تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     09-02-2017

لاہور کا رئیس ‘ابنِ رئیس‘ ابنِ رئیس

سیاسی حوالے سے بھی لکھا جا سکتا ہے‘ لیکن اس میں نیا کیا ہے؟ امریکہ کے معتبر ترین اداروں‘ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن کی تازہ سروے رپورٹ۔پاکستانی سیاستدانوں میں مقبولیت کے لحاظ سے وزیر اعظم نواز شریف63فیصد پسندیدگی کے ساتھ سرِفہرست‘ عمران خان39فیصد کے ساتھ دوسرے اور بلاول32فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ ناپسندیدگی کے اعتبار سے سرِفہرست ہونے کا اعزاز لندن والے بھائی کو حاصل ہوا(85فیصد) ''سب پر بھاری‘‘ 80فیصد کے ساتھ دوسرے اور کینیڈا والے شیخ الاسلام ایک درجے کمی کے ساتھ تیسرے نمبر پرتھے۔
اہم اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سروے ستمبر‘ اکتوبر میں ہوا‘ پانامہ لیکس کے پانچ‘ چھ ماہ بعد‘ جب خان صاحب اس حوالے سے طوفان اٹھائے ہوئے تھے‘ جاتی امرأ کے نواح میں جلسۂ عام اور 2نومبر کے اسلام آباد لاک ڈائون کا اعلان بھی۔ خان اور بلاول میں صرف7فیصد کا فرق بھی بہت سوں کے لیے حیرت کا باعث ہو سکتا ہے اور مزید دلچسپ یہ کہ صاحبزادہ32فیصد پسندیدگی رکھتا ہے تو والدِ محترم ناپسندیدگی میں 80فیصد۔پلڈاٹ والے احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پاناما کے 4ماہ بعد اگست میں انہوں نے بھی سروے کرایا تھا‘ اعداد و شمار میں قدرے فرق کے ساتھ مجموعی Trendیہی تھا۔
گزشتہ روز زابر سعید بدر کے بلاگ سے دھیان ایک اور طرف چلا گیا‘ میاں منظر بشیر کی برسی۔ برصغیر کے ایک معروف علمی ‘ ادبی اور سیاسی خانوادے کا چشم و چراغ‘ رئیس ابنِ رئیس‘ ابنِ رئیس جس نے زندگی کے آخری ایام کس عالم میں گزارے‘ یہ اپنی جگہ ایک الم انگیز اور عبرت خیز کہانی ہے لیکن اس سے قبل ایک ملاقات کی روداد:۔
اگست 1997ء کی دوپہر‘ میاں منظر بشیر‘ جنابِ مجید نظامی سے ملاقات سے فارغ ہوئے تو میں انہیں رپورٹنگ روم میں لے آیا۔ اس شخص کا سینہ کتنے ہی سیاسی رازوں کا دفینہ ہے۔ میں بہت سی باتیں کرنا‘ کئی کہانیاں سننا چاہتا تھا لیکن تکان اور اضمحلال ان کے چہرے اور لہجے سے عیاں تھا۔''تحریک پاکستان کے زمانے کی کوئی بات‘‘؟ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاسِ دہلی‘ جو تین جون کے منصوبے کی منظوری کے لیے منعقد ہوا تھا‘منظر بشیر کے والد محترم میاں بشیر احمد بھی شرکأ میں شامل تھے۔ غیر رسمی ملاقات میں‘ ایک صوبے کے متوقع وزیر اعلیٰ کے بارے میں قائد کے سامنے اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ وہ خود توٹھیک ہیں لیکن ان کے '' رفقأ‘‘ غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں جس پر قائد نے فرمایا‘ ''لیکن کوئی شخص جناح کو کرپٹ یا گمراہ کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکا؟ صحیح آدمی کو کبھی اس کے راستے سے نہیں ہٹایا جا سکتا اور غلط آدمی کو ہر وقت گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ الزام ''رفقا‘‘ پر نہیں‘ براہِ راست اس فرد پر آتا ہے‘‘۔
میں انہیں الوداع کہنے نیچے تک آیا۔ لِفٹ سے نکلے تو پوچھا‘ ''آپ کی گاڑی کدھر ہے‘‘ ؟ ...''گاڑیاں اب کہاں؟ میں تو رکشے میں آیا تھا‘‘۔ دفتر نوائے وقت کے قریب ہی رکشہ مل گیا۔ انہوں نے ہاتھ ملایا اور سر جھکا کررکشے میں داخل ہو گئے۔ چند قدم کے فاصلے پر وسیع و عریض اور باوقار و شاندار ''شاہدین بلڈنگ‘‘ کھڑی تھی۔ میں نے ایک نظر شہر کے مہنگے ترین علاقے میں منظر بشیر کے دادا سے موسوم اس بلڈنگ پر ڈالی۔ مڑ کر دیکھا تو رکشہ ہجوم میں غائب ہو گیا تھا۔
یہ خاندان لاہور کے رؤسا میں شمار ہوتا تھا لیکن دولت کی فراوانی اس خاندان میں رئوسا والی روایتی خرابیوں کا باعث نہیں بنی تھی۔ دولت و ثروت سے زیادہ علمی‘ ادبی اور سیاسی حوالہ اس خاندان کی شہرت کا باعث تھا۔1906ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں منظر بشیر کے دادا جسٹس شاہ دین ہمایوں اور نانا سرشفیع بھی موجود تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی اس نوزائیدہ جماعت کا نام آل انڈیا مسلم لیگ انہی نے تجویز کیا تھا۔ منظر کے والد میاں بشیر احمد بھی سچے اور پکے مسلم لیگی تھے‘ اور اچھے شاعر اور ادیب بھی۔ 23مارچ1940ء کو مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں ان کی نظم ؎
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم‘ جاں ہے محمد علی جناح
پورے برصغیر کے مسلمانوں کی آواز بن گئی تھی۔ نوعمرمنظر بھی اپنے والد کے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ میاں بشیر احمد نے اپنے والد کی یاد میں ادبی جریدہ ''ہمایوں‘‘ جاری کیا۔جس نے دیکھتے دیکھتے ہی ادبی جرائد میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ کتنے ہی اہلِ قلم ''ہمایوں‘‘ کے باعث نامور ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد میاں بشیراحمد ترکی میں مملکتِ خدا داد کے سفیر مقرر ہوئے۔ لاہور میں ان کی رہائش گاہ‘ وسیع و عریض ''المنظر‘‘ (32لارنس روڈ) تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا اہم مرکز تھی۔ اسے قائد اعظم کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ علامہ اقبال سے بھی میاں صاحب کے گہرے تعلقات تھے۔1935ء میں مسز سروجنی نائڈو علامہ سے ملنے آئیں تو میاں بشیر احمد ان کے ہمراہ تھے۔
میاں منظر بشیر کا عنفوانِ شباب تھا جب پاکستان وجود میں آیا۔ وہ مملکت خداداد میں جمہوریت‘ سیاسی آزادیوں اوربنیادی حقوق کی ہر جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ وہ ''نجیب الطرفین‘‘ مسلم لیگی تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سرکاری مسلم لیگ(کنونشن) کی داغ بیل ڈالی تو منظر بشیر نے اس کے مقابل مسلم لیگ(کونسل) سے وابستگی کو ترجیح دی کہ ان کے خیال میں قائد اعظم کا کوئی سچا پیرو کار کسی فوجی آمر کا آلۂ کار نہیں بن سکتا تھا۔
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ‘ فیلڈ مارشل کے خلاف میدان میں اتریں تو منظر بشیر قائد کی ہمشیرہ کے ہر اول دستے میں شامل تھے اور صدارتی انتخابات میں مادر ملت کے کاغذاتِ نامزدگی کے دستخط کنندہ بھی۔ ''المنظر‘‘ ایوب خاں کے خلاف تحریک کا اہم مورچہ تھی۔ مادرِ ملت نے انتخابی مہم کے دوران لاہور میں یہیں قیام کیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد معاہدۂ تاشقند کی مخالفت میں بھی منظر بشیر پیش پیش تھے جس پر حزب اختلاف کے دیگر رہنمائوں کے ساتھ یہ بھی حوالۂ زنداں ہوئے لیکن اب بدقسمتی نے ان کا گھر دیکھ لیا تھا۔ ان کی رہائی کے لیے اہلیہ نے شہر کے ایک معروف (ترقی پسند) وکیل کی خدمات حاصل کیں اور اسی دوران منظر بشیر کے ساتھ ازدواجی بندھن سے آزاد ہو گئیں۔ چالیس کے پیٹے میں منظر کے لیے یہ صدمہ بہت سنگین تھا۔ ایوب خاں کے آخری برسوں میں سیاست میں ایر مارشل اصغر خاں کی آمد بہت سوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ ایئر مارشل نے جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھی تو منظر بھی ان کے ساتھ تھے۔
تنہائی کے ازالے اور ڈھلتی عمر میں رفاقت کے لیے منظر نے جس خاتون کا انتخاب کیا‘ بدقسمتی بھی اس کے ساتھ چلی آئی۔ اثاثے لُٹنے اور جائیدادیں بکنے لگیں۔ ماڈل روڈ کے چیئرنگ کراس پر شاہ دین بلڈنگ اور لارنس روڈ پر ''المنظر‘‘ بھی بک گئیں۔ ایک دن لندن سے خبر آئی‘ منظر بشیر کی زندگی کے سب سے بڑے المیے کی خبر‘ اپنی اہلیہ کے ہمراہ انہیں سات سال کی سزا ہو گئی تھی۔ نیک نام خاندان کے شریف النفس شخص کو قریب سے جاننے والوں کو یقین تھا‘ اس کیس میں منظر بے گناہ تھے۔
کروڑوں اربوں کی جائیداد تو ہاتھ سے نکل ہی گئی تھی‘ اب ''عزتِ سادات‘‘ بھی چلے جانے کا صدمہ کہیں زیادہ گہرا تھا۔ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے لیکن کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں تھا‘ کہ رہائی کے بعد اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹا اور پاکستان لوٹ آئے۔ اس دوران رہی سہی جائیداد رشتے داروں اور قبضہ گروپوں کی دستبرد میں چلی گئی تھی۔ اس بُرے وقت میں ایک دیرینہ دوست سعید بدر(ہمارے سینئر صحافی‘ اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں) کام آئے۔ نظام بلاک علامہ اقبال ٹائون کے 5مرلے کے گھر میں انہوں نے اپنے جگری دوست کے لیے بھی گنجائش پیدا کر لی تھی۔ افسردگی‘ ملال اور اضمحلال کے ان برسوں میں ایک ہمدمِ دیرینہ نے ساتھ دیا یا پھر دِل تھا جو اتنے صدموں کے بعد بھی ساتھ نبھا رہا تھا اور 6فروری 2001ء کو اس نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ ؎
اک عمر دیا اس نے جو ساتھ وہ کافی ہے
اب تھک سا گیا تھا دل‘ آرام ضروری تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved