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     09-02-2017

سٹیٹس کو! سٹیٹس کو!

وارن ہیسٹنگز (Hastings) ہندوستان کا پہلا باقاعدہ انگریز گورنر تھا۔ وہ 1772ء سے 1785ء تک اس منصب پر فائز رہا۔ آخری انگریز حکمران مائونٹ بیٹن تھا جس کے عہد میں بّرِصغیر تقسیم ہوا اور پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملک وجود میں آئے۔
وارن ہیسٹنگز سے لے کر مائونٹ بیٹن تک کل 44 انگریزوں نے ہندوستان پر حکومت کی۔ ان 44 حکمرانوں میں کیا قدرِ مشترک تھی؟ سفید چمڑی رکھنے اور برطانوی ہونے کے علاوہ ان سب میں ایک صفت مشترک تھی۔ یہ سب ہندوستان میں صرف حکومت کرنے کے لیے آئے تھے۔ اس کے علاوہ بّرِصغیر میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی جائیدادیں‘ ان کا کاروبار‘ ان کے گھر‘ ان کے خاندان سب برطانیہ میں تھے۔ یہ ملکہ سے حکومت کرنے کا پروانہ وصول کرتے۔ بحری جہاز میں بیٹھتے‘ کلکتہ‘ ہگلی یا مدراس آ کر اترتے۔ دارالحکومت پہنچ کر چارج لیتے۔چند برس حکومت کرتے۔ پھر زمامِ اقتدار جانشین کے حوالے کرتے‘ جہاز میں بیٹھتے اور واپس برطانیہ پہنچ کر دم لیتے۔
ایک اور قدرِ مشترک یہ تھی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بّرِصغیر میں ان کا قیام عارضی ہے‘ ان حکمرانوں نے دل لگا کر کام کیا۔ خوب محنت کی۔ رات دن ایک کیا اور ملکہ سے اور برطانوی پرچم سے وفاداری ثابت کرکے دکھائی۔ جنگی فتوحات حاصل کیں۔ نظم و نسق میں نئے تصورات کو بروئے کار لائے۔ روس اور افغانستان سے معاملات طے کیے۔ ٹھگی کا انسداد کیا۔ ریلوے کا سسٹم قائم کیا۔ ڈاک خانے بنائے۔ ایک مستحکم مالیاتی نظام دیا۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اپنے جانشین کو چارج دینے میں پس و پیش کیا ہو۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج پھر ہمارے پاس ایک پوری کھیپ ایسے لیڈروں کی ہے جن کی پاکستان میں دلچسپی صرف اور صرف حکومت میں رہنے سے اور حکومت کرنے سے ہے۔ ان حضرات کی جائیدادیں‘ بینک بیلنس‘ کاروبار‘ رہائش گاہیں سب دساور میں ہیں۔ ان کی سرگرمیاں لندن سے لے کر نیو یارک تک اور دبئی سے لے کر جدّہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ الطاف حسین کا نام ان میں سرِ فہرست ہے مگر کئی لحاظ سے ان کا معاملہ مختلف ہے۔ دو عشروں سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ وہ لندن میں مقیم ہیں۔ ان کی جائیداد وہیں ہے۔ وہیں سے انہوں نے ایک طاقت ور سیاسی پارٹی کو کنٹرول کیا جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا طویل عرصہ تک حصّہ رہی۔ اختلاف کی گنجائش سو فیصد موجود ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا ووٹ بینک یہاں مضبوط تھا۔ بُرا یا بھلا‘ ان کا ایک نظریہ بھی تھا۔ بہر طور پر اب وہ تاریخ کی گرد میں چُھپ چکے ہیں۔ بظاہر ان کی سیاسی سرگرمیوں کا احیا ممکن نہیں لگ رہا!
اس کھیپ میں آصف علی زرداری‘ جنرل پرویز مشرف اور عشرت العباد کے نام نمایاں ہیں۔ آپ چاہیں تو اس فہرست میں سربراہ حکومت کا نام بھی شامل کر سکتے ہیں۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ اگر کبھی وہ اقتدار کی بلندی سے نیچے اترے تو لندن ہی کو اپنا مسکن بنائیں گے۔ رہائش گاہوں سے لے کر کاروبار تک ان کا اور ان کے خاندان کا ہیڈ کوارٹر لندن ہی نظر آتا ہے۔
ان سب حضرات میں ایک قدر مشترک اور بھی ہے۔ ان کا کوئی نظریہ نہیں سوائے اس کے کہ کسی نہ کسی طور پر وہ حکومت میں آ جائیں۔ ان کے ذہنوں میں ملکی ترقی کا کوئی پروگرام نہیں۔ ملک افرادی قوت کے اعتبار سے کیسے ترقی کرے گا؟ صحت اور تعلیم کے سوشل سیکٹرز میں انقلاب کیسے لایا جائے گا؟ زرعی اصلاحات کیا ہوں گی؟ کیسے نافذ ہوں گی؟ زراعت کو جدید ترین شکل کس طرح دی جائے گی؟ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور عوام میں عدم تحفظ کا روز افزوں احساس کیسے ختم کیا جائے گا؟ غیر ملکی قرضوں کے مہیب چُنگل سے کیسے باہر نکلا جا سکے گا؟ پنچایتوں اور جرگوں کے فرسودہ دور سے ملک کو کیسے باہر نکالا جائے گا؟ قبائلی علاقوں کو تعلیم اور صنعت و حرفت کے حوالے سے نئے دور میں کیسے داخل کیا جا سکے گا؟ یہ اور اس قبیل کے بہت سے اور سوالات ہیں جن کا ان لیڈروں کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ان حضرات کی ذہنی سطح اتنی گہرائی کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی!
آپ قوم کی بدقسمتی کا انداز اس خبر سے لگائیے جو دبئی میں ہونے والی ''سیاسی ہلچل‘‘ کا تذکرہ کر رہی ہے!''آل پاکستان مسلم لیگ‘‘ کے ''سربراہ‘‘ پرویز مشرف سے چوہدری شجاعت اور پیر پگاڑا نے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حکومت مخالف گرینڈ اتحاد بنانا چاہتے ہیں۔ سابق صدر جنرل مشرف نے چوہدری شجاعت کو ایک راز کی بات بھی بتائی کہ ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جی تو آپ پاکستان سے باہر رہے ہیں۔ مرنے کے بعد ملک کے کس کام آئیں گے؟ اس خبر کا دوسرا حصّہ پہلے سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ پیر پگاڑا اور سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے درمیان بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ چوہدری شجاعت پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کریں گے۔
یہ سب حضرات سالہا سال برسرِ اقتدار رہے۔ پیپلز پارٹی کئی عشروں سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے۔ زرداری صاحب پورے پانچ سال ریاست کے سربراہ رہے۔ چوہدری شجاعت کچھ عرصہ وزیر اعظم رہنے کے علاوہ بارہا وفاقی وزیر رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے پورے عہدِ اقتدار میں چوہدری صاحب ان کے دستِ راست رہے۔ عشرت العباد نے طویل ترین مدت تک گورنر رہنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پیر پگاڑا کنگ میکر ہیں۔ مگر ان سب حضرات نے کوئی ایک بھی ایسا قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا کہ تاریخ ان کا تذکرہ چند سطروں کے علاوہ کر سکے۔ تاریخ ان حضرات میں سے کسی کو بھی مہاتیر یا لی کوان پیو کا درجہ نہیں دے گی۔ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو پڑھی لکھی مڈل کلاس کے لیے کشش رکھتا ہو؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو جدید دور میں رہنے والے تارکینِ وطن کے لیے امید کا سہارا بن سکے؟ جنرل پرویز مشرف ایک عشرے تک سیاہ و سفید کے مالک رہے کوئی ایک کارنامہ بھی ان کے نامۂ اعمال میں نہیں۔ ڈپٹی کمشنر کے فرسودہ نظام کو بدلنے کی کوشش کی مگر اتنی کچی بنیاد پر کہ بعد میں آنے والوں نے ایک اینٹ ہٹائی تو نیا نظام دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ اب کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کادو سو سال پراناطوق پھر عوام کی گردن میں ڈال دیا گیا ہے۔
اس کے باوجود اس قسم کے گرینڈ اتحاد کی کامیابی کا امکان خارج از امکان نہیں کیوں کہ انتخابات میں برادریوں‘ دوستیوں رشتہ داریوں کا کردار کسی بھی دوسرے محرک سے کہیں زیادہ ہے۔ مسلم لیگ قاف‘ جاٹ برادری کے ووٹ آسانی سے حاصل کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے ساتھ کشمیری برادری کا نام آتا ہے۔ اور تو اور اعجاز الحق صاحب بھی اس حلقے سے انتخاب جیت جاتے ہیں جہاں ارائیں برادری کا زور ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی برادری مدارس اور اہلِ مدارس پر مشتمل ہے۔ یہ ایک حد درجہ مضبوط برادری ہے‘ جس کی فصیل کو بظاہر کسی کمند سے زیر نہیں کیا جا سکتا! اسفند یار ولی کی ساری کائنات نسلی اور لسانی سیاست کے ایک بلبلے میں بند ہے۔ ان کی زبان سے آج تک اصلاحات یا ترقی کے کسی پروگرام کا ذکر نہیں سنا گیا! پیر پگاڑا کے مرید ان کے ایک اشارے پر جان قربان کرنے کو تیار ہیں‘ ووٹ ان کے حکم سے کسی کو دینا تو معمولی بات ہے۔ اس میں مریدوں کی سوچ سمجھ کا کوئی کردار نہیں! یہ تمام لیڈر سٹیٹس کو کے علم بردار ہیں! 
لے دے کر پیش منظر پر عمران خان کے سوا کوئی اور لیڈر ایسا نہیں نظر آتا جو اصلاحات لا سکے۔ یہ الگ بات کہ زرعی اصلاحات کا تذکرہ عمران خان نے بھی آج تک نہیں کیا۔ جنوب میں مصطفی کمال امید کی ایک شمع بن کر جلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں سٹیٹس کو سے لڑنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں اگر وہ کچھ وقت جنوبی سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں کو دے تو کیا عجب کہ تبدیلی کی خواہش رکھنے والے عوام میں مقبول ہو جائے ! کیا عجب وہ کراچی کی سیاسی حرکیات(Dynamics)کو کچھ دیر بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سطح پر سوچے اور عمران خان کے ساتھ اتحاد کر لے ؎
فَلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیں
کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved