تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-02-2017

سید علی گیلانی‘ آسیہ اندرابی‘ پانچ فروری اور کشمیر کمیٹی

ایمانداری کی بات ہے کہ پانچ فروری ایک قومی تعطیل کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ شکر الحمدللہ اس سال ہم اس منافقت بھری چھٹی سے بوجہ اتوار محفوظ رہ گئے۔ اب بھلا اس سے بڑی منافقت اور بے حمیتی کیا ہو گی کہ تین فروری کو ہم نے بھارتی فلموں پر پابندی ختم کی اور پانچ فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی منانے کے لیے سرکاری چھٹی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ سبحان اللہ!!
ہم نے سرکاری سطح پر آج تک کشمیر کے لیے کیا ہی کیا ہے؟ صرف زبانی مذمت‘ اخباری بیانات‘ اقوام متحدہ میں دو چار بار کی تقریریں اور ایک کشمیر کمیٹی کا قیام‘ بس یہی کچھ؟ دوسری طرف کشمیریوں نے الحاق پاکستان کے لیے کیا کیا قربانیاں دیں۔ صرف ایک بوڑھے شیر ضعیف العمر اور نحیف و نزار سید علی گیلانی کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالیں اور دوسری طرف اپنی ساری ستر سالہ زبانی کلامی جدوجہد بمعہ بھاری بھرکم چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن ڈال دیں تو یہ پلڑا اوپر کہیں آسمان پر ہی ٹنگا رہے اور ایک ملی میٹر بھی اپنی جگہ سے نہ ہلے۔
اللہ بے نیاز ہے اور اس کی رحمت سے مایوسی کفر ہے‘ لیکن ہم انسان ہیں اور دنیاوی اسباب کو بھی اسی کی جانب سے عطا کردہ نعمت سمجھتے ہیں مجھے کبھی کبھی یہ سوچ کر پریشانی سی ہوتی تھی کہ ایک اکیلا سید علی گیلانی آخر کب تک لائن آف کنٹرول کے اس پار پاکستان سے محبت کا پرچم اٹھائے رکھے گا؟ جو انسان پیدا ہوا ہے اس نے ایک روز اپنے اللہ کے حضور واپس جانا ہے۔ موت کا کوئی وقت متعین نہیں‘ لیکن بظاہر والے معاملات کو مدنظر رکھیں تو قانون قدرت یہی ہے کہ جوں جوں عمر میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے اس قادر مطلق کی طرف واپسی کا وقت کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
انتیس ستمبر 1929ء کو بانڈی پورہ میں پیدا ہونے والے سید
علی گیلانی کی عمر اب اٹھاسی سال کے لگ بھگ ہے۔ اس عمر میں لوگ چارپائی پر لیٹ کر اللہ اللہ کرتے ہیں اور ان کے پوتے پوتیاں (اگر وہ خوش نصیب ہوں) ان کی خدمت کرتے ہیں اور بس۔ یہاں یہ عالم ہے کہ الحاق پاکستان کا دعویدار یہ شیر گزشتہ چار دہائیوں سے میدان کارزار میں کھڑا بھارتی غاصبانہ قبضے کو للکار رہا ہے‘ پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے‘ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ بھارتی ظلم و بربریت کا سامنا کر رہا ہے‘ کبھی جیل میں ہے اور کبھی گھر میں نظربند ہے مگر اپنے اصولی موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں اور ایک ہمارے حکمران ہیں جن کو نہ کسی تکلیف سے گزرنا پڑا ہے اور نہ کسی صعوبت سے۔ نہ قید و بند سے اور نہ ظلم و تشدد سے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ بھارت سے کاروبار کرنے کے لیے بھی مرے جا رہے ہیں اور بھارتی فلموں کو پاکستان میں دکھانے پر بھی راضی ہوئے جا رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر بھارتی فلموں پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ مسئلہ بھارتی فلمیں نہیں‘ مسئلہ اصولی موقف کا ہے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان دشمنی کا ہے۔ بھارتی پروپیگنڈے کا ہے۔ بھارتی ثقافتی یلغار کا ہے۔ بحیثیت قوم ہماری طرف سے نفرت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ پاکستان میں بھارتی فلمیں پہلے وی سی آر اور اب کیبل اور سی ڈی کے ذریعے دیکھی جا سکتی ہیں لیکن کم از کم سرکاری سطح پر یہ پابندی برقرار رہنی چاہیے تھی۔ اسے آپ منافقت کہہ لیں‘ لیکن حکومتی موقف آپ کی قومی ترجیحات کی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ کے اجتماعی موقف کو ظاہر کرتا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر آج بھارت کا حصہ نہیں ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ دو سال ہوتے ہیں انگریزی رسالے ''دی اکانومسٹ‘‘ میں ایک نقشہ چھپا جس میں کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا تھا ۔بھارتی حکومت نے یہ رسالہ ضبط کر لیا اور اس کی ساری کاپیاں ائرپورٹ پر ہی اپنے قبضہ میں لے لیں۔ مگر اس ضبطی سے کشمیر کے متنازع ہونے پر رتی برابر فرق نہیں پڑا‘ لیکن بھارتی حکومت کا موقف اس سلسلے میں واضح ہو کر سامنے آیا۔ یہی چیز ہماری حکومت کو دکھانی چاہیے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانا چاہیے لیکن ان اصولی باتوں پر ڈٹ جانے کے بجائے ہماری حکومت کشمیر کمیٹی کو برباد کرنے کی پالیسی پر ڈٹی ہوئی ہے۔
ہماری کشمیر کمیٹی دراصل کشمیریوں کی مدد کرنے کے بجائے مولانا فضل الرحمن کو اکاموڈیٹ کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ جس کمیٹی کو دنیا بھر میں کشمیر پر پاکستانی موقف کو واضح کرنا تھا وہ کمیٹی گزشتہ آٹھ سال سے سرکاری سطح پر سیاسی بلیک ملینگ کو ناکام بنانے کی غرض سے مولانا فضل الرحمن کو خوش کرنے میں مصروف ہے۔ چاہے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو چاہے میاں نوازشریف کی۔ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی میں اپنے چمڑے کے سکے چلا رہے ہیں۔ ہماری طرف کشمیر کے نام پر موج میلا لگا ہوا ہے اور ادھر دوسری طرف یہ عالم ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نام لیوا مسلسل قید و بند اور ظلم و تشدد برداشت کر رہے ہیں۔ گزشتہ آٹھ سال سے مولانا فضل الرحمن وفاقی وزیر کے برابر سہولتوں اور اختیارات کو استعمال کر رہے ہیں جبکہ ان کا کشمیر کے نام پر بنائی جانے والی کشمیر کمیٹی کے لیے رتی برابر کام نہیں ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کمیٹی کے نام پر مسلسل آٹھ سال سے سرکاری پروٹوکول سے لے کر اسلام آباد میں رہائش اور مفت یوٹیلٹیز سے لے کر دنیا بھر کے مفت سفر تک سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ حال یہاں تک آن پہنچا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار مقبوضہ کشمیر سے سید علی گیلانی جیسا پاکستان کی محبت میں ڈوبا ہوا شخص بھی بالآخر کہہ اٹھا ہے کہ جس کشمیر کمیٹی کا سربراہ مولانا فضل الرحمن ہو اسے کشمیریوں کے مصائب اور آلام سے بھلا کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ سید علی گیلانی جیسے متحمل اور قوت برداشت رکھنے والے شخص کا یہ کہنا دراصل ہمارے ان حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جنہوں نے کشمیریوں کے نام پر بننے والی کمیٹی کی سربراہی کو اپنی ملکی سیاست اور پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کو سہارا فراہم کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہو اور سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کر رہے ہوں بھلا وہاں دنیا میں ہمارے کشمیر کاز اور مظلوم کشمیریوں کے درد کا مداوا کہاں ہو سکتا ہے؟۔
اتوار کی وجہ سے قوم کی ایک چھٹی ماری گئی تھی اور محض کشمیر کے نام پر اس روز سرکاری سطح پر چار ریلیوں کے بجائے اگر ہماری قومی اسمبلی پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پر قوم کو کشمیر کمیٹی کے لیے کسی معقول شخص کا تحفہ دیتی تو پتہ چلتا کہ حکمران کشمیریوں کی مشکلات کو کم کرنے اور ان کی پاکستان سے الحاق کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں مگر حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ وہ بھارت سے سالانہ آٹھ دس ارب روپے کے تو محض ٹماٹر ہی منگوا رہے ہیں اگر قوم میں تھوڑی سی غیرت یا حمیت ہوتی تو وہ پانچ فروری سے محض چند دن قبل بھارتی فلموں سے پابندی اٹھانے پر ان آٹھ دس ارب روپے والے امپورٹڈ بھارتی ٹماٹروں میں سے چند ایک ٹماٹر حکمرانوں پر بھی مارتی مگر جیسے حاکم ویسی قوم والا معاملہ ہے۔ تین سو بیالیس ارکان والے ایوان میں چار لوگ بھی ایسے نہیں جو سید علی گیلانی کے طعنے کے بعد یہ سوال اٹھاتے کہ آج تک کشمیر کمیٹی نے حقیقی طور پر کیا کیا ہے؟۔
ویسے تو یہ سوال کسی بھی قومی ادارے اور سرکاری محکمے کے بارے میں کیا جا سکتا ہے مگر فی الوقت بات صرف کشمیر کی ہو رہی ہے جو بقول قائد ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ مگر ہمارے حکمرانوں کے نزدیک بھارت سے تجارت بشمول بھارتی فلمیں زیادہ اہم ہے۔ آپا آسیہ اندرابی کا شوہر گزشتہ پچیس سال سے بھارتی قید میں ہے مگر سلام ہے اس بہن کو اس نے اس ظلم و زیادتی پر مصالحت کے بجائے جدوجہد کا راستہ اپنایا اور اس کی استقامت ہمارے حکمرانوں کے لیے شاید مشعل راہ تو نہ ہو مگر باعث شرم ضرور ہے۔ ایک طرف قربانیاں اور دوسری طرف سے نمک پاشی۔ تاہم فکر کی کوئی بات نہیں‘ اگلے سال پانچ فروری پیر والے دن آئے گا قوم کو مبارک ہو کہ اسے آئندہ سال چار اور پانچ فروری کو لگاتار دو چھٹیاں نصیب ہوں گی جو وہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں چلنے والی کشمیر کمیٹی کے زیرسایہ منائیں گے۔!!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved